ماضی کو بھولنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے

زندگی ایک طویل سفر تومختصر کہانی بھی ہے۔ اس کے بڑے بھائو تائو ہوتے ہیں، کبھی جینے نہیں دیتی کبھی عروج پر لے جاتی ہے اور وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں جو بننے کے عمل سے گزرتے ہوئے مجبور زندگی کو آسان راستوں پر لے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے بغیر رشتوں اور سہاروں کے زندگی کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم کیا اور وہ کیا منظر ہو گا جب ایک بچہ ماں باپ کی محرومی میں اوروں کے سہاروں پر اپنی نئی زندگی کے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ جس گھر کے چاروں طرف بھوک، افلاس اور مجبوریوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے دس سال کی عمر میں وہ بچہ بیس سالہ عمر کے بچے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور پینٹ کوٹ پتلون کے شوق میں ادھر ادھر ہاتھ پائوں مارتے مارتے ساتھ پڑھائی کا عمل جاری رکھتے ہوئے اپنی ابتدائی نوعمر جوانی میں قدم رکھتا ہے اور پھر فرانس جانے کے شوق میں لنڈے بازار سے کوٹ پتلون لینے جاتا ہے۔ دُبلا پتلا اس قدر کہ پینٹ بھی اس کے دُبلے پتلے جسم کا مذاق اُڑانے اور وہ پینٹ کو اوزاربند سے باندھ کر ایئرپورٹ چلا جائے اور فرانس کی جدید دُنیا میں جااُترے، وہاں محنت مزدوری کرتے کرتے ہو ایک بڑا فیشن ڈیزائنر بن کر اُٹھے…

مختصر لفظوں میں ڈھلتی کہانی پڑھنے کو تو آسان لگے مگر یہ عشروں کی مسافت ہے جس میں مشکلات اور بُرے حالات ہیں۔ والدین کا سایہ سر پر نہیں ہے اور اندھے معاشرے میں اُٹھنا، بیٹھنا، کھیل کھلونوں سے دور یہ بچہ جس کی شناخت محمود بھٹی سے ہوتی ہے اور پھر وہ بچہ اس قدر محنت کرتا ہے کہ اس کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کب جوان ہوا اور جب وہ جوان ہوا تو مشکلات کے بلند پہاڑ اس کے سر سے گزر چکے تھے۔

محمود بھٹی کہنے کو تو ایک بڑا فیشن برینڈ ہے جس نے فرانس سے لے کر پوری دُنیا میں جدید فیشن متعارف کروائے اور پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو فیشن سکول سے فیشن یونیورسٹی کی بنیادوں میں بھی محمود بھٹی کے کیے کام دکھائی دیتے ہیں۔

خوبصورت نین نقش، گفتار میں کردار میں محمود بھٹی دوستوں میں قہقہے بکھیرتا اپنے ماضی کو آج بھی یاد رکھے ہوئے ہے۔ اس زمانے کے دوستوں اور جنہوں نے بھٹی کو سنوارا اور محمود کو فرانس بھجوایا وہ بھی اس کی ملاقاتوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اس کے رنگ، اس کے کام، اس کے تخلیق کردہ مغربی اور یورپی ڈیزائن اسے حکومت کی طرف سے بہترین کارکردگی پر تمغہ حسن کارکردگی بھی دلوا کر اس کی اہمیت کو بڑے برینڈز اور بڑے ناموں میں لاکھڑا کیا۔ اور آج یہی برانڈ یورپ میں پاکستان کی بڑی شناخت بن چکا ہے۔ دورانِ گفتگو جب وہ اپنے بچپن کی یادوں کے بارے میں جب وہ اپنے ماضی کو کرید رہا تھاتو اس کے چہرے پر اداسیاں، ماضی کی یادیں، بڑی واضع دکھائی دے رہی تھیں۔ گزشتہ دنوں بہت سے سوالات کے ساتھ ہم نے محمود بھٹی سے جو کہ فیشن کی دُنیا کے بادشاہ گر ہیں، سے ایک ملاقات کی جس کی روئیداد ذیل کے کالموں میں پیشِ خدمت ہے۔

تھوڑا سا اپنے والدین، بچپن کا ماحول، گھر کے حالات اور خاندانی تعلق کے بارے میں بتایئے کہ سلسلے کہاں سے چلے اور پھر سکول سے کالج اور تعلیم کو کس ڈگری کے بعد خیرباد کہا؟

