مختار مسعود
مینار قراردادِ پاکستان کی مجلس تعمیر کی نشست تھی، میز کے اردگرد تمام اراکین جمع تھے۔ میں آج ان میں پہلی بار شامل ہوا تھا۔ کارروائی کی پہلی شِق غور کے لیے پیش ہوئی، میرا ذہن اس وقت برنارڈشا کے اس مقولے پر غور کرنے میں مصروف تھا کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔ میں بلحاظ عہدہ اس مجلس کی صدارت کررہا ہوں مگر عہدے کو ایک عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے۔ میرے عہدے کا تعلق تعمیر سے ہے، میرے عہدے کا تعلق تحریک سے تھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے سنگ وخشت کے بجائے جہانِ نو کی تعمیر اور افکارِنو کی تعبیر سمجھا۔ میں نے اس مینار کو باالفاظ اقبال جلوہ گر جبرئیلؑ جانا اور سوچا:
مودی سرکار کا فاشسٹ، گھناؤنا اور سفاک چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب
باکہ گوئم سرّ ایں معنی کہ نورِ روئے دوست
بادماغِ من گل وبا چشمِ موسیٰ آتشست عرفی
مینار کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں جب میرا اس کی تعمیر سے کوئی سرکاری تعلق نہ تھا، میں محض تعلق خاطر کے واسطہ سے وہاں جاپہنچا۔ بنیادیں بھری جاچکی تھیں، باغ میں ہر طرف ملبہ پھیلا ہوا تھا، مینار بلندی کی طرف مائل تھا، روکار بانسوں کی باڑ میں یوں چھپی ہوئی تھی کہ عمارت تو نظر نہ آئی مگر اُردو شاعری میں چلمن کا مقام مجھ پر واضح ہو گیا۔ نزدیک جانا چاہا تو چوکیدار نے سختی سے روک دیا۔ یہ تو اس چوکیدار کا ہمسر نکلا جسے مولوی عبدالحق نے وائسرائے کو ٹوک دینے پر آثارِ قدیمہ سے نکال کر چند ہم عصروں میں شامل کرلیا تھا۔ اب کہاں روز روز عبدالحق پیدا ہوں گے اور کسے فرصت ہو گی کہ عصرِنو کے ملبے میں عزتِ نفس کی تلاش کرے اور ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مضمون لکھا کرے۔ میں نے چوکیدار سے پوچھا، یہ کیا بن رہا ہے؟ کہنے لگا، یادگار بن رہی ہے۔ آج جب کارروائی کے لیے پہلا مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجئے تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہوسکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کردیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینار قرارداد پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔ جو تھوڑی بہت جگہ بچ گئی اس میں چائے کی پیالیاں سجائی گئیں۔ چائے شروع ہوئی تو بات بہت دور جانکلی۔
آخری دائو
کہتے ہیں کہ جب اہرامِ مصر کا معمار موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیے۔ پھر اس نے بھربھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیے۔ جب دھوپ میں ریت کے ذرّے چمکنے لگے تو اسے خیال آیا کہ اس کی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کرلے تو کیا اچھا تقابل ہو گا۔ ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کردیے۔ اتنے فیصلے کرنے کے بعد بھی اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنا دے۔ اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائب عالم کی فہرست میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اہرام کے معمار کو اگر اقبال پارک میں لاکھڑا کرتے تو اسے نہ جانے کیا کچھ نظر آتا اور وہ اس عمارت کو نہ معلوم کیا شکل دیتا۔ اس کی غیرحاضری میں ہمیں یہ طے کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ قرارداد پاکستان کو علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے۔ باغ، جھیل، فوارے،مسجد، کتب خانہ، عجائب گھر، ہال، ہسپتال، دروازہ، درس گاہ یا مینار۔ فہرست کچھ اسی قسم کی بنی تھی اور بحث وتمحیص کے بعد کامیابی کا سہرہ سرِمینار سجایا گیا۔ موقع ومحل کی نسبت ہو یا صورت وساخت کی نسبت، ماہرین کا متفق ہونا ممکن نہیں۔ اقبال پارک کے مشرق اور شمال میں وسعت اور ہریالی، مغرب میں ایک محلہ، کچھ جھگیاں اور گندہ نالہ، جنوب میں قلعہ، گوردوارہ اور مسجد عالمگیری واقع ہے۔ سطح زمین سے دیکھا جائے تو تین سفید بیضوی نوک دار گیند اور چار بلند سرخ پہلودار مینار اس قطعے پر حاوی ہیں۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو اندرونِ شہر، دریائے راوی اور جہانگیر کے مقبرے کے چار مینار بھی اس منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آٹھ میناروں کے ہوتے ہوئے نوین مینار کا اضافہ کسی نے حسن جانا اور کسی نے بدذوقی۔ اس بات کو البتہ سبھی تسلیم کرتے ہیںکہ عمارت اپنی نسبت کی حیثیت سے منفرد ہے۔ دُنیا میں کہیں کسی قرارداد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں منائی گئی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کردیا جائے۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے تحت وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی، اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخرکار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا۔ مینارِ قرارداد ان ساری حیثیتوں پر محیط ہے۔ یہ نظریاتی دفاع کی ضرورت، تحریک آزادی کی علامت، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے۔
دفاعی میناریوں تو میسوپوٹیمیا کی اختراع بتائے جاتے ہیں مگر ان کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے اہلِ روم اور بازنطینی تھے۔ ان کے یہاں شہر کی فصیل سے لے کر ہر بڑی حویلی میں جابجا مینار بنے ہوئے تھے۔ ان دنوں دُنیا کی آباری مختصر اور جغرافیے کا علم کم تھا، فن حرب کا درجہ بھی پست تھا، حملہ آور گنے چُنے اور ان کے ہتھیار دیکھے بھالے تھے لہٰذا دفاع کے لیے یہ کوتاہ قامت مینار ہی بہت کافی تھے۔علم اور آبادی دونوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ فنِ حرب کا درجہ بھی بلند ہوتا چلاگیا، جنگوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ جگہ جگہ مضبوط سے مضبوط اور بلند سے بلند تر مینار بننے لگے۔ آبنائے باسفورس، جنوبی فرانس اور وسط چین کی مشہور فصیلیں اور مینار اسی دور کی یادگار ہیں۔ دیوارِ چین میں جواب ہاتھی کے دانت کی طرح صرف دکھانے کے کام آتی ہے جابجا دفاعی مینار اور برج بنے ہوئے ہیں۔ چین گئے تو دیوار دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دیوار بھی دیکھی اور اہلِ دیوار بھی۔ معلوم ہوا کہ جو کام پہلے دیواروں سے لیا جاتا تھا وہ اب دیوانوں سے لیتے ہیں۔ جہاں لوگ شانہ بشانہ صف بہ صف ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں تو وہی سدِّ سکندری ہے اور وہی سدِّیاجوج۔ ایک دن ہم دیوار کی طرف روانہ ہوئے، سڑک میدان سے گزر کر پہاڑی سلسلے میں داخل ہو چکی تھی۔ دور سے ایسا معلوم ہوا کہ جہاں پہاڑ اور اُفق ملتے ہیں وہاں کسی نے سیاہ پنسل سے ایک مدھم سی لکیر لگا دی ہے۔ کچھ اور آگے گئے تو دور تک سلسلہ کوہ سنجافی نظر آیا۔ نزدیک پہنچے تو یہ مدھم سی لکیر حیرت کدہ ہنر بن گئی اور جسے ہم نے سنجاف سمجھا تھا وہ ایک سنگلاخ حقیقت نکلی۔ دیوار عمودوار ایک پہاڑی پر چڑھتی تھی اور چوٹی پر ایک دفاعی مینار بنا ہوا تھا۔ میں نے جیب سے پچاس یوآن کا نوٹ نکالا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ انعام مینار پر سب سے پہلے پہنچنے والے کو ملے گا۔ سبھی بھاگ پڑے اور میں نے جانا کہ یہ نوجوان بھی پسماندہ ملکوں کی طرح زرمبادلہ کی دوڑ میں شریک ہو گئے ہیں۔ ذرا سی دیر میں بھاگنے والوں کا دم پھول گیا اور وہ ایک ایک کر کے فرش پر بیٹھ گئے۔ مینار اب بھی اتنا ہی دور نظر آتا تھا اور اگر اس میں یہ خوبی نہ ہوتی تو اب تک دیوارِ چین میں کئی بار نقب لگ چکی ہوتی۔ یہ کام جو بڑے بڑے ملک نہ کرسکے اُردو شاعری نے کردکھایا، شعر ہے:
میرے شیون سے فقط قصرِ فریدوں نہ گرا
سدِّ اسکندرِ اورنگ نشیں بیٹھ گئی
اب صرف حضرتِ ناظم کو جن کا یہ شعر ہے کیوں قصوروار ٹھہرایئے، قصور ہے تو خود ہمارے مزاج کا۔ دیوارِ چین تو نہیں البتہ دیوارِچمن تو حضرت غالب نے بھی ڈھا دی تھی، کہتے ہیں:
برشکالِ گریۂ عاشق ہے، دیکھا چاہیے
کھل گئی، مانند گل، سوجا سے دیوارِ چمن
دفاعی مینار پر چڑھنے کی جو حسرت دل کی د میں رہ گئی تھی اسے میں نے مغربی پاکستان کے قبائلی علاقے میں جاکر پورا کیا۔ میں نے ایک سردار کے یہاں کھانا کھایا اور مہمان کا حق آسائش استعمال کرتے ہوئے مٹی کے اس مینار پر جا چڑھا جو حویلی کے ایک کونے میں بنا ہوا تھا۔ باہر سے تو اس کی لپائی کی ہوئی تھی مگر اندر سے مینار اریک اور خستہ تھا۔ خاک ریز سے جو روشنی کرن اندر آتی تھی وہی ہمارا زینہ تھا۔ مینار کی شہ نشین میں ایک ٹوٹی کرسی اور چند کارتوس پڑے ہوئے تھے۔ پاس ہی ایک ٹرانسسٹر بج رہا تھا۔ میں نے کبھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند تو نہیں دیکھا مگر میسوپوٹیمیا کے دفاعی میناروں کی طرز کے ہزارہا سال پرانے مٹی کے میناروں میں بیسویں صدی کا گاتا بجاتا پیوند لگا ہوا ضرور دیکھا ہے۔
