نوکِ نیزہ سے لکھیںگے لفظ پاکستان کا

95

تاریخی اعتبارسے خطہ کشمیر کے عوام مشکلات ہی کاشکاررہے ہیں۔اس لیے کہ شاید یہ پہلاخطہ ہے جس کے عوام کوفروخت کیاگیا۔اس طرح خطہ فروخت کیاگیاجیسے یہ کسی کی خالصتاً ذاتی ملکیت ہو۔عوام کی رائے کااحترام کرنے کارواج ہی یہاںظاہرنہیں کیاگیا۔بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے سے پہلے بھی کشمیری عوام مشکلات کا شکار تھے۔ لیکن برصغیرمیں آزادی کے طلوع ہوتے سورج نے اہلِ کشمیرکوبھی یہ امید بندھائی تھی کہ اب انہیںبھی ان کاخالص حق ملے گا۔انہیں اپنے حقوق کی منزل نظریہ پاکستان ہی میں پنہاں نظرآئی مگر ایک مرتبہ پھر ان کی اْزادی کوطاقت کے ذریعے سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔وادی کشمیر جنتِ نظیر معاہدہ امرتسرکے نتیجے میںلارڈلارنس نے گلاب سنگھ کو75لاکھ میںفروخت کی تھی۔یہ عجیب بات ہی توہے کہ ایک خطے کونہ صرف اس کی عوام کی مرضی کے بغیر ایک راجہ کے حوالے کردیاگیابلکہ اسے مکمل طورپہ اس کی ملکیت بنادیاگیا۔جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تواس وقت گلاب سنگھ کاجانشین اس پر قابض تھا۔اگرتقسیم کامعیار آبادی کے تناسب کے لحاظ ہی سے کیاگیاتھاتوپھر 1927ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیرمیںمسلمانوں کی آبادی تقریباََ 77فیصد تھی۔یہاںاکثریتی آبادی کے قانون کونہ صرف نظراندازکیاگیابلکہ مہذب دنیاکے سارے قوانین کومفادات کے قدموںتلے رونداگیا۔کسی بھی قوم کے ایک قوم نظرآنے کے کچھ قوانین اور دستور ہوتے ہیں۔سب سے پہلی چیز ان کے مذہب کا مشترک ہوناہے،دوسری وجہ ان کی تاریخی روایات ایک سی ہوں،تیسری چیز ان کی رسومات اوررواج میں مماثلت پائی جاتی ہو،چوتھی وجہ ان کی معاشرتی اقدارمیں اشتراک پایاجاتا ہو،پانچویںوجہ ان کی تہذیبی وتمدنی کیفیات ملتی جلتی ہوں،چھٹی وجہ ان میں فطری محبت پائی جاتی ہو،ساتویں وجہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتوںمیںکسی الجھن کے بغیر منسلک ہوسکتے ہوں،آٹھویں وجہ ان کی جغرافیائی صورتِ حال انہیں آپس میں جوڑتی ہو۔ پاکستان اورکشمیرکاخطہ ایک ہی محسوس ہوتاہے اس لیے کہ ہماری مذہبی، تہذیبی، تمدنی، روایتی، تاریخی، فطری اورجغرافیائی صورت حال ایسی ہے کہ ہم الگ ہوہی نہیں سکتے۔کشمیر ہرلحاط سے ہمارا ہی تھا، ہے اوررہے گا۔بھارت ایک طویل عرصے سے اس پہ باقاعدہ غاصبانہ قبضے کی کوشش میں گاہواہے لیکن وہ اپنی ساری طاقت کااستعما ل کرکے بھی اپنے مذموم ارداوں میںکامیاب نہیں ہوسکا۔گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوںکی حکمرانی کشمیری عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ان باہرسے آنے والے راجائوںکے ادوارمیں77فیصد مسلم آبادی مشکل زندگی گزار رہی تھی، معاشی حالات سے لے کر معاشرتی کیفیات تک ان کی الجھی ہوئیں تھیں۔ ان سے ہر لحاظ سے نارواسلوک کیا جاتا تھا۔ہری سنگھ کے ظالمانہ سلوک کے خلاف 1930ء میں مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا۔ انسانی شعورکوکبھی بھی طاقت کے ساتھ دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی انسانوںکوہمیشہ کے لیے ان کے فطری حق سے محروم کیاجاسکتاہے۔یہی احتجاج ڈوگرہ راج کے خلاف بھی جاری رہا۔پاکستان کشمیر کی جغرافیائی صورت حال بھی دونوںکوایک کرنے یادونوں کے ایک ہی ہونے کااعلان کررہی ہے۔پاکستان اور کشمیر کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 902میل پہ پھیلی ہوئی تھی جب کہ بھارت کے ساتھ یہ تعلق صرف 317میل پہ مشتمل تھا۔