بچپن میں والدین ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور میں جن کے پاس اپنا بچپن گزار رہا تھا ان کے پانچ بچے تھے اور چھٹا میں تھا۔ اسی دوران میں نے ایک بات محسوس کرنا شروع کردی کہ میں ان پانچ بچوں میں سے مختلف ہوں کہ ان کو والدین کی طرف سے جو محبتیں میسر تھیں وہ میرے پاس سے بھی ہو کر نہیں گزر رہی تھیں۔

اگر یاد ہو ذرا ذرا وہ کون سی عمر تھی جب اس قسم کے محسوسات آپ کے اندر جنم لینے لگے؟

یہی کوئی دس سال، ایک سال کم یا چند ماہ زیادہ غالباً عمر یہی تھی جب اکیلاپن چھانے لگا گو سب لوگ میرے اردگرد تھے مگر میں خود کو تنہاتنہا محسوس کررہا تھا۔

سکول کی ابتدا کس سے ہوئی؟

سمن آباد سنٹرل ماڈل ہائی سکول میری پہلی درسگاہ تھی۔

دس سال کی عمر میں بچپن گزر رہا ہوتا ہے،شعور آتا ہے، اس وقت کس طرح کے بچے تھے، شرارتی، ابنارمل، نارمل، کھیل کود یا پھر خاموش خاموش؟

میرے نزدیک جب کوئی بچہ ایسے حالات سے گزر رہا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو ایک ایسا ذہن دے دیتا ہے میں دیکھا کرتا کہ جو کپڑے، جوتے یا تہواروں پر رنگ برنگے لباس دوسرے بچوں کو ملتے تھے، میں ان سے محروم رہا۔ یہاں تک کہ گھر سے لے کر باہر تک ایک ٹوٹی چپل میرے پائوں میں ہوتی۔ اب میرے اندر کی خواہشات بہت تھیں مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے، اس دوران مجھے پینٹ، قمیض لینے کا بہت شوق تھا۔ اس کے باوجود خدا نے مجھے ایک ایسا ذہن، سوچ اور فکر دے دی تھی کہ میں اپنے اندر ایک عجیب سی طاقت محسوس کرتا رہا۔ اس دوران باکسر محمد علی میرے ذہن پر سوار تھے۔

کیا ان دنوں ان کے مقابلے دیکھے؟

میں نے مقابلے دیکھے جب میں بڑا ہوا، زندگی نے باقاعدہ شعور میں قدم رکھا۔

محمد علی کی کس چیز نے آپ کو متاثر کیا؟

اس کی طاقت، اس کی فتح، اس کا نام ،شہرت اور بلندیوں کو چھونے والا نام جو آہستہ آہستہ میرے اندر اترتا گیا۔ جس طرح کوئی کسی کا لیڈر یا آئیڈیل نہیں ہوتا، میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ میں عمر کے ساتھ ساتھ محمد علی کو پڑھتا گیا۔ اس کے پنجے میں جو بلا کی سی طاقت تھی اس طاقت کے محسوسات محسوس کرنے لگا، یہاں ایک بات میری سمجھ میں آگئی تھی کہ مجھے جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔ نام سے لے کر اوپر آنے تک اکیلے ایک بڑی جنگ لڑنے کا عزم میرے اندر اُتر چکا تھا مگر اس زمانے میں نہ وقت میرے ساتھ اور نہ پیسہ تھا، پھر میں نے خود کو عزت دینا شروع کردی کہ جب میں اپنے آپ کی عزت نہیں کرائوں گا مجھے کوئی عزت نہیں دے گا لہٰذا ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ یہ دُنیا بہت چھوٹی، بہت مختصر صرف اتنے ہی فاصلے پر جس کے درمیان موت اور زندگی ہو۔

آخری ڈگری آخری کلاس آخری سند کیا ملی؟

سائنس کالج اور گورنمنٹ کالج سے اپنی تعلیم کا اختتام کیا۔

سکول سے کالج تک کے عرصہ میں کیا جنگ رہی کہ یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے، یہ بنتا ہے وہ بنتا ہے؟

میں چھوٹے چھوٹے بہت کام کرتا تھا۔ انارکلی سے شیزان فیکٹری تک ’’چھوٹے‘‘ کے رول میں پیسے کماتا۔

بہت محنت کی، پھر پیسہ کمایا اور اپنی خواہشات پوری کرنا شروع کردیں، پینٹ قمیضوں سے جوتے تک خود خریدے اس وقت کیا احساسات تھے؟

