ڈاکٹر صفدر محمود
جنرل (ر) پرویز مشرف بالکل سچ کہتا تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ یہ صرف جنرل مشرف پہ ہی موقوف نہیں، کوئی فوجی سربراہ بھی کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ اس تلخ حقیقت کی گواہی ہماری تاریخ بار بار دیتی ہے۔ ساری قوم احترام کرتی تھی قائداعظمؒ کا اور ان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خانؒ کا۔ ان دونوں کا حکم فوج، سویلین اداروں، بیوروکریسی اور سیاستدانوں سب پہ چلتا تھا۔ قائداعظمؒ نے ایوب خان کی مشرقی پاکستان میں تقرری کی منظوری دیتے ہوئے لکھا کہ میری اطلاع کے مطابق یہ افسر سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اسے مشرقی پاکستان کا جی او سی لگا دیا جائے لیکن یہ افسر فی الحال جرنیلی کے رینک اور ستارے نہیں لگائے گا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ قائداعظمؒ کی حکم عدولی کرے۔ ایوب خان جنرل پروموٹ ہو گئے لیکن رینک اس وقت تک نہ لگاسکے جب تک قائداعظمؒ کی عائدکردہ شرط پوری نہ کرلی۔ قائداعظمؒ کی وفات کے لیاقت علی خان کی انتظامی گرفت مضبوط تھی اور ان کے حکم سے سرتابی کی مجال کی مثال نہیں ملتی۔ لیاقت علی خان کو شہادت کے ذریعے راستے سے ہٹانے کے بعد فوجی اور سویلین بیوروکریسی کھل کر کھیلی اور ملک کے اقتدار پر حاوی ہو گئی۔ بقول شاعر لیاقت علی خان کے بعد سیاسی اقتدار ایک دُھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ چنانچہ وہ جرنیل جو ان عظیم لیڈروں کے سامنے دم نہیں مارتے تھے اب ببانگ دہل کہنے لگے کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں کیونکہ قیادت ہر لحاظ سے کمزور تھی جبکہ جرنیل مضبوط۔ ہر لحاظ سے مراد یہ کہ نہ صلاحیت، نہ منظم سیاسی حمایت، نہ ویژن اور نہ ہی ملک چلانے کا تجربہ حاصل تھا۔ سیاستدانوں کے مقابلے میں فوج اور بیوروکریسی نہایت منظم اور مضبوط ادارے تھے جن پر برطانوی حکمرانوں نے بڑی توجہ دی اور بہت محنت کی تھی جبکہ سیاستدان سیاسی تحریک کی پیداوار تھے اور قائداعظمؒ کے کارکن تھے، ان کی اکثریت سیاسی قدکاٹھ، دبدبے، وقار اور صلاحیت سے محروم تھی۔
پاکستان کی تاریخ پڑھتے ہوئے بعض حیرت کے مقامات آتے ہیں اور قاری غوروفکر میں ڈوب جاتا ہے۔ میں جن دنوں اپنی کتاب ’’مسلم لیگ کا دورِحکومت‘‘ پر تازہ مواد کی روشنی میں نظرثانی کررہا تھا تو مجھے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ’’واشنگٹن آرکائیوز‘‘ دیکھنے کا موقع ملا جہاں پاکستان کے ابتدائی برسوں سے متعلق خفیہ مواد کو محققین کے لیے پہلی بار اوپن کیا گیا تھا۔ ایک واقعہ پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا اور پاکستان کی سیاست کی جڑیں تلاش کرنے لگا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پاکستان میں گندم کے قحط کے آثار پیدا ہوئے تھے اور اس قلت کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے گندم منگوائی گئی تھی۔ گندم کی ہنگامی بنیادوں پر فراہمی کے لیے فوج کی مدد لینی پڑی تھی۔ اس حوالے سے ایک سرکاری میٹنگ تھی جس پر وزیراعظم صدارت کررہے تھے۔ اس میٹنگ میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو بھی بلایا گیا تھا تاکہ گندم کی تقسیم اور فراہمی کا جائزہ لیا جاسکے۔ حیرت کا مقام یہ تھا کہ اس میٹنگ میں جنرل ایوب خان نے وزیر کامرس (تجارت) کو خوب جھاڑا جن کے ذمہ گندم برآمد کرنے کا کام تھا۔ اسی زمانے میں سردار عبدالرب نشتر کی سوانح عمری لکھی گئی اور پھر شائع ہوئی۔ میری کہانی میری زبانی میں سردار صاحب نے لکھا کہ جنرل ایوب خان اپنی محفلوں میں حکومت اور سیاستدانوں پر سخت تنقید کرتا ہے اور انہیں نااہل قرار دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ جنرل ایوب خان اقتدار سنبھالنا چاہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ اگر آرمی نے حکومت پر قبضہ کرلیا تو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ سیاستدانوں کو فوجی قیادت کے عزائم کا اندازہ تھا لیکن وہ بے بس تھے جبکہ کمانڈرانچیف بلاخوف وخطر اپنے عزائم کا اظہار کیا کرتا تھا کیونکہ وہ کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ جب اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی ڈسمس کی تو وہ چاہتے تھے کہ محمد علی بوگرہ بطور وزیراعظم (continue) قائم رہیں جبکہ بوگرہ کا کہنا تھا کہ وہ جس اسمبلی کا نمائندہ تھا جب وہ اسمبلی ہی موجود نہیں تو انہیں وزیراعظم رہنے کا حق حاصل نہیں۔ چوہدری محمد علی موقع پر موجود تھے، گورنر جنرل اور بوگرہ میں تکرار کے دوران چوہدری محمد علی نے کسی کام سے دوسرے کمرے میں جانے کے لیے پردہ ہٹایا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پردے کے پیچھے جنرل ایوب خان رائفل پکڑے کھڑے تھے۔ ظاہر ہے کہ کمانڈر انچیف گورنر جنرل کے ایماء پر ہی وہاں موجود تھا۔ خود محمد علی بوگرہ کو فوجی گاڑی میں گورنر جنرل ہائوس لایا گیا تھا، چنانچہ جب اگلے دن نئی کابینہ نے حلف اُٹھایا تو اس میں محمد علی بوگرہ وزیراعظم تھے اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیردفاع کا عہدہ دیا گیا تھا۔ یوں سمجھئے کہ شیر کے منہ کو خون لگ گیا۔ اقتدار وسیاست کا چسکا خون ہی ہوتا ہے، پھر چار ہی برسوں بعد جنرل ایوب نے سکندر مرزا کی ملی بھگت سے مارشل لاء لگایا اور سیاستدانوں کو چھٹی کروا کر جمہوری بساط لپیٹ دی گئی۔ مارشل لاء لگا تو جنرل ایوب خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور وہ ایک روز کے لیے پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔ شاید اس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہو گا لیکن میں نے حکومتِ پاکستان کا متعلقہ سرکاری گزٹ بھی دیکھا ہے اور کابینہ ڈویژن سے کابینہ کی تفصیل بھی حاصل کی ہے جس کے مطابق جنرل ایوب خان ایک دن کے لیے وزیراعظم بنے۔ کابینہ کا یہ چارٹ میری کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ کے ضمیمہ جات میں موجود ہے۔ لطف کی بات ہے کہ میں جب واشنگٹن میں خفیہ ریکارڈ دیکھ رہا تھا تو اس میں امریکی سفارتخانے کراچی کی رپورٹوں میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ پاکستان کا آئندہ وزیراعظم ایوب خان ہو گا۔ ایوب خان پاکستان کا مردِآہن ہے، چنانچہ اکتوبر 1958ء کا مارشل لاء لگنے سے قبل ہی امریکہ بہادر نے ایوب خان پر محنت کرنا شروع کردی تھی۔ یوں بھی 1954-55ء میں سٹیوسنٹو کے دفاعی معاہدات میں شمولیت کے بعد پاکستان امریکہ کا قریبی حلیف بن چکا تھا اور پاکستانی فوج امریکہ سے اسلحہ حاصل کر کے امریکہ کی ممنونِ احساس ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود امریکی نظریں ایوب خان پر لگی ہوئی تھیں۔
دوسری طرف امریکی حلیف بننے کے سبب روس پاکستان کا دُشمن بن چکاتھا اور اپنی دُشمنی کا برملا اظہار کرتا تھا۔ جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو جلاوطن کر کے اقتدار میں پائوں جمائے تو امریکی احسان کا بدلہ چکانے کے لیے پشاور کے قریب بڈھ بیر کا ہوائی اڈا امریکہ کو دے دیا تاکہ وہ روسی بارڈر کے قریب ڈیرہ لگا کر روس کی جاسوسی کرسکے۔ اسی بڈھ بیر سے اُڑنے والے امریکی جاسوس طیارہ یوٹوکو روس نے مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کرلیا۔ میں آج تک اس خوفناک منظر کو نہیں بھلا سکا جس کی ویڈیو طویل عرصہ قبل دیکھی تھی۔ اس ہوشربا واقعہ کے بعد اقوام متحدہ کا اجلاس جس میں شرکت کے لیے روسی وزیراعظم خردشیف خاص طور پر نیویارک آئے، اقوام متحدہ کی تقریر میں غصّے سے لال پیلا ہو کر آگ برساتے ہوئے وزیراعظم خردشیف نے یوٹو جاسوسی طیارے کے حوالے سے سنگین دھمکیاں دیں اور اعلان کیا کہ روس نے پاکستان کے اردگرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔ پاکستان کو اس کی سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی خردشیف نے تمام عالمی آداب کو کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے اپنے پائوں سے جوتا اُتارا اور جوتے کو میز پر زور زور سے مارتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ ظاہر ہے کہ جنرل ایوب خان آرمی چیف تھے، اُن کو کسی سے ڈرنے ورنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن روسی دُشمنی کی سزا پاکستانی قوم کو بھگتنی پڑی۔
1971ء کی جنگ میں روس نے کھل کر ہندوستان کی مدد کی، اُسے بے پناہ اسلحہ دیا اور دوستی کا دس سالہ معاہدہ بھی کیا۔ اس طرح روس نے دسمبر 1971ء میں پاکستان کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا جس کی تفصیل ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ میں دی گئی ہے۔ یحییٰ خان بھی کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، اُس نے ملک توڑ دیا۔ ہم نے اُس کا کیا بگاڑلیا۔ جنرل ضیاء الحق بھی کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، اُس نے چیف جسٹس انوارالحق اور سپریم کورٹ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لکھوایا جس کی دردناک تفصیل جنرل ضیاء الحق کے نائب اور ڈی فیکٹو وزیراعظم جنرل کے ایم عارف کی کتاب میں موجود ہے۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ لے کر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔ ہم نے اُس کا کیا بگاڑ لیا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے آئین شکنی کی اور قتل وغارت کا مرتکب بھی ہوا کیونکہ وہ کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، ہم نے اُس کا کیا بگاڑ لیا۔ اس لیے دوستو تاریخ سے روشنی حاصل کرو، زمینی حقائق سمجھو اور مان جائو کہ مشرف جو کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ یہ مشرف پہ ہی موقوف نہیں، ہمارے تمام فوجی حکمران کسی سے بھی ڈرتے ورتے نہیں تھے اور نہ آئندہ ڈریں گے۔