نائیلہ ندیم
خالق کائنات نے جہاں انسان کو دوسری بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے وہاں ایک ایسی صلاحیت بھی ہے جس کے باعث وہ دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اپنی بقاء کے تسلسل کو زیادہ بہتر انداز میں جاری رکھ سکتا ہے۔
سال 2020ء کی آمد کیساتھ اگرچہ بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن تمام اُمیدوں نے اُس وقت دم توڑ دیا جب 26فروری 2020ء کو کراچی میں کوویڈ19 کا پہلا کیس رپورٹ ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ اتنا وسیع ہوا کہ پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم نے بھی بدترین معاشی بدحالی کا سامنا کرنے کے ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور جان سے پیارے رشتوں کی قربانی دی۔
کوویڈ19 سے براہ راست متاثر ہونے والے شعبوں میں تعلیم کے شعبے کوحد سے زیادہ نقصان ہوا جس کی وجہ سے طلباء وطالبات کے ساتھ ساتھ والدین بھی اذیت کا شکار ہوئے۔ اس دوران تعلیمی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اکثر وبیشتر تعلیمی اداروں نے آن لائن طریقہ تعلیم کا سہارا لیا۔ اس کام کا مقصد جہاں طالب علموں کے تعلیمی سال کو ضیاع سے بچانا تھا وہیں اُن کو اسباق کی تفہیم میں مدد فراہم بھی کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں جہاں خصوصاً یہ نظام پہلے رائج نہیں تھا، یاں جہاں اساتذہ کرام اس طریقہ تعلیم کے ذریعے تعلیم دینے میں ماہر نہیں تھے وہاں پہلے باقاعدہ منظم انداز میں اُن کو ٹریننگ دی گئی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کا طریقہ سکھایا گیا جس پر کثیر رقم اور وقت صرف ہوا اور آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں نے کافی حد تک اس مسئلے پر قابو پاتے ہوئے اپنے طور پر اپنے طلباء وطالبات کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔
اس طریقہ تعلیم کے لیے مختلف سافٹ ویئرز مثلاً کروم، گوگل میٹ، سکائپ اور دیگر کا سہارا لیا گیا۔ اس اندازِ تعلیم نے فوری طور پر یہ ثابت کردیا کہ انسان اپنے آپ کو حالات کے موافق ڈھال لیتا ہے، جیسی ضرورت ہو ویسا ہی انداز اختیار کر لیتا ہے۔
اس نظام کے ذریعے براہ راست لیکچرز اور ویڈیو لیکچرز بھی دیئے گئے جس کے لیے اساتذہ کرام نے انتھک محنت کی۔ ہر ادارے کو اپنا الگ سے آئی ٹی روم، ریکارڈنگ روم اور اس نظام کو درست انداز میں چلانے کے لیے ایک الگ ٹیم تشکیل دینی پڑی جس نے دن رات اور وقت کی پرواہ کیے بغیر اس مشکل کام کو سرانجام دیا۔
یہ تو تصویر کا ایک رُخ تھا جو کافی دلکش تھا مگر دوسرے رُخ کی حقیقت دیکھ کر کافی مایوسی ہوئی۔ جتنی محنت اس اندازِ تعلیم کو کارآمد بنانے کے لیے کی گئی اور جن کے لیے کی گئی افسوس اُن طلباء وطالبات کی طرف سے اس طریقہ تعلیم کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ اسکی مختلف وجوہات تھیں مثلاً سب سے اہم مسئلہ جو درپیش رہا وہ موبائل فون، لیپ ٹاپ یا دوسری ڈیوائسز جو اس عمل کے لیے ناگزیر تھیں اُن کا حصول اور موجودگی تمام طالب علموں کے اختیار میں نہیں تھی جیسے اگر ایک گھر میں چار بچے زیرِتعلیم تھے تو ایک ہی وقت میں آن لائن کلاسز ہونے کے باعث وہ سب کے سب اپنے اپنے لیکچرز سے صحیح طور پر استفادہ نہ کرسکے۔ اس عمل میں سب سے اہم کردار انٹرنیٹ کی بروقت دستیابی کا ہونا تھا جو مختلف اوقات میں مختلف وجوہات کی بناء پر براہ راست اس عمل کو متاثر کرتا رہا۔ شہری علاقوں میں تو پھر طلباء وطالبات نے کسی حد تک اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ لیا مگر دوردراز اور دیہاتی علاقوں میں رہنے والے طالب علم اس سلسلے میں خاصے خسارے میں رہے۔
دوران کلاس جب اساتذہ کرام لیکچر دیتے ہیں تو طلباء وطالبات کے ذہنوں کی بہت سی گرہیں اُسی وقت کھلتی جاتی ہیں۔ اسباق میں دیے گئے مختلف اور پیچیدہ تصورات میں وہ دورانِ کلاس اپنے اساتذہ کرام سے پوچھ لیتے ہیں جس سے انہیں اسباق کو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ مزیدبرآں کالج اور یونیورسٹی لیول پر جہاں تعلیمی تصورات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں یاں جن مضامین کے لیے عملی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً ریاضی، شماریات (Stat) اور دیگر حسابی نوعیت کے مضامین اختیار کرنے والے طلباء وطالبات کو اس تمام عرصے میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا۔ سمسٹر سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کو دوہری اذیت برداشت کرنا پڑی۔ سب سے پہلے تو گھر میں کلاس روم جیسا ماحول بنانا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ گھر میں رہنے کی وجہ سے ان کے طرزِتعلیم اور زندگی میں کافی تبدیلی آگئی۔ کبھی رات گئے تک ہونے والی کلاسز اور کبھی گروپ سٹڈی کے باعث دیر تک جاگنے کی وجہ سے نیند متاثر ہونے سے ان کی صحت اور رویے میں بھی کافی اُتارچڑھائو آیا۔
