کوڑے کرکٹ میں رز ق تلاش کرتی آنکھیں ،آخر یہ بھی ہمارے بچے ہیں

بعض بچے صبح سے شام تک اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، پھر کہیں جا کر انہیں اتنی آمدنی حاصل ہوتی ہے جس سے وہ گھر والوں کی کفالت کرتے ہیں۔ صورتحال اس وقت اور بھی تشویش ناک ہو جاتی ہے جب گندگی میں ہاتھ مارنے کے دوران کانچ کے ٹکڑے، نرم ونازک اُنگلیوں کو چیر دیتے ہیں تاہم اس کے باوجود ننھے پھول یکسوئی سے اپنا کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور تھک ہار کر انہی ڈھیروں کے قریب کچھ دیر کے لیے سو بھی جاتے ہیں۔

شہر بھر کے کوڑا پوائنٹس سے کارآمد اشیاء تلاش کرنے والے زیادہ تر بچے اور نوجوان پشتون ہیں جو پشاور اور شمالی علاقوں سے روزگار کی تلاش میں صوبہ پنجاب کے گنجان شہروں میں آکر آباد ہو گئے ہیں، ان میں اکثر تو اپنے والدین کے ہمراہ رہتے ہیں تاہم بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو کرائے کے کمروں میں ایک گروپ کی صورت میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے نکلنے والی کارآمد اشیاء کون سی ہوتی ہیں، یہ اشیاء کہاں فروخت کی جاتی ہیں، نیز ان کی فروخت سے روزانہ کتنی آمدنی ہوتی ہے ان سب سوالات کے جواب جاننے کے لیے مختلف مقامات پر محنت کش بچوں سے گفتگو کی گئی، جو قارئین کی نذر ہے۔

ایک حادثے کے نتیجے میں اس کا والد معذور ہو گیا اور تین سال سے چارپائی پر ہے۔ جمیل خان کے تین بہن بھائی اور بھی ہیں جبکہ گھر کا واحد کفیل وہ خود ہے۔ وہ صبح سات بجے ہی یہاں پہنچ جاتا ہے اور کارآمد اشیاء تلاش کرنے لگتا ہے۔ جمیل خان نے بتایا کہ کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ، گتہ، پرانی چپلیں، پھٹے پرانے کپڑے اور پلاسٹک کی اشیاء جس میں پلاسٹک بوتل سرفہرست ہے، وہ نکال کر تھیلے میں جمع کرتا رہتا ہے جبکہ دوپہر بارہ بجے دوبارہ یہاں آتاہے کیونکہ علاقہ بھر سے کوڑا یہاں پھینکنے کا سلسلہ سارا دن ہی جاری رہتا ہے۔ وہ دوسری جماعت میں تعلیم حاصل کررہا تھا کہ اُس وقت والد نے خود پیش آنے والے حادثے کے بعد اُسے سکول سے ہٹا کر اس کام میں لگا دیا۔ جمیل خان ہمارے سوالات کے جواب اتنے معصوم انداز میں دے رہا تھا کہ بات کرتے ہوئے اکثر خاموش ہو جاتا ہے۔ دماغ پر زور دیتا کہ اس سوال کا جواب کیسے دینا ہے۔ اُس نے بتایا کہ وہ کوڑا پوائنٹ سے کچھ فاصلے پر واقع کباڑخانے میں سارا سامان فروخت کرتا ہے جس سے اُسے تین سے چار سو روپے روزانہ ملتے ہیں۔

کارآمد اشیاء تلاش کرنیو الوں میں ایک دوسرے بچے صادق خان سے بھی ہماری ملاقات ہوئی جس کی عمر پندرہ سال ہے۔ اُس کا والد بھی بیمار ہے اور کوئی کام نہیں کرسکتا۔ صادق خان نے کہا کہ کس کا دل کرتا ہے کہ کوڑے کے ڈھیر میں ہاتھ مارے، بس حالات نے ہمیں مجبور کر دیا ہے۔ تمام دن یہاں کوڑے کے ساتھ کوڑا بن جاتے ہیں۔ ہم نے صادق خان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام پشتونوں نے لاہور کا رُخ کرلیا ہے، کیا پشاور میں کوڑا کرکٹ جمع نہیں ہوتا تو اُس نے جواب دیا ، وہاں ہمیں یہ کام کرتے شرم آتی ہے۔ وہاں گزرنے والا پشتون ہمیں یہ کام کرتا دیکھ کر ہمارے اوپر آوازیں کستے اور طنز کرتے ہیں لہٰذا ہم وہاں سے پنجاب میں آگئے ہیں۔ صادق خان نے بتایا یوں تو سارا ہفتہ ہی کوڑے میں سے چیزیں کوڑے میں جمع کرتا رہتا ہے جس کے بعد چونگی امرسدھو کے علاقے کچاجیل روڈ پر کباڑخانے میں سارا سامان فروخت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کوڑے میں سے نکلنے والی اشیاء خریدنے والے کباڑخانے روایتی کباڑخانوں سے مختلف ہوتے ہیں، یہاں پلاسٹک کی بوتلوں، کاغذ اور پھٹے پرانے کپڑوں اور ناکارہ جوتیوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جس کے بعد یہ سامان مختلف فیکٹریوں میں روانہ کردیا جاتا ہے جسے ری سائیکل کر کے دوبارہ نئی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔

فرید خان سے پوچھا کہ کیا کوڑے میں سے کبھی کوئی مہنگی چیز بھی ملی ہے تو اس نے جواب دیا اکثر لوگ اپنے کپڑے، پتلونیں اور جیکٹس بھی کوڑادان میں پھینک دیتے ہیں۔ انکی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے پر بعض اوقات ہزار یا پانچ سو روپے کے نوٹ بھی نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر لوگ اپنے خراب موبائل بھی کوڑے کی نذر کردیتے ہیں۔ اسے یہاں سے ایک ایسا موبائل فون بھی ملا جس کی مرمت پر صرف تین سو روپے خرچہ آیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ اس نے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر ہمیں دکھایا اور کہا کہ یہ موبائل فون مجھے اسی کوڑے کے ڈھیر میں سے ملا تھا۔

کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے کارآمد اشیاء تلاش کرنے والا ایک دوسرا طبقہ خانہ بدوش بھی ہیں۔ خانہ بدوش مردوں نے گدھاگاڑیاں بنا رکھی ہیں۔ یہ مختلف محلوں میں جاکر وہاں سے کوڑاکرکٹ اُٹھا کر گدھاگاڑی پر لادتے ہیں اور اسی وقت ہی اسے کھنگال کر اس میں سے کارآمد اشیاء نکال کر دوسرے تھیلے میں ڈال دیتے ہیں۔ 17سالہ خانہ بدوش منصف حسین نے بتایا کہ وہ کوٹ لکھپت کے علاقے میں قائم جھگی بستی میں رہائش پذیر ہے۔ وہ روزانہ تقریباً تین سو گھروں میں کوڑا اکٹھا کرتا ہے، اس کے ہمراہ اس کی بیوی اور دو کمسن بچے بھی ہوتے ہیں جو اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ تمام دن لوگوں کے گھروں سے کوڑا اکٹھا کرنے کے بعد یہ کارآمد اشیاء واپس اپنی جھگی میں لے آتے ہیں جبکہ گندگی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتے ہیں۔ منصف حسین کے بتانے پر کوٹ لکھپت کے علاقے میں جب ہم اُس کی جھگی بستی میں پہنچے تو گویا یوں محسوس ہوا جیسے پورے شہر کے کوڑے میں سے نکلنے والی کارآمد اشیاء یہیں آتی ہیں۔ کیا بچے کیا خواتین اور کیا نوجوان، سب ہی مختلف اشیاء نکال کر اُن کی ڈھیریاں بنا رہے تھے۔ منصف کے چھوٹے بیٹے 8سالہ ننھے مہتاب سے پوچھا کہ سکول کیوں نہیں جاتے تو کہنے لگا، ابونے کہا میرے ساتھ کام کرو جبکہ مجھے کتابیں اور سکول بیگ بہت اچھا لگتا ہے۔ صبح جب بستی کے سامنے سے بچے سکول جاتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ سکول جائوں۔گندگی کے ڈھیروں کو کھنگالنے والا ایک تیسرا طبقہ نشئی افراد ہوتے ہیں جس میں زیادہ تر اپنے گھروں سے بھاگے ہوتے ہیں۔

ایسا کوئی طریقہ یا وسائل نہیں ہیں کہ کوڑے کے ان ڈھیروں سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے بائیوگیس بنانے کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔

حال ہی میں فیروزپور روڈ پر ارفہ کریم ٹاور کے قریب اولڈ سبزی منڈی بھی کوڑے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ چند ماہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور میں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا تو اولڈ سبزی منڈی کی کئی ایکڑ جگہ پر ایک ہزار بستر کا ہسپتال بنانے کا اعلان کیا۔ یہاں ہسپتال کب تعمیر ہو گا، آیا ہو گا بھی کہ نہیں، اس بارے وزیراعلیٰ عثمان بزدار خود بھی نہیں جانتے لیکن یہ تمام جگہ گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کوڑے سے اُٹھنے والے تعفن سے نہ صرف آس پاس کے رہنے والے رہائشی پریشان ہیں بلکہ تعفن سے ارفہ کریم ٹاور میں گرائونڈ فلور کے دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی پریشانی کا سامنا کررہے ہیں۔ یہاں ہماری ملاقات کوڑے والے ٹرکوں کی گنتی کرتے ٹھیکیدار سے ہوئی جنہوں نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ یہاں کوڑا کرکٹ پھینکنا آس پاس کے رہائشیوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے افسروں نے اپنی مرضی سے یہاں کوڑا پھینکنے کی اجازت دے دی ہے، معلوم نہیں کہ اس میں اُن کا کیا مفاد ہے۔ یہاں اتنا تعفن اور بدبو تھی کہ ہم نے اور ٹھیکیدار نے اپنا منہ ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا جبکہ اردگرد میں نصف کلومیٹر قطر کا علاقہ بھی اس تعفن سے شدید متاثر تھا۔ ٹھیکیدار نے بتایا کہ متعدد بار افسروں کے علم میں یہ بات لاچکے ہیں کہ یہاں سے کوڑا براہ راست لکھوڈیر پھینکا جائے لیکن وہ اس بات کو نہیں سنتے۔

٭…٭…٭