شاہ محمد رضا پہلوی کی جلا وطنی سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب تک
جم موئیر
یہ اکتوبر 1979 کی بات ہے۔ شاہ محمد رضا پہلوی کو ایران سے فرار ہوئے آٹھ ماہ بیت چکے تھے اور آیت اللہ روح اللہ خمینی فرانس میں جلاوطنی سے واپس ایران آ کر یکم اپریل کو رہبرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائض ہو چکے تھے۔ ایسے میں سی آئی اے کے ایک سینیئر افسر جارج کیو امریکہ سے تہران پہنچے اور ایران کے عبوری ڈپٹی وزیرِ اعظم عباس امیر اور وزیرِ خارجہ ابراہیم یزدی سے ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے دونوں رہنماؤں کو خبردار کیا کہ مصدقہ خفیہ معلومات اور انٹیلی جنس ایجنسیز کو ملنے والے شوہد کے مطابق ہمسایہ ملک عراق کے صدر صدام حسین خاموشی مگر منظم انداز سے ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اب تک امریکہ کی انقلاب کو ناکام بنانے اور شاہ کو واپس اقتدار میں لانے کی تمام تر امیدیں ماند پڑ چکی تھیں تاہم انھیں اس بات کی امید ضرور تھی کہ وہ تہران میں نئی قیادت کے ساتھ تعلقات استوار کر پائیں گے، ابھرتی ہوئی اسٹیبلشمنٹ میں سے اعتدال پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کر سکیں گے اور ایران کو سرحد پار موجود سوویت یونین سے متعلق جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے جو اس وقت امریکہ کے ایجنڈا پر سرِ فہرست تھا۔تاہم ان میں سے کچھ بھی ممکن نہیں ہونے والا تھا۔
ایران کے لیے امریکہ ‘ایک عظیم شیطان’
اکتوبر میں کیو کی دوسری ملاقات کے دو روز بعد اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر کینسر کے مرض میں مبتلا شاہ کو نیویارک سے علاج کرنے کی اجازت دے دی۔ ان کا یہ فیصلہ ایرانیوں کو ہرگز نہ بھایا اور انھوں نے تہران میں مظاہرے شروع کر دئیے جن کا اختتام ایران میں امریکی سفارت خانے پر چار نومبر کو ہونے والے حملے اور 61 سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے پر ہوا۔ ان غیر معمولی واقعات کے باعث 444 روز تک یرغمال بنائے گئے افراد کے گرد ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہو گئی جس نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایسا تناؤ پیدا کیا جو آج تک باقی ہے۔ ایران کے انقلابی اس وقت بھی اور آج بھی امریکہ کو’ایک عظیم شیطان’ قرار دیتے ہیں۔ جس شاہ کو واشنگٹن کی جانب سے اب نظرانداز کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، انھیں 1953 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور برطانیہ کی مدد سے کی جانے والی بغاوت کے نتیجے میں منتخب وزیرِ اعظم محمد مصدق کی حکومت کی جگہ لایا گیا تھا۔ مصدق اتنے بے باک تھے کہ انھوں نے ایران کی تیل کی صنعت کو سرکاری تحویل میں دے دیا تھا۔ رضا شاہ پہلوی کے دورِ اقتدار کے دوران طاقت کے بے جا استعمال کی انگنت مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی توجہ ملک میں مغربی ثقافت کو رائج کرنے سے لے کر اپنی خفیہ پولیس ‘ساوک’ کے ذریعے خوف برقرار رکھنے اور امریکہ کی نظروں کا تارا بنے رہنے تک تھی۔ تاہم اس سب کے درمیان ان کا تعلق عام عوام سے منقطع ہو چکا تھا۔ ایرانی انقلاب سے صرف ایک برس قبل صدر کارٹر نئے سال کی تقریبات کے موقع پر رضا شاہ پہلوی کے پہلو میں کھڑے یہ کہہ رہے تھے: ‘شاہ کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے باعث ایران ‘استحکام کا جزیرہ’ بن چکا ہے۔’ سفارت خانے کا محاصرہ اور سفارت کاروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ نہ صرف ایران امریکہ تعلقات میں بلکہ ایرانی انقلاب میں ایک غیر معمولی اور تاریخی لمحہ تھا۔ ایرانی انقلاب کی مختلف اشکال تھیں اور اس کی ایک مثال اس دوران مہدی بازرگان کی قیادت میں قائم ہونے والی متنوع عبوری حکومت تھی۔
