عمر فاروق:
انڈین فوج کے کم از کم ایک اعلی جنرل کا دعویٰ ہے کہ اس انتظام کو باضابطہ بنانے کے لیے کسی خط کا نیم سرکاری بنیاد پر تبادلہ نہیں ہوا تھا اور انڈین آرمی چیف جنرل سندر جی اس سے آگاہ نہیں تھے۔ ’پاکستان آرمی کو جنگی مشقوں سے متعلق انڈین فوج کی جانب سے مکمل معلومات نہ دینے کی وجہ سے بہت ساری غلط فہمیوں اور غلط نکتہ ہائے نظر نے جنم لیا۔‘ گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں افواج کے درمیان غلط فہمیوں کا نتیجہ پورے خطے میں جنگ کی صورت میں نکل سکتا تھا۔
’براس ٹیک‘ مشقیں سیاسی خلا میں نہیں ہوئی تھیں، اس کے برعکس یہ کہاگیا کہ انڈین فوجی منصوبہ ساز چاہتے تھے کہ انڈیا کے مشرقی پنجاب صوبہ میں پاکستانی دباؤ کو ختم کیا جائے جو بڑے پیمانے پر سکھوں کی شورش میں گھرا ہوا تھا۔انڈیا چاہتا تھا کہ یہ دباؤ پاکستانی صوبہ سندھ کی طرف موڑ دیا جائے جہاں ضیا کے خلاف سیاسی تحریک جاری تھی۔
گروپ کی دوسری اشاعت ’چار بحران اور امن عمل‘ میں براس ٹیک جنگی مشقوں کی منصوبہ بندی کے وقت انڈین فوجی قیادت کی سوچ کو بیان کرتے ہوئے کہاگیا کہ ’براس ٹیک سیاسی منظرنامہ تاثر دیتا ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں شورش کی وجہ سے صورتحال ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھی جبکہ سکھ جنگجوؤں نے آزاد سکھ قوم کے لیے ’خالصتان تحریک‘ کا اعلان کر دیا تھا جس سے پاکستان کو حوصلہ ملا کہ کشمیر اور خالصتان دونوں کو انڈیا سے جدا کر دیا جائے۔‘پاکستان کی فوجی حکومت اپنے جواز کے بحران سے دوچار تھی جبکہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ قوم پرستوں کی قیادت میں ضیا کے خلاف تحریک جاری تھی۔ یہ حیران کن نہیں تھا کہ مذہبی جماعت جماعت اسلامی جو جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے ساتھ تھی، اس وقت انڈین بدنیتی کو قصور وار ٹھہرانے میں پیش پیش تھی۔
سرحد کے دونوں جانب سے جنگی اشتعال انگیز بیانات کی گولہ باری جاری تھی، ایسے میں پاکستانی مذہبی دائیں بازو کے رہنماؤں نے عوام سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا پاکستان کے صوبہ سندھ پر حملہ کرنے والا ہے۔امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور اسی جماعت کے ایک اور رہنما میاں طفیل محمد اس ضمن میں پیش پیش تھے۔
جنوبی ایشیائی امور کے امریکی ماہر سٹیون کوہن نے دونوں ممالک کی اعلی فوجی و سیاسی قیادت کے درمیان رابطے (کمیونیکیشن) کے فقدان کو جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ کی پس پردہ بڑی وجہ کے طور پر نشاندہی کی ہے۔مطالعہ میں مرتب کردہ واقعات کی تاریخ وار ترتیب میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 15 نومبر 1986 میں انڈین ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو آگاہ کیا کہ انڈیا راجستھان سیکٹر میں جنگی مشقیں شروع کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے فوجی دستوں کی نقل و حرکت کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔پاکستان کی طرف سے شکایت کی گئی کہ پاکستان کو فراہم کردہ معلومات نامکمل ہیں اور ان جنگی مشقوں کو پاکستان اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے کیونکہ ان مشقوں کی سمت اور محور پاکستانی سرحد کی جانب ہے۔