سمندر کے کنارے جو مینار نشان راہ کے طور پر بنائے جاتے ہیں ان کے بالائی حصے رات کو روشن رہتے ہیں اس لیے انہیں روشن مینار کہتے ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ مینار طوفانی علاقوں میں خطرناک چٹانوں پر بنائے جاتے ہیں اور ان میں رات کو روشنی کرنے والے کی زندگی جفاکشی اور تنہائی سے عبارت ہے۔ اگر طوفان آجائے تو دنوں تک اہلِ مینار کا تعلق دُنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ میں ایک ایسا ہی روشن مینار دیکھنے گیا۔ ہر چیز بدل چکی تھی، روشنی اب تیل سے نہیں بلکہ گیس اور بجلی سے کی جاتی ہے، مینار والے کی نوکری تخفیف میں آچکی ہے، اب ان میناروں کو کسی رکھوالے کی ضرورت نہیں رہی، سبکسارانِ ساحل شام کو بٹن نیچے کر دیتے ہیں اور صبح کو اوپر۔ آہستہ آہستہ پرانے بادہ کش اُٹھتے جارہے ہیں۔ ترقی نے انفرادی صفات کے اظہار کی کتنی ہی راہیں بند کردی ہیں اور شجاعت زندگی کے کتنے ہی شعبوں میں غیرضروری بلکہ مضر قرار دے دی گئی ہے۔
میں نے ایک اور روشن مینار بھی دیکھا ہے۔ پہلے تو یہ میرے ذہن میں نقشے پر لگے ہوئے ایک نقطے کی صورت میں محفوظ رہا اور پھر ایک دن آنکھیں جھپکیں تو وہ نقطہ مینار بن چکا تھا۔ ایشیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو سائبیریا سے لنکا تک خشکی نظر آتی ہے۔ لنکا کے جزیرے کی شکل نقشے میں دیکھی تو گمان گزرا جیسے قدرت کی آنکھوں سے خشکی کا آخری قطرہ ٹپک کر سمندر میں گر پڑا ہو۔ اس جزیرے کی جنوبی حد ہمارے نقشے میں زمین کی آخری حد تھی۔ سکول کے طالب علم نے سوچا کہ خشکی کی اس حدِ آخر پر کھڑا ہو کر اگر یہ کہیں کہ ایشیا میرے قدموں میں سائبیریا تک پھیلا ہوا ہے تو یہ بات جغرافیے کی رُو سے درست اور تاریخ کی رُو سے نادرست ہوگی۔ یہ خیال نہ جانے کب آیا اور کتنے سال لاشعور میں گم رہنے کے بعد ایک دن مسکراتا ہوا میرے سامنے آگیا۔ میں ایک بحری جہاز کے عرشے پر کھڑا تھا، اعلان ہوا کہ اب ہم لنکا کے گرد گھومتے ہوئے جزیرے کی جنوبی حد کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ میری آنکھوں میں چمک آگئی، سامنے جزیرے کے آخری ساحل پر ایک روشن مینار دمک رہا تھا۔
میناروں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ کسی زمانے میں اونچے برج اس لیے بنائے جاتے تھے کہ عالم بالا تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ جب شیخ شہاب الدین نے محمد تغلق کو سلطان عادل کہنے سے انکار کردیا تو انہیں ایک مینار پر لے گئے اور بغیر سیڑھیوں کے نیچے اتار دیا۔انجام ظاہر ہے، میں نے محمد تغلق کا برج تو نہیں دیکھا مگر لندن میں وہ عمارت دیکھی ہے جسے ٹاور آف لندن کہتے ہیں۔ کوہ نور ہیرا اسی عمارت میں محفوظ ہے۔ میں بڑے شوق سے اسے دیکھنے گیا۔ ہر قدم پر شوق کو اکساتا رہا مگر گائیڈ دیر تک اسی قسم کی اطلاعات فراہم کرتا رہا کہ اس مقام پر ملکہ ایلزبتھ قید تھی اور اس مقام پر فادر فشر بند تھا۔ جب ہم کوہ نور تک پہنچے تو شوق کی آگ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ ہیرا دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی۔ نادرشاہ نے خواہ مخواہ اس پتھر کے لیے قتل عام کیا اور یونہی اپنی نئی ٹوپی اس کی خاطر ایک بوسیدہ پگڑی سے بدل لی۔ مجھے تو یہ ہیرا ایک آنکھ نہ بھایا مگر جب رنجیت سنگھ نے اسے دیکھا تو بقول مورخ سرکار دولتمداراز مشاہدۂ الماس بسیاراز بسیار منفرح ومنشرح شدہ … میں جواہرات کے کمرے سے دل گرفتہ باہر آیا۔ گائیڈ بولا، یہاں ملکہ این، ملکہ کیتھرائن، سرتھامس مور اور لیڈی جین گرے کے سر جلاد نے قلم کیے تھے، اس حصے کو ’’بلڈی تاور‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے دل ہی دل میں اس کا ترجمہ کیا، خونی برج۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا، آپ کے یہاں کوئی ایسا مینار بھی ہے جس کے ساتھ گناہ اور جرم کی کوئی روایت وابستہ نہ ہو۔ وہ فخر سے بولا، کیوں نہیں۔ آپ پارلیمنٹ ہائوس کا گھنٹہ گھر دیکھئے، جسے ’’بگ بن‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی نوآبادیاں آپ کے اس جواب کو درست تسلیم کرلیں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا ’’بِگ بن‘‘ کا گھڑیال بجنا شروع ہوا، بے حد سُریلا، موسیقی کی لہر آئی اور بہا کر لے گئی۔ مجھے ’’بِگ بن‘‘ اچھی لگنے لگی۔ کچھ دیر کے لیے میں نے اپنا شکوہ اور اپنا سوال دونوں کو فراموش کر دیا اور یوں اس خودفراموشی کا شکار ہو گیا جو غیرممالک میں ہمارا عام شیوہ بنتا جارہا ہے۔
یورپ میں میناروں کی تلاش میں نکلا تو بیشتر گرجاگھر میں ملے یا گھنٹہ گھر میں۔ کچھ مینار پرانے قلعوں کے دیکھے اور کچھ پرانے محلات میں نظر آئے، کچھ ایسے بھی تھے جو دریا پر بنے ہوئے پرانے زمانے کے پُلوں کا حصہ تھے۔ فرانس میں روئن کیتھڈرل اور انگلستان میں ویسٹ منسٹر کیتھڈرل کے میناروں کی تزئین پسند آئی۔سوچا اب ایک مشہور سرنگوں اور خمیدہ مینار پیسا (Pisa) میں باقی رہ گیا ہے اسے بھی دیکھ آئوں۔ تفصیلات منگوائیں تو معلوم ہوا خمیدہ میناروں کا ایک جوڑا بولونہ (Bologna) میں ہے۔ ایسینیلی ٹاور (Asineli Tower) 1109ء میں بنا اور 320فٹ اونچا ہے۔ اس کے ساتھ دس سال بعد بنا ہوا اور اس سے نصف قامت کا دوسرا خمیدہ مینارگاریسندہ ٹاور (Garisenda Tower) کھڑا ہے۔ میں پیسا اور بولونہ دونوں کے درمیان فیصلہ نہ کرسکا اور ان تینوں خمیدہ میناروں سے محروم رہا۔
پیرس میں دیکھنے کے لیے کیا کچھ نہیں رکھا مگر کچھ ایسے کم ہمت بھی ہیں جو لوور (Louvre) گیلری اور ایفل ٹاور پر قناعت کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ ایفل ٹاور کی ایک نقل جاپان میں چند سال ہوئے تعمیر کی گئی ہے اور بعض جگہ اس نقل کی نقل بھی کررہے ہیں۔ وقت کے ساتھ میناروں کی منزلِ بالا گر جاتی ہے یا خطرے کے پیش نظر گرا دی جاتی ہے اور یوں ب ہت سے مینار عمر گزرنے کے ساتھ قد کاٹھ میں چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ ایفل ٹاور 1889ء میں بنا مگر اس کا قد اسّی سال کی اس مدت میں گھٹنے کے بجائے 55فٹ اور بڑھ گیا ہے۔ یہ اضافہ ٹیلی ویژن کے مستول کی وجہ سے ہوا ہے۔ دُنیا بھر میں ٹیلی ویژن کی ایجاد نے کئی عمارتوں، شہروں اور انسانوں کو ان کے اصلی قد سے اونچا کردکھایا ہے۔ لندن ہی کو لے لیجئے، اس کوتاہ قامت شہر نے بھی اپنے ڈاک خانے اور ٹیلی ویژن کے لیے ایک مینار بنا لیا ہے۔ رہا قامت یار کا مسئلہ تو بسااوقات پروگرام دیکھتے ہوئے یہ مصرعہ گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔
من اندازِ قدت رامی شناسم
مینار حال ہی میں ایک نئے استعمال میں آگیا ہے۔ سیاٹل (Seattle) کی عالمی نمائش کے سلسلے میں پہلی بار سننے میں آیا کہ مینار محض اس لیے بنایا جائے گا کہ مینار کے گنبد میں ریستوران کھولا جائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنی ہی طعام گاہیں ہوا میں بلند ہو گئیں۔ اب آپ نہ صرف چائے کی پیالی پینے کے لیے قطب مینار سے دُگنی بلندی تک جاسکتے ہیں بلکہ جب تک آپ وہاں چائے نوش فرمائیں گے وہ ریستوران گھومتا ہی رہے گا۔ آپ نے وہ کرتب تو ضرور دیکھا ہو گاکہ ایک بازی گر تھالی کو چھڑی کی نوک پررکھ کر گھماتا ہے۔ اب اسی تھالی میں آپ کو چائے کی پیالی دے کر بٹھا دیا جائے تو یہ نیا اور گھومنے والا مینار ریستوران بن جائے گا۔میں ایسی گھومنے والی طعام گاہوںکو گردشِ زمانہ کی علامت سمجھتا ہوں۔ دنیا اپنے محور پر گھوم رہی ہے، سورج کے گرد بھی چکر لگا رہی ہے، ہر ذرّے میں اس کی دنیا علیحدہ گردش کررہی ہے۔ انسان اپنی احتیاج کے محور پر بھی گھومتا ہے اور چڑھتے ہوئے سورج کا طواف بھی کرتا ہے۔ کسی شاعر نے گردشِ مدام سے گھبرانے کا گلہ کیا تھا مگر انسان ابھی تو اس سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اب اس کی طعام گاہیں بھی گردش میں آگئی ہیں:
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