جہانگیر ترین کیس، راجہ ریاض نے وزیر اعظم عمران خان کو آخری وارننگ دیدی
آیت اللہ خمینی نے اس وقت ان عسکریت پسند طلبا کی حمایت کی تھی جنھوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر رکھا تھا اور مبینہ طور پر ان طلبا میں سے ایک محمد احمدی نڑاد بھی تھے جو سن 2005 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ بازرگان حکومت کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ملک میں اسلام پسند بیانیے کو خاصی تقویت مل چکی تھی۔
اگلے ہی برس امریکہ کی جانب سے دی گئی وارننگ کے عین مطابق صدام حسین کی قیادت میں عراق نے مشرقی ایران پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں 20ویں صدی کی طویل ترین جنگ کا آغاز ہوا جو بالآخر آیت اللہ خمینی کے الفاظ میں ‘زہر کا گھونٹ پینے’ یعنی ایک امن معاہدے کو قبول کرنے کے بعد ختم ہوئی۔ اس جنگ نے اسلام پسند گروہوں کو مقامی طور کسی بھی قسم کے مزاحمتی تحریکوں کو دبانے کا موقع دیا جیسے قدامت پسند افراد کی جماعتیں یا مجاہدین خلق۔ جیسے جیسے جنگ طویل ہوتی گئی ایران کے اسلام پسند گروہوں نے اس انقلاب کو برآمد کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ مثال کے طور پر لبنان میں 1982 کی اسرائیلی حملے کے بعد وہ اپنے شامی حمایتیوں کے ساتھ مل کر حزب اللہ نامی شیعہ تحریک قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ اس گروہ کو 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے اور امریکی فوجی دستوں کی بیرکس پر دھماکے کرنے اور 1980 کی دہائی کے آخر میں لبنان میں امریکی شہریوں کو یرغمال بنانے کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے۔ تہران کو عراق کی جانب سے ممکنہ حملہ کی اطلاع دے اس کی حمایت حاصل کرنے کے ناکام منصوبے کے بعد امریکہ نے عراق کی طرف داری شروع کر دی اور ایرانی فوج کی نقل و حرکت سے متعلق عراق کو معلومات پہنچانی شروع کر دیں۔ اس سب کا مقصد ایرانی انقلاب کو محدود کرنا تھا۔ تاہم دیگر عوامی معاملات میں دونوں اطراف سے کمال عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ نومبر 1986 میں ایک غیرمعروف لبنانی جریدے الشراع نے پیچیدہ لیکن غیر معمولی کہانی چھاپی جس کے مطابق امریکی حکام تہران پہنچے اور لبنان میں یرغمال بناے جانے والے امریکیوں کی رہائی کے بدلے اسلحہ لائے۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور جب ایران پر تجارتی پابندیوں خاصی سخت تھیں۔
یہ کہانی بعد میں سچ ثابت ہوئی۔ امریکہ دراصل اسرائیل کے ذریعے ایران کو اسلحہ بیچ رہا تھا تاکہ یرغمال بنائے جانے والے امریکیوں کی آزادی یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے لین دین سے ملنے والی رقم کو خفیہ طور پر وسطی امریکہ کے ملک نکاراگوا کے کونٹرا باغیوں کی امداد میں لگائی گئی تھی۔سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور ان کی وجہ مختلف واقعات تھے جن میں امریکی بحری جہاز کی جانب سے ایک ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانا شامل ہے جس کے نتیجے میں 290 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2002 کے آخر میں ایران کا خفیہ جوہری پروگرام اچانک سے منظر عام پر آ گیا اور یہ راز ’مجاہدین خلق‘ کے جلاوطن ہونے والے اراکین نے افشا کیا۔