میں نے پہلی پینٹ قمیض اور کوٹ لنڈے بازار سے خریدا تھا اور مجھے ان کے کلرز آج بھی یاد ہیں، یہاں میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ انسان کو کبھی اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اس کو نہ صرف اس کی اوقات دکھاتا رہتا ہے بلکہ اگر وہ انسان سمجھ دار ہے تو پھر زندگی کو ماضی کے رویوں میں زندہ رکھتا ہے۔

لنڈے سے جو کپڑے خریدے اس وقت کیا محسوسات تھے؟

کوٹ کے بازو بہت لمبے تھے، میرا قد تو نارمل تھا مگر جسم بہت دُبلا پتلا تھا، میرے پاس پینٹ کے لیے بیلٹ کے پیسے نہیں تھے لہٰذا میں ایک رسی کے ساتھ اس کو باندھ لیا کرتا تھا،پھر قمیض اور کوٹ پہن لیتا۔

لنڈے سے پیرس تک کا سفر کیسا رہا؟

مجھے پیرس جانے کے لیے پیسوں کی بہت ضرورت تھی۔ میں نے ادھر ادھر سے پکڑ کر پہلے پیسے اکٹھے کیے، پھر پاسپورٹ بنوایا، پھر ٹکٹ خریدا اور جب پیرس جانے کے لیے جہاز میں بیٹھا، اس زمانے میں ویزے بڑی آسانی سے ملتے تھے۔ پیرس میں میرا ایک دوست تھا، اس نے مجھے سٹوڈنٹ ویزا بھیجا۔ وہ میرا پرانا دوست تھا، بہت عرصہ سے وہ وہیں مقیم تھا۔

آپ کب پیرس گئے؟

79ء میں پیرس گیا۔ اس زمانے میں انعام اللہ نیازی، حفیظ اللہ نیازی جو میرے دوست تھے، وہ مجھے ایئرپورٹ تک چھوڑنے گئے۔

فرانس میں جاتے ہی پہلے کیا کام کیا؟

فرانس جانے کے لیے 200 ڈالر میری جیب میں تھے اور میں ڈرا ڈرا سہما سہما جہاز میں بیٹھ گیا۔ نہ مجھے بیلٹ باندھنا اور نہ چمچ کے ساتھ کھانا آتا تھا کہ دائیں یا بائیں ہاتھ سے کھانا ہے۔ یہ ایک کیفیت تھی۔ وہاں جس طرح یہاں سے پاکستانی جاتے ہیں وہ ہوٹلز اور پٹرول پمپوں پر کام کرتے ہیں، میں نے بھی وہاں جاتے ہی یہ کام کیے۔ آج سوچتا ہوں کہ یہی تو زندگی ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہ ہو اور آپ محنت کریں اور طے کرلیں کہ میں نے بڑا بننا ہے تو پھر اس کی جدوجہد اس کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے اور یہی ایکسرسائز آپ کو انسانی قدروں کے اندر اتار دیتی ہے۔ پہلا کام فرانس میں سڑکوں کی صفائی کا کیا تاکہ روٹی کا سلسلہ شروع ہو سکے اور دو سال تک میں چھوٹے چھوٹے کام کرتا رہا۔ وہیں پرمیں نے کپڑوں کی ڈیزائننگ کا کام کرنا شروع کردیا، وہ اس طرح کہ میں وہاں ڈیزائننگ کی دکانوں پردیکھا کرتا کہ یہ کیسے ڈیزائن بناتے ہیں اور پھر ان کو سیتے ہیں، تقریباً دو سال تک یہ سلسلہ چلا۔ پھر میں نے پیرس میں اپنا آفس بنالیا۔

آپ نے کاروبار کا پہلا نام، پہلا بورڈ جو دکان پر لگایا کس کا تھا؟

’’بھٹی‘‘ کے نام کا پہلا بورڈ لگا جو بعد میں ایک بڑا برینڈ بن گیا۔

پاکستانی ڈریسز سے آغاز ہوا؟

مکمل یورپین ڈیزائن بنانے میں وہاں پاکستانیوں کو نہیں ملا کرتا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اگر میں ان کے ساتھ مکس ہو جاتا تو کبھی ترقی نہ کرپاتا۔ دیکھیں میرا نظریہ یہ تھا کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے ماحول کو اپنائے بغیر کامیابی کے راستے طے نہیں کرسکتے لہٰذا میں نے جاتے ہی فرانس کے کلچر کو اپنا لیا اور مجھے ایسا کرنا بھی چاہیے تھا۔ پاکستانی کلچر تو میں چھوڑ کے یہاں آگیا تھا۔ ایک سیدھا فارمولا یہ تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے مجھے ان لوگوں کے ساتھ چلنا ہو گا۔ پاکستانی جہاں جاتے ہیں وہاں اپنا کلچر بنا لیتے ہیں، جس زمانے میں میں وہاں گیا آج بھی وہ ایک ہی جگہ کا تصور لیے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرا تو نہ کوئی آگے نہ پیچھے تو پھر کیوں ایک جگہ کھڑا ہو کر رہوں، میں نے ایسا نہیں کیا۔