مجلسِ تعمیر کے ایک رکن قدیم تعمیرات کے ماہر ہیں۔ ایک دن ان سے گفتگو ہوئی تو کئی عقدے کھلے اور کتنی ہی گرہیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ دنیائے اسلام کا سب سے پرانا مینار جو آج بھی موجود ہے مسجد نبا اُمیہ کامینار ہے۔ ایک دن دمشق کے ایک بازارمیں پھر رہا تھا جس پر خمدار ٹین کی چادروں کی چھت ایسے پڑی ہوئی تھی جیسے ریلوے سٹیشن کا پلیٹ فارم ہو۔ ایک جگہ سے دوچار چادریں غائب تھیں اور اس حصے سے سورج بھی جھانک رہا تھا اور ایک مینار کی رفعت بھی۔ میں نے اس مینار کی ایک تصویر بنائی۔ اسے دیکھتا ہوں تو خود حیرت کی تصویر بن جاتا ہوں۔ مسجد بنواُمیہ کا یہ شمالی مینار آج سے پورے 1300 سال قبل بنا تھا۔ یہ ہمارے میناروں کا امام ہے۔ اس کے پیچھے لاتعداد مینار دست بستہ کھڑے ہیں، ایک نیا مقتدی بھی آخری صف میں آن کر شامل ہوا ہے، اسے مینارِ قراردادِ پاکستان کہتے ہیں۔ انہی صفوں میں مغربِ اسلام کے مربع اور کثیر الزاویہ مینار بھی کھڑے ہیں اور مشرقی اسلام کے گول اور نوکدار مینار بھی موجود ہیں۔چند میناروں پر تزئین برجستہ ہے اور چند تزئین پیوستہ کے نمونے ہیں۔ کہیں پرچیں کاری ہے تو کہیں منبت کاری، کہیں پتھر نیم مصفّا ہے اور کہیں اینٹیں ہزار باف۔ کچھ مینار بنیاد سے رفعت تک یکساں ہیں اور کچھ منزل بمنزل مختلف ہیں۔ ان میں قیروان کی مسجد کا بھاری بھرکم مینار بھی شامل ہے جو دمشق کے مینار کے بعد شاید قدیم ترین مینار ہے۔ مینارِ قیروان کی ایک نقل قاہرہ میں 300سال بعد خمیر کی گئی مگر آج اصل کی حالت نقل سے بہتر ہے۔ ان صفوں میں کچھ جگہیں خالی بھی ہیں، یہاں پہلے مینار تھے اب محض ان کا نام باقی رہ گیا ہے۔ قرطبہ میں عبدالرحمان اول کا مینار ہوا کرتا تھا، آج اس کا نشان بھی نہیں ملتا۔ عبدالرحمن نے سرزمین اُندلس میں کھجور کا جو پہلا پودا لگایا تھا اس کا نشان بھی اگر کہیں ملتا ہے تو صرف بالِ جبریل میں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اس کھجور کے درخت کی غربت کی نسبت جو کچھ کہا وہ اُندلس کے پہلے مینار کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے، کہتے ہیں:
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اقبالؒ کے اس شعر کی تشریح کے لیے سیاحت شرط ہے، سو وہ اگر منظور ہوتو وسط ایشیا کے دورافتادہ علاقوں میں بھی کچھ وقت گزارنا چاہیے۔ کاروانِ اسلام وہاں بھی خیمہ زن ہوا تھا اور اس خیمے کی طنابیں جرقورغان، بخارا،وابکند، سمرقند اور خیوہ کے ان میناروں سے باندھی گئی تھیں جو آج بھی وہاں موجود ہیں اور جن کی خوشنمائی اور خامشی وہی بات کہہ رہی ہے جو شاعر سے نقشِ پا کی شوخی نے کہیں تھی، یعنی:
جرقورغان میں ایک مینار ساڑھے آٹھ سو سال پرانا ہے۔ اس مینار کی ساخت اور صورت ایسی ہے جیسے بنیاد سے کئی مینار اُٹھے ہوں اور بلندی پر انہیں قرآنی آیات کی خشتی پٹی سے باندھ کر یک جان کردیا ہو۔ ان میناروں کی تعداد سولہ ہے جن سے مل کر یہ ایک مینار بنتا ہے۔ معمار سے چُوک ہو گئی، انہیں سولہ نہیں بہتر ہونا چاہیے تھا۔ وابکند کا مینار بھی سبک ہے، اسے دیکھ کر صراحی دار گردن یاد آجاتی ہے۔ سمرقند میں بی بی خانم کا مینار ساڑھے پانچ سو سال پرانا ہے۔ اس حشتی مینار میں رنگین لوحیں بھی ہیں اور اقلیدی شکلیں بھی۔ خیوہ تو گویا میناروں کا شہر ہے۔ مسجد جامع کا مینار، مدرسہ قلی خاں کا مینار، مدرسہ امین خاں کا مینار اور خواجہ اسلام کا مینار سبھی خیوہ ہی میں تو واقع ہیں۔ خواجہ اسلام کا مینار سب سے کم عمر ہے مگر خاتم کاری میں اس پایے کا مینار شاید ہی کہیں نظر آئے۔ بخارا کا مینارِ کلاں 1127ء میں بنا تھا۔ اس مینار میں اینٹوں کی چنائی سے آرائش اور ان کی سطح کے فرق سے زیبائش کا سامان پیدا کیا گیا ہے۔ فوقانی منزل پر غالب کاری کا ایک خوبصورت نمونہ موجود ہے اور اس سے ذرا بلندی پر کائی جمی ہے اور گھاس اُگی ہوئی ہے۔ کائی اور گھاس تو پستی کی علامتی ہیں۔ انہیں سرِمینار دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر بلندی پستی کی زد میں ہے۔