دسمبر 1986 کے وسط میں دونوں افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔ ذرا سی غلط فہمی یا غلط حرکت دونوں طرف مکمل جنگ میں بدل سکتی تھی۔ گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’فوجی نکتہ نگاہ سے آٹھ دسمبر 1986 کے آغاز سے 23 جنوری 1987 تک ڈیڑھ ماہ کشیدگی انتہائی عروج پر تھی۔‘مطالعہ میں قرار دیا گیا کہ آٹھ دسمبر سے 23 جنوری 1987 تک پاکستان اور انڈیا کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اپنے انڈین ہم منصب کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا کہ پاکستانی فوجی مشقوں کی مدت میں 15 دسمبر 1986 سے مزید توسیع کر دی گئی ہے جس میں حملہ آور دستے بھی شامل تھے کیونکہ پاکستانی فوج کے نکتہ نظر سے براس ٹیک جنگی مشقوں کے پیچھے انڈیا کے نیک ارادے نہیں تھے۔
دسمبر 1986 کے وسط میں انڈین میڈیا نے خبر دی کہ پاکستانی توپ خانہ (آرمرڈ رجمنٹ) بہاولپور میں ایام امن کے مقام سے آگے سرحد کے قریب ڈیرے لگا چکا ہے۔ فوجی منصوبہ سازوں نے اس خبر کو ہوا میں اڑا دیا تاہم سرحد کے دونوں طرف پراسرار سرگرمیاں جاری رہیں۔نومبر 1986 میں پاکستان کی فضائیہ نے ’ہائی مارک‘ مشقوں کا آغاز کر دیا، ان کے مکمل ہونے کے باوجود بھی پاکستانی فضائیہ (پی اے ایف) کے سیٹلائٹ اڈے پوری طرح فعال تھے۔؎24 جنوری 1987 میں پاکستان کے انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ نے خبر شائع کی کہ پاکستانی آرمرڈ ڈویڑنز (توپ خانہ ومشینی دستے) کے انڈین سرحد کے قریب نقل وحرکت کی وجہ سے انڈین فوج اور فضائیہ کو ’ہائی الرٹ‘ کر دیا گیا ہے۔اسی روز نئی دہلی میں پاکستانی سفیر ہمایوں خان کو انڈین وزیرمملکت برائے خارجہ امور نٹور سنگھ نے بلایا اور پاکستانی حکومت کو پیغام دیا کہ پاکستانی فوج خاص طور پر’آرمرڈ ڈویڑنز‘ کی پیش قدمی ’جارحانہ اور اشتعال انگیز‘ ہے۔
کہا گیا کہ افواج کی حالت امن کے مقام پر واپسی کے ذریعے سے پاکستان اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے سکتا ہے۔ گروپ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’پاکستان ریزور نارتھ‘ کہلانے والی حملہ کرنے کی قوت کی حامل پاکستان کی بری افواج شکرگڑھ کے علاقے میں انڈین سرحد کے نزدیک مشقیں شروع کر چکی تھیں۔پاکستانی افواج کی اول اور دوم درجے کی ہراول صفوں میں اسلحہ بھی تقسیم کیا جا چکا تھا۔ تمام علاقوں سے شہری عام آبادی نقل مکانی کر چکی تھی۔ سرحد کے قریب علاقوں اور پلوں پر بارودی سرنگیں بچھا دی گئی تھیں جبکہ فوجی افسروں اور جوانوں کی چھٹیاں منسوخ ہو چکی تھیں۔اس مطالعہ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان اعلی ترین سیاسی سطح پر رابطے اس وقت شروع ہوئے جب وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اپنے انڈین ہم منصب راجیو گاندھی سے انڈین شہر بنگلور میں سارک سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی جہاں راجیو گاندھی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو بتایا کہ بھاری اخراجات کی وجہ سے براس ٹیک جنگی مشقوں میں کمی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی طرف سے انڈین وزیراعظم کی پاکستانی ہم منصب کو دی جانے والی اس اطلاع کو جھوٹ اور فریب سمجھا گیا کیونکہ زمین پر ایسی کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ دونوں طرف سے سیاسی رابطے اور سفارتی بات چیت جاری رہی اور بالآخر چار فروری 1987 کو معاہدہ ہوگیا اور کشیدگی کا خاتمہ ہوا۔