فرانس کا ماحول بڑا فیشن والا تھا؟

میں چونکہ خوبصورت تھا، فرانسیسی لڑکیاں جب مجھے دیکھتیں تو میرا رنگ سرخ ہو جاتا تھا۔ پاکستان میں ڈیٹ لگانا مشکل ہے۔ وہاں تو سڑک پر ہی ڈیٹ لگ جاتی تھی، بہرحال وہ زمانہ اور اس زمانے کے جدید لوگوں سے ملاپ نے میرے اندر کے بھٹی کو بہت تبدیل کردیا۔ میں جس علاقے میں کام کرتا تھا وہاں یہودی زیادہ تھے۔ ان سے میں باقاعدہ کپڑا اُدھار لیتا اور پھر یہ اُدھار ہی میرا ان کے سامنے بڑا اعتماد بن گیا۔ اس لیے کہ میں واپسی کا جو وقت دیتا اس سے ایک دن پہلے ادائیگی کردیتا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بزنس کروڑوں پر چلا گیا۔

فرانس کا ماحول، زندگی، کلچر، آپ نے کیسا سیکھا؟

محنت، لگن، اعتماد، لین دین کے معاملے میں فیئرنس اور ترقی کرنے کے لیے دن رات کام کا کرنا ان قوموں میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ وہ محنت کرتے وقت دینا بھول جاتے ہیں، ماحول بھول جاتے ہیں، دوستیاں اور رشتے بھول جاتے ہیں، کام کے وقت صرف کام، ان کا بڑا فریضہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں، یہ جھوٹ، مفادات اور ایک دوسرے کو زچ کر کے اوپر جاتے لوگ ہیں، کام چور زیادہ ہیں۔ اکثر لوگ مجھے کہتے تھے کہ یہ خوش قسمت ہے اس کی لک نے اس کو بڑا انسان بنا دیا ہے مگر میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ قسمت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے مگر قسمت بھی اس وقت ہی کام آتی ہے جب آپ محنت کریں گے۔ میری خوش قسمتی یہ کہ میں فرانس میں کچھ کرنے اور خود کو بنانے کے لیے وہاں گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں مکمل انسان اور اچھا دماغ دیا ہے اس کا استعمال کرو، محنت کے ساتھ کام کی لگن ہی بڑی قسمت ہوتی ہے۔

آپ کی محنت نے کام کیا، قسمت پر آپ بھروسہ نہیں کرتے؟

بات لک (قسمت) پر بھروسہ کرنے کی نہیں، بات ہے کہ آپ کب تک انتھک انسان نہیں بنتے۔ فرانس میں آرام کرنے یا سیر سپاٹا کرنے تو نہیں گیا تھا۔ یہ عزت، شہرت خدا کی دین اس وقت ہے جب آپ آگے بڑھنے کا عزم کرتے ہوئے دن رات ایک کر دیتے ہیں، آپ کی لک چھتوں سے پیسہ اور چیزیں نہیں گرائے گی۔

آپ کی زندگی میں کوئی ایسا ہاتھ جس کے بل بوتے پر آپ یہاں تک پہنچے؟

میرے ساتھی برے وقت میں میری مدد کرنے والے لوگ، دوست جن کی وجہ سے میں پاکستانی ماحول چھوڑ کر فرانس کے ماحول میں جا بسا، میرے اندر غربت کے وہ دن اب بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، میں اپنا برا وقت کبھی نہیں بھولتا۔ میرے اس زمانے کے ساتھی آج بھی مجھے کہیں ملتے ہیں یا میں ان سے ملتا ہوں تو پرانے وقت کو دہراتے ہیں۔ میری ایک اور عادت بھی ہے کہ میں غریبوں کی مدد کیا کرتا ہوں۔ ان کو کھانے کھلاتا ہوں، مجھے علم ہے کہ انسان کے اندر کی میں اس کو تباہ کر دیتی ہے۔ میں ہی سے انسان فرعون بن جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔

کارکنان دھرنے ختم کریں اور پرامن طور پر گھروں کو چلے جائیں، سعد رضوی
شہرت سے کیا سیکھا؟