اندلس میں مینار مٹ گئے، وسط ایشیا میں ان پر کائی جم چکی ہے۔ کچھ مینار ایسے بھی ہیں جو مٹے تو نہیں مگر گم ہو گئے ہیں۔ ان میناروں میں غزہ کی جامع مسجد کا مینار، الخلیل کا مینار اور قطب مینار شامل ہیں۔ میں ان گمشدہ میناروں کی بدحالی سے دل گرفتہ ہوا اور دوسرے ملکوں میں میناروں کی تلاش ترک کر کے وطن واپس آگیا۔ یہاں میری جستجو کا استقبال کرنے والوں میں منوڑہ کا روشن مینار، سکھر کے معصوم شاہ کا مینار، لائل پور کا چوک مینار اور شیخوپورہ کا ہرن منار شامل تھے۔ ان میناروں کے قدآور ہجوم میں مجھے ایک چھوٹا سا مینار بھی ملا جسے گڑھی شاہو کا کوس مینار کہتے ہیں۔ تزکِ جہانگیری میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے حکم دیا کہ لاہور سے آگرہ تک ہرکوس کے فاصلے پر ایک مینار بنایا جائے اور ہر تین کوس کے فاصلے پر ایک کنواں کھودا جائے۔ اس حکم کے بہت دنوں بعد فیض کے اسباب گنائے گئے تھے۔ کیا عجب شاعر نے پل، چاہ اور مسجد وتالاب کی فہرست تزکِ جہانگیری سے نقل کی ہو۔
مغلوں کا ذکر ہو تو بات بابر سے شروع کرتے اور عالمگیر پر ختم کرتے ہیں۔ بابر نے جتنے مینار بنائے ان میں ریختہ بالکل استعمال نہیں ہوا کیونکہ وہ جنگ کے میدان میں تعمیر ہوئے تھے۔ تزک میں بابر نہایت ایمانداری اور اطمینان سے ان میناروں کا ذکر کرتا ہے جو اس نے جابجا دُشمنوں کے سروں کو کاٹ کر بنائے تھے۔ راناسانگا سے لڑائی ہوئی تو شراب سے توبہ بھی کی اور فتح یابی پر ’’کلّہ مینار‘‘ بنوایا۔ ایک اور لڑائی میں اچانک دُشمن کے ہزاروں ننگے سپاہی تلواریں نیزے لہراتے مقابلے پر آنکلے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے آئے تھے اور دُنیا سے یہاں تک تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ لباس سے بھی عاری تھے۔ گھمسان کارن پڑا، بابر کی زرہ پوش سپاہ جیت گئی اور یوں سترپوشی کا ایک اور جواز پیدا ہو گیا۔ فتح کی خوشی میں بابر نے قطعۂ تاریخ کہا اور اس کے بعد کا حال تزک میں یوں لکھا ہے ’’میں نے حسب دستور چندیری کے شمال مغربی پہاڑ پر دُشمنوں کے سروں کا ایک مینار بطور یادگار فتح چنوایا‘‘۔
بابر کے عہد سے اورنگزیب کے دور تک مغل فنِ تعمیر میں بہت ترقی ہو گئی۔ ’’کلّہ مینار‘‘ کے بجائے دولت آباد میں فتح مینار بنایا گیا۔ چار نہایت خوبصورت مینار لاہور کی جامع مسجد میں بھی بنائے گئے۔ یہ سنگ سرخ کے سہ منزلہ ہشت پہلو مینار جن کے اوپر سفید گنبدی بنی ہوئی ہے سادگی اور صناعی کے لاجواب نمونے ہیں۔ پختہ بنیاد مگر آلائشِ دُنیا سے بلند۔ یہ توحید، حقانیت اور رفعت کی علامت ہیں۔ اس برعظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا ہے وہ مینار قرارداد پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑائو شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کررہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حقایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔
آج پھر مجلس تعمیر کی نشست تھی۔ میں نے پوچھا اس مینار کی بنیادیں کتنی گہری ہیں اور ان میں کون سا مسالا لگایا گیا ہے۔ جواب ملا کہ ماہرین کے تجزیے اور تحقیق کے مطابق بنیادی بہت گہری کھودی گئی ہیں اور ان کی پائیداری کے لیے اعلیٰ درجے کا ریختہ استعمال کیا ہے۔ میں نے دل میں سوال دُہرایا، یہ تو پہیلی تھی جس میں بنیادوں کی گہرائی سے مراد محض یادوں کی گیرائی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کیں، میرے سامنے سنگ بنیاد نصب کرنے کا منظر تھا۔ ایک سپیشل ٹرین پٹیالہ سے چلی اور صبح ایک چھوٹے سے سٹیشن پر کھڑی ہو گئی۔ وائسرائے گاڑی سے نیچے اُترے تو مسٹرپولاک نے جو کمشنر تھے ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد دو انگریز آگے بڑھے، ایک ڈسٹرکٹ جج تھا اور دوسرا کلکٹر۔ پاس ہی ایک ہندوستانی بھی کھڑا تھا، بھاری بھرکم اور طویل قامت، اس کی پیشانی ترکی ٹوپی میں اور چہرہ گھنی داڑھی میں چھپا ہوا تھا، اس نے بھی ہاتھ ملایا اور وائسرائے کو اپنے گھر لے گیا۔ دوپہر کو سنگ بنیاد کی تنصیب کی تقریب تھی۔ ایک وسیع میدان میں پنڈال سجا ہوا تھا، معزز مہمانوں کا ہجوم تھا، ایک طرف کچھ فاصلے پر بہت سے ہاتھی کھڑے تھے جن پر سوار ہو کر مہمان اس تقریب میں شریک ہونے آئے تھے۔ میزبان کو مصروف دیکھ کر خیال آتا تھا کہ واقعی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہوتا ہے۔ تقریب تقریروں سے شروع ہوئی اور جب تقریریں ہوچکیں تو مہمان خصوصی اُٹھ کر شامیانے کے اس سرے پر گئے جہاں بنیاد رکھنی تھی۔ پہلے کچھ کاغذات اور سکّے دفن کیے گئے پھر ایک پتھر نصب ہوا۔ اس پتھر پر تین بار ضرب لگا کر لارڈ لِٹن نے کہا، میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھر درست اور موزوں طرح سے نصب ہو گیا ہے۔ یہ اعلان 2جنوری 1877ء کو علی گڑھ میں کیا گیا تھا۔ یہ درست اور موزوں طور سے نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا مگر جس روز یہ نصب ہوا گویا اس روز مینار پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ سید محمود نے جو سپاسنامہ پڑھا اس میں لکھا تھا کہ یہ ملک بھر میں پہلا ادارہ ہے جو مسلمان ایک علیحدہ طبقے کی حیثیت سے اپنی انفرادی ضرورت اور متحدہ خواہش کے تحت قائم کررہے ہیں اور اس مدرسے کی بنیادیں تاریخ کے ان تقاضوں میں ملیں گی جن سے یہ ملک پہلے کبھی دوچار نہیں ہوا۔ لیجئے ہم علی گڑھ کی بنیادوں میں مینار پاکستان کی بنیادوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور سپاسنامہ کہتا ہے کہ علی گڑھ کی بنیادیں تاریخ کے تقاضوں میں ملیں گی۔
اس روز بہت سی تقریریں ہوئیں اور مقرروں نے مستقبل کی بات کچھ ایسے کی جیسے انہیں غیب کا علم ہوا۔ وائسرائے نے کہا کہ فہم وفراست کی مستقل اجارہ داری قدرت نے کسی ایک نسل کو نہیں دے رکھی اور نہ اسلام میں کوئی ایسی بات ہے جو فہم انسانی اور تہذیب عالمی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہند کے مسلمان نئے میدان فتح کریں اور اپنے پاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے تازہ مواقع حاصل کریں۔ ایک انگریز افسر مسٹرکین (Keene) نے کہا کہ آج ہم نے جو کچھ دیکھا ہے یہ جہاں تک پیش گوئی ممکن ہے ایک وسیع اور اہم تحریک کی ابتدا ہے جو تاریخ میں جگہ حاصل کرے گی۔ سپاسنامے میں لکھا تھا کہ یہ بیج جو آج ہم نے کاشت کیا ہے اس سے کیا تناور درخت نکلے گا جس کی شاخیں بھی زمین میں جڑپکڑ لیں گی اور ان سے نئے اور توانا درخت نکل آئیں گے۔
ہرتقریر دعائیہ تھی اور ہر دعا قبول ہورہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ سرسید کے ہاتھوں وہ نیکی ہورہی ہے جس کے اجر اور اثر کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے کہ اس عمل کی حالت ایسی ہے جیسے ایک دانے کی حالت جس سے سات بالیں جمیں اور ہر بال کے اندر سودانے ہوں اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس وچاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں۔ (سورہ ۲، آیت ۲۶۱)
علی گڑھ کو جو افزونی اور وسعت خدا نے عطا فرمائی اور جس طرح یہ مدرسہ آہستہ آہستہ ایک مرکز بن گیا اس کا ذکر ایک بار مجلسِ تعمیر میں ہورہا تھا، مجھے وقت کے کتنے ہی سنگ میل یاد آئے جو تقریباً سو سال کی مدت پر پھیلے ہوئے ہیں مگر علی گڑھ کی نسبت سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں بھی اس کارواں میں شامل ہوں جو کبھی وہاں سے گزرا تھا۔ یہ 1857ء ہے، سنگ میل پر خونِ ناحق کے چھینٹے ہیں، سماں بے نور ہے، کچھ نظر نہیں آتا۔ خستہ جانوں کا ایک قافلہ ہے جس میں غالب خستہ بھی شامل ہے۔ غالب ہندو کا مقروض ہے، انگریز کو پنشن کی عرضی دیتا ہے مگر اس کا جواب ہی نہیں آچکتا۔ لال قلعے کی آخری شمع اب خاموش ہو چکی ہے۔ کسی کو سوچنے کا بھی یارا نہیں۔ سنگ میل سے سیداحمد ٹیک لگائے کھڑے کچھ لکھ رہے ہیں، شاید ’’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘‘ کی تصنیف ہورہی ہے۔ اگلے سنگ میل پر 1868ء لکھا ہے۔ سرسیدبنارس کے کمشنر مسٹر شیکسپیئر کو کہہ رہے ہیں کہ اب ہندوئوں اور مسلمانوں کا اشتراک کسی صورت میں ممکن نہیں رہا۔
سرسید کی ایک رعب دار روغنی تصویر یونین ہال کی دیواروں پر لگی ہوئی بہت سی تصویروں کے وسط میں آویزاں تھی، اس کے دائیں اور بائیں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تصویریں تھیں۔ اب ذہن میں جو شکلیں اُبھرتی ہیں ان کا مرکز بھی یہی تین صورتیں ہیں۔ سرسید کی تصویر دیکھ کبھی تعجب اور تاسف ہوتا کہ اس کے چوڑے چکلے سینے پر انگریزوں کے دیئے ہوئے اتنے بہت سے تمغے لگے ہیں۔ تمغوں کے نیچے جھانکا تو اس صحت مند انسان کو دردِدل کا مریض پایا۔ سنا ہے مولانا شوکت علی سے کسی انگریز نے کہا تھا کہ سرسید کی صورت اور وفاداری پر مت جائو، یہ ہندوستان کا سب سے بڑا باغی ہے، اس کی تحریک کی ترقی کے ساتھ برطانوی عہد کے دن بھی پورے ہو جائیں گے۔