سٹیون کوہن کی سرکردگی میں براس ٹیک مطالعاتی گروپ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان کی طرف سے انڈین صحافی کے ذریعے دی جانے والی جوہری دھمکی نئی نہیں تھی اور اس بحران کے دوران اور اس سے پہلے بھی (ڈاکٹر اے کیو خان) سمیت پاکستانی حکام کا اس طرح کی باتیں کرنا عام عمل بن چکا تھا۔
سنہ 1980 کے وسط میں پاکستانی حکام کی جانب سے یہ اس نوع کی مخفی جملہ بازی یا واضح بیانات معمول تھے جن میں اپنی بقا کو خطرہ لاحق ہونے پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا تاثر دیا جاتا تھا۔
اس کی تصدیق ڈاکٹر اے کیو خان نے بھی اس نمائندے سے اپنے انٹرویو کے دوران کی۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہر چند ماہ بعد جنرل ضیا مجھے بیان دینے کے لیے کہتے کہ انڈین شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ یہ اس وقت ضروری تھا۔‘مطالعاتی گروپ نے قرار دیا کہ جب ڈاکٹر خان اور انڈین صحافی کی ملاقات ہوئی، اس سے پہلے بحران کا وقت گزر چکا تھا۔ سٹیون کوہن کی قیادت میں مطالعاتی گروپ کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ 28 جنوری تک بحران کسی نہ کسی طور پر ختم ہو چکا تھا۔اگر فوری یہ پیغام دیا جاتا تو شاید انڈین حکومت اس کا ادراک کرتی لیکن ایسے غیرروایتی انداز کے حوالے سے یہ کہنا الگ بات ہے۔ صداقت شعاری سے ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ واقعات کی اس تعبیر کی بعد ازاں ڈاکٹر اے کیو خان نے تردید کی تھی جنھوں نے یہ الزام عائد کیا کہ دھوکے سے ان سے انٹرویو کیاگیا۔
گروپ کی رپورٹ میں بار بار جوہری دھمکیاں دینے کے پاکستانی رویہ کو بیان کرتے ہوئے کہاگیا کہ ’بظاہر پاکستان محسوس کرتا ہے کہ انڈین خطرے کے تصور کو جوہری قوت سے رفع کرنے کے بار بار اعلانات سے ان کے احساس تحفظ کا اعادہ ہوتا ہے۔‘پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کے لیے اس بحران اور خطرے کے نتیجے میں علاقائی اور قومی سطح پر پاکستان میں دو پیش ہائے رفت ہوئیں۔ علاقائی سطح پر یہ ہوا کہ واشنگٹن پاکستان اور انڈیا میں مستقبل میں کسی ایسے بحران کی شدت میں کمی کے لیے روابط کے فروغ پر کاربند ہوا۔ اعتماد سازی کے بہت سارے اقدامات ہوئے، وہ پابندیاں ختم ہوئیں جو سویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے تناظر میں فوجی امور سے متعلق تھیں اور سٹرٹیجک حکمت عملی کے تحت جنوبی ایشیا میں عائد کی گئی تھیں۔
اول یہ کہ پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملے میں پہل نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ اس ضمن میں ہر نئے سال کے پہلے دن دونوں ممالک اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بعدازاں دونوں ممالک نے کشیدگی کی صورت میں اعتماد سازی کے بہت سارے اقدامات پر دستخط کیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