اس سے یورپ کو ایک موقع ملا کہ وہ ایران کے ساتھ ‘تعمیری مذاکرات’ کر سکیں۔ برطانیہ فرانس اور جرمنی کے وزرا خارجہ بارہا تہران کا دورہ کرتے رہے اور ایران سے یورینیم کی افزودگی روکنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ تاہم اس دوران امریکہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں بنا۔ ایران نے سن 2004 کے اواخر میں اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ یورینیئم کی افزودگی روک دیں گے تاہم اس دوران بھی سخت گیر نظریات رکھنے والے افراد نے مداخلت کی۔ سن 2005 میں محمد احمد نژاد ایران کے نئے صدر منتخب ہوئے اور اگلے ہی برس ایران کی ایک مرتبہ پھر یورینیئم کی افزودگی کا آغاز کر دیا۔
سن 2013 میں جب روحانی صدر منتخب ہوئے ۔ دو سال کے پیچیدہ مذاکرات کے بعد روحانی اور ان کے باصلاحیت وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سب کے علاوہ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای بھی ان مراحل کا حصہ ہیں اور انھیں ایران کی جانب سے دی جانے والی متعدد رعایتوں کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے باعث تہران کی حد تک اس معاہدے کو سیاسی طور انتہائی مضبوط بنانے میں مدد ملی۔ اس معاہدے کو آزاد خیالات کے مالک اور اصلاح پسند افراد کی جانب سے خوب سراہا گیا جبکہ سخت گیر نظریات رکھنے والوں نے اس پر معمولی ردِ عمل دیا۔ ہر کوئی یہ مانتا ہے کہ یہ خاصا ‘تاریخی’ معاہدہ، لیکن ہر کسی کے لیے تاریخی کی تعریف مختلف ہے۔
روس نے 10 امریکی سفارتکاروں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا
ایران کے حامی ملک شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ ’یہ ایران، اس خطے اور دنیا کے لیے ایک تاریخی اہمیت کا حامل موقع ہے۔‘ ادھر بنیامین نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک تاریخی غلطی ہے۔‘ تاہم شاید ان تمام افراد کے لیے اگلے ہی برس امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب اتنے اہم نہیں تھے، یا شاید کسی کو بھی اس انتخابی نتیجے کی توقع نہیں تھی جو بالآخر سامنے آیا۔
2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب جہاں امریکہ میں موجود سیاسی ماہرین کے لیے ایک دھچکا تھے وہیں یہ عالمی رہنماؤں کے لیے بھی حیرانی اور خدشے کا باعث تھے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی ان خدشات کو درست ثابت کیا اور امریکہ کے عالمی تعلقات میں یکسر تبدیلی لے آئے۔ اس انتخابی نتیجے سے شاید جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ایران کیونکہ ٹرمپ اپنے صدارتی دور کے آغاز میں جوہری معاہدے سے دستربرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر کڑی معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ایسے میں ایران جہاں پہلے حسن روحانی کی آمد سے پہلے بھی معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اب ایک مرتبہ پھر سے ان کا سامنا کرنے لگا۔
ٹرمپ کا اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب جھکاؤ بھی گذشتہ صدور سے زیادہ تھا جس کے باعث ایران نے اپنے آپ کو خطے میں تنہا محسوس کرنا شروع کردیا اور ایسے ایک مرتبہ پھر سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ ادھر گذشتہ برس کے آغاز میں ہی امریکہ نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔
اس وقت تمام نگاہیں امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن پر ہیں جن سے جوہری معاہدے کا دوبارہ حصہ بننے کی توقع کی جا رہی ہے۔ یعنی ایران امریکہ تعلقات میں ایک نیا باب رقم ہونے کو ہے۔
٭…٭…٭