محبت کرنا سیکھی۔ شہرت مل تو جاتی ہے اس دور میں اس کو سنبھالنا ہی تو ایک بڑا کام ہے۔ میں لالچ نہیں کرتا، حسد نہیں کرتا، میرے اندر جو ہے وہ باہر بھی نظر آئے گا۔

فرانس کے بعد پاکستانی آپ کے منتظر ہیں، کب تک فرانس میں رہنے کا ارادہ ہے؟

پاکستان میں فیشن ڈیزائنرز کا سکول میں نے بنوایا تھا، مجھے فخر ہے کہ پاکستان میں فیشن انڈسٹری کی بنیاد رکھنے پر مجھے ستارہ امتیاز بھی ملا۔ میرا سٹاف بچوں کو تربیت دیتا تھا۔ میں نے اپنی جیب سے مشینیں لے کر دیں۔ اب وہ فیشن سکول ایک بڑی یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں آپ کو ایک دلچسپ بات بتائوں جب میں فرانس سے یہاں آیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ درزی ہے جبکہ میں ایک فیشن ڈیزائنر ہوں۔ مجھے کلچر کو ڈیزائنر کرنا ہوتا ہے۔ درزی بُرا کام نہیں، یہی درزی آپ کو پہناوے پہناتا ہے۔ فیشن ڈیزائنر وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو کاپی نہ کرے اور اپنی تخلیق سے رنگوں کو لباس میں ڈھالے۔ ماحول کو ساتھ لے کر چلے۔ اب آپ میرا جو گھر دیکھ رہے ہیں یہ میں نے خود ڈیزائن کیا ہے کہ میرا تو کام ہی ڈیزائن کرنا ہے۔ آپ کو سن کر حیرانگی ہو گی کہ اسی ممالک میں میرے دفاتر فیشن پر کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں غیرملکی تصاویر کو سامنے رکھ کے ڈیزائن کر دیا جاتا ہے اور نام لگا دیا گیا کہ ہم فیشن ڈیزائنر ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستانی ہونے کے ناطے پاکستان میں بے تحاشا چیزین ڈیزائن کر کے متعارف کرائی ہیں۔

جہانگیر ترین اور عمران خان میں رابطے،اندرونی کہانی سامنے آگئی
جسٹس ثاقب نثار بمقابلہ بھٹی، اس کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟

وہ میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ تھا جس کو میں بھول چکا ہوں اور اس کا نام اور یاد رکھنا بھی نہیں چاہتا ہوں۔ اس واقعہ کو بھول کر آگے کی جانب بڑھ رہا ہوں۔

آپ کیوں ایسا نہیں چاہ رہے کہ اس نسل کو کچھ دے جائیں؟

ایک ادارہ بنا تو دیا ہے۔

وہ ادارہ جہاں آپ باقاعدہ فیشن کو پڑھا سکیں؟

میں نے بیدیاں میں زمین لی اور پھر وہ واقعہ پیش آگیا۔ میں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ سب چیزیں وہیں ٹھہر گئیں۔ اس واقعہ کو سامنے رکھ کر میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ اوورسیز پاکستانی ایک دم سے پاکستان آکر قدم نہیں جما سکتے اور نہ ہی آسکتے ہیں۔ ہم لوگوں نے برے حالات دیکھنے ہوتے ہیں۔ برے حالات کا مقابلہ کیا ہوتا ہے باہر کے ممالک میں چیزیں بنانا ہی بہت وقت لے جاتا ہے اور پھر وہاں کے بڑے کاروباری اداروں میں خود کو شمار کرنا یہ عشروں کی بات ہے دنوں کی نہیں، وہاں لوگ مجھے کہتے ہیں کہ بھٹی پاکستانی اس پر میرا سینہ فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ میری محنت میرا کام یہاں تک آگیا ہے کہ پاکستان کے نام سے مجھے شناخت ملی، شہرت اور پیسہ کمانے کو ملا۔

ماہرہ خان کے دل کا ٹکڑا کون ۔۔۔؟
زندگی بھر کیا کمایا؟

عزت، شہرت کہ میں ایک بڑا پاکستانی ہوں۔

آگے کی منصوبہ بندی کیا ہے؟

میں آگے بہت نئی چیزیں لے کر آرہا ہوں انشاء اللہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری کے لیے میری خدمات حاضر ہیں۔ یہاں بہت کام ہونے والا ہے۔ پاکستان میں 2020ء اور اب 2021ء میں بھی کرونا نے تمام کاروبار کو روک رکھا ہے، اس بیماری کے چکر میں بھی ایک دوسرے کو بخشا نہیں جارہا۔

٭…٭…٭