سرسید کا مزار ہماری جماعت کے نزدیک ہی تھا۔ مسجد میں داخل ہوں تو شمالی جانب قبروں کی جو قطار ہے اس کے وسط میں سرسید کا مزار ہے۔ ہم نے بارہا لوہے کے جنگلے کو تھام کر حیرت سے اس کی قبر کو دیکھا، یہی وہ شخص ہے جس نے ریلوے سٹیشن پر ’’ہندوپانی‘‘ کی آوازیں سنیں تو اس کے جواب میں ’’مسلمان تعلیم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ہندوپانی اور مسلمان پانی کا فرق اور مفہوم کچھ عرصے کے بعد دو لفظوں میں یوں ادا ہونے لگا، علی گڑھ اور بنارس۔ ان دو شہروں کے درمیان جو فاصلہ تھا وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ دو نئے لفظ سننے میں آئے، پاکستان اور بھارت۔ یہ بات تو قائداعظمؒ نے علی گڑھ میں ہی کہی تھی ’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔ میں نے قائداعظم کی یہ تقریر سنی تو سوچا، علی گڑھ ایک چھوٹا سا پاکستان ہے اور پاکستان ایک بڑا سا علی گڑھ ہو گا۔
یہ اگلا سنگ میل انیسویں صدی کے کسی آخری سال کا ہے۔ اس کے پاس ایک انگریز کھڑا ہے جس کا نام تھیوڈور ماریسن ہے۔ ان کی رائے ہے کہ ہندوستان میں ایک مشترک قوم کا تصور نہیں ملتا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اپنی جدا مذہبی اور معاشرتی روایات رکھتے ہیں۔ اگر ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمان ہندوستان کے ایک حصے میں اکٹھا کر دیئے جائیں تو ہندوستان کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ یہ ماریسن وہی ہیں جن کے نام پر مسلم یونیورسٹی میں ایک ہوسٹل ماریسن کورٹ کہلاتا تھا۔ اس ہوسٹل کی دیواریں ہماری معاشیات کی جماعت سے ملحق تھیں۔ بیچ میں صرف ایک دروازہ تھا جسے شاید باب العلم کہتے تھے۔ یہ ہوسٹل معمولی سا تھا، اس کی عمارت پر بسااوقات اصطبل کا گمان گزرتا، کرسی بھی اونچی نہ تھی اور آندھیوں سے کچے صحن میں ریت اور مٹی اتنی بھر گئی کہ اس کی سطح کمروں کے فرش سے بھی اونچی ہو گئی۔ اس بے کسی کے باوجود اس ہوسٹل میں رہنے والوں کی کشادہ پیشانیوں پر ماریسن کی پیش گوئی لکھی ہوئی نظر آتی تھی۔
اکتوبر 1906ء میں شملہ وفد نے لارڈ منٹو سے ملاقات کی تھی، ان کے سپاسنامے میں بھی آخری مطالبہ یہی تھا کہ ایک محمڈن یونیورسٹی قائم کی جائے۔ شملہ وفد میں تیس آدمی شامل تھے، ان میں سے تین کو میں نے اسی یونیورسٹی میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دیکھا ہے جس کے قیام کی درخواست لے کر وہ شملے کی پہاڑیوں پر چڑھے تھے۔ 1917ء میں سٹاک ہوم سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں خیری برادران نے تقسیم ہند کی تجویز پیش کی۔ چھوٹے خیری تو علی گڑھ میں پڑھاتے تھے، سنولایا ہوا چہرا، بیٹھی ہوئی آواز اور کبھی چین سے نہ بیٹھنے والی روح۔ سنا تھا کہ وہ ہٹلر سے بھی مل چکے ہیں اور ان کے پاس اس کی ایک دستخط شدہ تصویر بھی ہے۔ ہم نے ان کے گھر میں کئی بار جھانکا تاکہ ہٹلر کی تصویر نظر آاجے مگر وہاں تو جرمنی سے لائی ہوئی صرف ایک صورت نظر پڑی اور وہ تھیں کی بدیسی بیگم۔ ہم نے ان کے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کی تو اسے مصروف یا گنجلک پایا۔ انگریز کیسے نکالا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کو آزادی کی کون سی شکل راس آئے گی، وہ ہر وقت اسی اُدھیڑبن میں لگے رہتے۔ انگریز کے عہداقتدار میں یہ باتیں شیخ چلی کی سی لگتیں۔ پھر جنگ آئی اور وہ قید کر دیئے گئے، جنگ ختم ہوئی تو رہا ہوئے مگر جلد ہی قیدحیات وبندِغم کو توڑ کر آزاد ہو گئے۔ برعظیم تقسیم ہوا اور آزادی ملی تو اسے دیکھنے کے لیے ان کی جرمن بیوہ رہ گئیں جو اب بھی کراچی میں مقیم ہیں۔ اسی شہرمیں ان کی ایک لڑکی بھی رہتی ہے جس کا مکان ممکن ہے کبھی شاگرد پیشہ ہو مگر ہم سب اسے بڑی عزت سے اینکس کہتے ہیں۔ کسی نے اس لڑکی سے پوچھا کہ مسلم ریاست کے وہ نقشے جو تمہارے والد بناتے تھے ان میں انہوں نے تمہارے مکان کی جگہ کیوں نہ رکھی۔ کہنے لگیں کہ ابھی ملک کی حدیں ابا کے مجوزہ نقشے سے ذرا کم ہیں اس لیے بہت سے لوگ ابھی بے گھر ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