اس کے علاوہ دواہم دریاجوپاکستان کوپانی مہیاکرنے کاذریعہ ہیںوہ بھی کشمیر ہی سے آتے ہیںیااس طرح کہہ لیجیے کہ ان کاسرچشمہ وادی کشمیر ہی ہے۔ایک سب سے بڑاذریعہ جو کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ بناتاہے،وہ ہے وہاںکی عوام،محبت ویگانگت کے جس پختہ اور مضبوط رشتے میںکشمیری عوام پاکستان کے لوگوںسے بندھے ہوئے ہیں انہیں ظلم کاکوئی طوفان بھی الگ نہیں کرسکتااورنہ ہی کسی غاصب میں یہ طاقت موجود ہے کہ اس فطری محبت کو مٹا سکے۔ محبت واخوت کی پکی ڈورسے بندھا یہ رشتہ کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔ بھارت نے سرتوڑ کوشش کی ہے اور آج بھی ظلم کابازار گرم کیے ہوئے ہے لیکن نہ ہی اس وقت وہ کامیاب ہوئے تھے اورنہ ہی آج کامیاب ہوسکے ہیںاورنہ ہی مستقبل میں وہ اس رشتے کوختم کرسکیںگے اور نہ ہی آزادی کی شمع کوبجھاسکیںگے۔کشمیری عوام نے پاکستان سے محبت کااظہار یکجہتی کی صورت میں ہمیشہ کیاہے۔انہوںنے اپنی گھڑیان بھی پاکستانی وقت کے ساتھ ملارکھی ہیں،جب کوئی راہِ حق میں شہید ہوتاہے تواسے پاکستان کے ہلالی پرچم میں لپیٹ کردفن کرنابھی اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیریوںکی رگ رگ میں پاکستانیت دوڑتی ہے۔بھارت نے پاکستان کے خلاف سلامتی کونسل میں شکایت کی تھی،سلامتی کونسل نے سب کچھ سننے کے بعد اورتحقیق کے بعد کشمیری عوام کواستصوابِ رائے کا کہاتھا۔بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ78سال بعد بھی جمہوریت کاعلم بلند کرنے والا بھارت کشمیریوں کواستصوابِ رائے کاحق نہ دے سکا۔ایسا نہ کرنے کے لیے بھارت نے کئی بہانے تراشے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ظالمانہ کاروائیاںبھی جاری رکھیں۔مسئلہ کشمیر کمے حل کے لیے سلامتی کونسل کے سیکڑوںبے نتیجہ اجلاس ہوچکے ہیں۔ عالمی اداروں نے کبھی بھی اس طرح نوٹس نہیںلیاجس طرح نوٹس لیناچاہیے تھا۔اہلِ یورپ ویسے توایک جانور کے مرنے پہ اپنی ہمدردیاںاور حساسیت کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہزاروں کشمیریوںکے لہوسے ہولی کھیلنے والی سفاک بھارتی فوج کے خلاف کبھی حساس طبیعت نہیں جاگتی۔ بھارت نے 2020ء میںکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک مرتبہ پھر اپنی بربریت کا ثبوت دیامگر یہ رویہ اورناانصافی بھی کشمیریوںکی آزادی حاصل کرنے کی سوچ کوتبدیل کرنے میںناکام رہی ۔ایسا منافقانہ رویہ انسانیت کی فلاح کاسبب کیسے ہوسکتاہے؟آج بھی کشمیری اپنی بقاکی جنگ لڑنے میںمصروف ہیں،آج بھی بھارتی بربریت جاری ہے، آج بھی کشمیر کی فضائوں میں آزادی کے نغمے گونج رہے ہیں،آج بھی کشمیری سر پہ کفن باندھ کے عید اور شب برات مناتے ہیں،آج بھی انسانیت کودرندگی کچلنے میںمصروف ہے،آج بھی آزادی کے چراغ لہوسے جلانے کی رسم تہوار کی صورت منائی جارہی ہے،آج بھی پُر فضا کشمیر کی سرسبز وادی میںلہوبہانے کی رسم منانے کاسلسالہ جاری ہے،آج بھی جوانیاں یہ کہہ کر قربان کی جارہی ہیں کہ ہم جنت نظیر میں کفر کے راج کونہیں رہنے دیں گے،آج بھی غیرت وحریت کے حامل جوان اپنی جوانیاں برستی گولیوںکے سامنے پیش کررہے ہیں تاکہ آزادی کے کاروان کی رفتار تھم نہ جائے۔کشمیر جل رہا ہے،اسے بچانے کے لیے سب کواپناکرداراداکرناہوگا،انسانی حقوق کی پامالی کوروکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کی خوبصورت وادیوں کی فرحت بخش فضائوں میں ہوائوں کی لہروں کے ساتھ شہدا کی صدائیں سنائی دیتی ہیں :
اس جوانی کی قسم ، سینۂ کشمیر پہ ہم
نوکِ نیزہ سے لکھیںگے لفظ پاکستان کا

تبصرے بند ہیں.