شکریہ، چیف آف آرمی سٹاف

بالآخر تحریک لبیک کے سامنے ریاست کھڑی ہو گئی۔ پنجاب حکومت نے تنظیم پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔ اس بارے میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے تحریک کے بارے میں اداروں کے تحفظات اور حقائق پیش کئے تھے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی کی تجویز وفاقی کابینہ کو منظوری کیلئے بھیج دی گئی ہے۔ تحریک لبیک کے اقدام سے اقوام عالم میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی تھی۔ اب ریاست کو چاہیے کہ اس دہشت گردی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں بھی لے کر آئے تا کہ اس قسم کے فتنے آئندہ سر نہ اٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ ان جتھوں سے شرمناک معاہدوں سے بھی گریز کیا جائے۔

نبی کریم حضرت محمد ﷺ رحمت العالمین تھے اور دین اسلام کی پیروی کے علاوہ ان کا سب سے بڑا درس انسانیت تھا اور یہ کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے تکلیف نہ پہنچے لیکن میرے نبی کریمﷺ کے نام پر ایک مذہبی گروہ نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان کے شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ ریاست بھی اس جتھے کے آگے خاموش ہے۔ ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت کرے لیکن ریاست ایسا کرنے میں ناکام ہے۔

تین دن سے پورا ملک ایک مسلح جتھے کے ہاتھوں مفلوج پڑا ہے ریاست کی رٹ عنقا ہے۔ ہسپتال دواؤں اور آکسیجن سے محروم ہو رہے ہیں۔ عوام ان کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ان کی املاک جلائی جا رہی ہیں روزگار چھینا جا رہا ہے۔ پولیس اہلکار مسلح جتھوں کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب چپ سادھے فسادیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے بیٹھے ہیں، کم و بیش یہی صورتحال باقی صوبوں کی بھی ہے۔ اور تو اور وفاقی دارالحکومت بھی ان شرپسندوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید جو اپوزیشن کی احتجاجی کال پر ان کو نانی یاد دلانے اور عبرت کا نشان بنانے کا دعویٰ کرتے تھے وہ بھیگی بلی بنے چھپے بیٹھے ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مظاہرین ان کا حلقہ انتخاب ہے ان سے سختی سے نہیں نمٹ سکتے۔ دیہاڑی دار مزدور جن کے لیے وزیر اعظم عمران خان کرونا ایس او پیز کو خاطر میں نہ لاتے تھے وہ بھی رل گئے ہیں اور سڑکوں پر موجود دہشت گردوں کے لیے ایندھن بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم جو اپوزیشن کی ذرا سی حرکت پر ٹویٹ پر ٹویٹ کر دیتے تھے آج وہ بھی لمبی تان کر سو رہے ہیں۔

اسی مذہبی تنظیم نے ماضی میں بھی صرف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور موجودہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بڑھ چڑھ کر اس تنظیم کی حمایت میں آ گئے تھے اور اس وقت کی نواز شریف حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے تھے۔ بلکہ مظاہرین کو مفت کھانا بھی پہنچاتے رہے اور اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے رہے۔

وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ یہ جمہوری دور ہے بادشاہت نہیں اور ایک دن وہ بھی حکومت میں آ کر ایسی ہی صورت حالات کا سامنا کر سکتے ہیں اس لیے الفاظ کی ادائیگی اور غلط موقف اختیار کرتے ہوئے پہلے سوچ لینا چاہیے۔ آج ان کو بھی بطور وزیر داخلہ ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے اور وہ عوام کو ریلیف دلوانے یا اس دہشت گرد گروہ کی سرکوبی سے قاصر ہیں۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس جیسے جتھے ہم خود ہی پیدا کرتے ہیں اور جب وہ قابو سے باہر ہو جائیں تو انہیں عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی کا اثر توڑنے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی گئی تو اس کے قائد الطاف حسین کی قیادت میں اس تنظیم نے دہشت گردی کی انتہا کر دی۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ یہ پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئی اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی اس تخلیق نے ریاست، عوام اور پارلیمنٹ کو بھی یرغمال بنا لیا۔ گو کہ ہمیں اردو بولنے والوں اور ان کی محرومیوں کا احساس ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کا تخلیق کردہ یہ جن جب قابو سے باہر ہو گیا تو اسے قابو کرنے کے لئے ہاتھ سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑیں۔

ضیاالحق دور میں سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کے لیے ایم کیو ایم کے علاوہ مذہبی گروہوں کی بھی پشت پناہی کی گئی جس میں سپاہ صحابہ، اہل سنت و الجماعت، لشکر جھنگوی، جماعت الدعوٰۃ سمیت اور نجانے کتنوں کو کھڑا کیا گیا۔ پھر علاقے اور زبان کی بنیاد پر بھی تنظیمیں بنائی گئیں تا کہ قومی سیاسی جماعتوں کا اثر کم کیا جا سکے۔ جس تنظیم نے آج پورے ملک کو یرغمال بنایا ہے اس کی تخلیق بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کی اور اس کی نقاب کشائی بھی نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں جمہوری حکومت کو یرغمال بنانے کے لیے کی گئی۔ حتیٰ کہ دھرنا ختم کرنے کے لیے انہیں زاد راہ کے طور پر باوردی ریاست نے ہزار ہزار روپیہ بھی دیا۔ لیکن پھر اس جن کو طاقت کے نشے کی لت لگ گئی بے قابو ہو کر ریاست کے گلے پڑ گیا اور آج ریاست اس گروہ کے سامنے بے بس ہے۔ حتیٰ کہ ریاست کا ایک کانوائے بھی اس مذہبی جنونی گروہ کے ہتھے چڑھ گیا اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر ہی انہیں وہاں سے جانے کا راستہ ملا۔ ریاست کو سوچنا چاہیے کہ پہلے اس کی اتنی تکریم تھی کہ یونیفارم دیکھ کر بند رستے کھل جاتے تھے لیکن انکی اپنی تخلیق انہیں تسلیم نہیں کر رہی۔

اگر ریاست الطاف حسین کی دہشت گردی کا سر کچل سکتی ہے تو اس نئے فتنے کو کنٹرول کرنا بھی ممکن ہے بشرطیکہ ریاست کی نیت ہو۔ اس پر ظلم یہ کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو بھی اس نفرت میں گھسیٹ رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے ڈنڈے اٹھائے پولیس اہلکاروں اور عوام کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہ دہشت گرد ان بچوں کو پولیس سے بچنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی اگلی نسل کو بھی اس نفرت کی طرف دھکیل دیا اور کل جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو ان کا مائنڈ سیٹ کیا ہو گا اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لاہور جیسے شہر میں پولیس والے سرعام تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب چپ سادھے ہیں جس سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ میں نے جب پولیس کے اعلیٰ افسران سے ان کی اس خاموشی پر سوال کیا تو کہنے لگے کہ ہمیں انتظامیہ کی طرف ایکشن کی ہدایت نہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی پولیس والے ابھی تک ان دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ہمیں ان کی سلامتی کی بھی تشویش ہے لیکن ہم بے بس ہیں۔

سب سے اہم عالمی ادارے پاکستان میں تین دنوں سے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ریاست کو دیکھ کر کیا سوچ رہے ہیں۔ ہم ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف پہلے ہی ہم پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے کیا وہ ہمیں بخشیں گے۔

ترسیلات زر، کرنسی استحکام اور حج عمرہ بجٹ
شکریہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کہ آپ نے یہ احسن قدم اٹھایا۔