پرائمری سکول کی سطح پر طلباء وطالبات کے والدین بھی کافی حد تک اس آزمائش سے گزرے کیونکہ اس سسٹم کو سمجھنے کے لیے پہلے انہیں بھی ٹریننگ کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ بچوں کے آن لائن آنے والے کام کے اوقات کے مطابق بچوں کو پڑھانا خاصا مشکل رہا بلکہ کچھ والدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے بچے نہیں بلکہ وہ خود دوبارہ سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اس عمل کے ایک بہت ہی مشکل پہلو آن لائن امتحانات کا سلسلہ تھا جس میں طلباء وطالبات اور ان کے والدین کو کافی شکایات رہیں۔ تعلیمی ادارے ایک مقررہ وقت پر آن لائن پیپرز اپ لوڈ کر دیتے اور ہدایت جاری کی جاتی کہ پیپر مقررہ وقت میں ہی کیے جائیں۔ اس دوران اگر انٹرنیٹ کی فراہمی میں کوئی تعطل آجاتا تو پیپر کرنے میں بہت مشکل ہوتی۔ علاوہ ازیں یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ طلباء وطالبات نے پیپرز، اسائنمنٹ اور دیگر کام اپ لوڈ کیے لیکن وہ کسی وجہ سے سکول/ کالج یا یونیورسٹی انتظامیہ کو موصول نہ ہوسکے جس کی وجہ سے ان کے رزلٹ پر بُرا اثر پڑا۔
اس نظامِ تعلیم کی وجہ سے کچھ طالب علموں کو ضرورت سے زیادہ آزادی بھی میسر ہو گئی مثلاً جہاں والدین کی طرف سے کسی بھی قسم کی غفلت کا مظاہرہ ہوا وہاں طلب نے آن لائن کلاس رومز میں حاضری لگا کر نیند کے خوب مزے لیے یا وٹس ایپ، فیس بُک اور دیگر سرگرمیوں میں مشغول ہو کر نہ صرف والدین کی آنکھوں میں دُھول جھونکی بلکہ اپنا کافی حد تک تعلیمی نقصان بھی کیا۔
کچھ طلباء وطالبات کو سگنلز کی فراہمی کے متعلق شکایات رہیں، کچھ کو لیکچرز کے دوران آواز کے اُتارچڑھائو کے مسائل کا سامنا رہا۔ کہیں ڈایاگرامز کو سمجھنے میں دِقّت آئی اور کہیں پورے کا پورا لیکچر ہی سمجھ نہ آیا۔
گروپ سٹڈی بھی آن لائن سسٹم سے مستفید نہ ہوسکی۔ گروپ سٹڈی جہاں مختلف مزاج اور صلاحیتوں کے حامل طلباء وطالبات مل کر پراجیکٹ بناتے ہیں ایک دوسرے کے علم اور مہارتوں سے سیکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اُن میں عملی زندگی اور معاشرے میں مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے افراد کے ساتھ مل کر رہنے اور کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کی کردارسازی ہوتی ہے اور ان کا اعتماد بڑھتا ہے وہ اس عمل سے کافی متاثر ہوئی۔ کالج، یونیورسٹی میں تو گروپ میں ایک ساتھ سٹڈی کرنا کافی آسان ہے، مل بیٹھ کر کام ہو جاتا ہے مگر آن لائن رہتے ہوئے یہ کام خاصا مشکل ثابت ہوا۔ کبھی کوئی ممبر آن لائن نہیں تو کبھی کسی دوسرے کو کوئی دوسرا ضروری کام ہوتا ہے۔ کبھی سوچ نہیں ملی، کبھی مطلوبہ مواد حاصل نہیں ہوا،الغرض! ان گنت مسائل۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس تمام عرصے کے بعد اب ہم اس مرحلے پر ہیں کہ ہمارے طلباء وطالبات اس سے روشناس ہوچکے ہیں۔ والدین بھی کسی نہ کسی طرح سسٹم کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں مگر جو ادب وآداب، شعور وفکر، عادات واطوار ایک ادارے میں اساتذہ کرام کی زیرنگرانی پروان چڑھتی ہیں وہ بتدریج کم ہورہی ہیں۔ طلباء وطالبات کی کردارسازی میں اساتذہ کرام کی شخصیت وکردار کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ ایک خوبصورت سا شعر ہے نا کہ
؎ وہ فیضانِ نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نظام کو بہتر کریں بلکہ اسے بہترین بنائیں، اس نظام سے منسلک تمام افراد کو درپیش آنے والی مشکلات کا ازالہ کریں اور اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں کیونکہ تعلیم کسی بھی ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہے۔ تعلیمی شعبہ دوسرے تمام شعبہ جات کی بنیاد ہے، اگر یہاں خدانخواستہ کوئی کمی رہ گئی تو اگلے مراحل میں مہارت وقابلیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
؎ انسانی تخلیقات میں ایجاد ہے بڑی چیز
اچھا یا بُرا نائیلہؔ اس کا استعمال ہے
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ویرات کوہلی کی سرزنش
٭…٭…٭