خواتین کے لیے تاریکیاں اور بڑھ گئیں

49

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2024 میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پنجاب میں 168 اور سندھ میں 151 رپورٹ ہوئے۔اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کے واقعات خیبرپختونخوا میں 52 اور بلوچستان میں 19 رپورٹ ہوئے، اسلام آباد میں غیرت کے نام پر قتل کے دو کیسز رپورٹ ہوئے۔ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ برس 1969 ریپ کیس رپورٹ ہوئے، پاکستان میں گھریلو تشدد کے کیسز کی تعداد 299 رپورٹ ہوئی، پاکستان میں گزشتہ سال جلائے جانے کے واقعات 30 اور تیزاب گردی کے 43 کیسز سامنے آئے۔ذرائع کے مطابق سال 2024 میں جبری تبدیلی مذہب کے کیسز کی تعداد گیارہ ہے، جبکہ دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980 خواتین کو قتل کیا گیا۔ملک بھر میں جنسی زیادتی کے 7010 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 6624 کیسز پنجاب میں ہوئے جبکہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے اغوا کے کیسز سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں ریکارڈ ہوئے جہاں ایک ہزار 666 خواتین کو اغوا کیا گیا جب کہ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کے کیسز میں بھی سندھ پہلے نمبر پر رہا۔سندھ میں 258 خواتین کو غیرت پر قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جو ملک بھر میں اسی نوعیت کے قتل کا نصف تعداد کے برابر ہے۔(یو این او ڈی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق رپورٹ ہر 10 منٹ میں ایک عورت یا لڑکی کو مار دیا جاتا ہے۔

برصغیر ہمیشہ سے عورت کے معاملے میں قدامت پسند نظریات کا حامی رہا ہے ، آج بھی خواتین اپنے سے وابستہ مردوں کی خواہشات اور نظریات کا احترام کرتی ہیں، خوف، محبت یا تربیت، کچھ بھی آپ کہہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں مَردوں کے بجائے خواتین کو اہمیت دیتے ہوئے سات سورمیوں (شہزادیوں) کے قصّوں کو بذریعہ شاعری بیان کر کے گھٹن زدہ ، بوسیدہ نظریات کے حامل سماج کو عورت کے بارے میں ایک نئی سوچ و فکر دی تھی۔ اسی تناظر میں شاہ بھٹائی کو ’’سات سورمیوں کا شاعر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے تخلیق کردہ کر داروں ’’سسّی، ماروی، مومل، سوہنی، موکھی، سورٹھ اور نوری‘‘ نے انہیں امر کر دیا۔اس خطے کی عورت صدیوں سے غیر محسوس طور پر قربانی دیتی چلی آ رہی ہے اور ظلم سہتی چلی آ رہی ہے۔

خواتین کے حوالے سے لکھنے بیٹھیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کس موضوع پر لکھیں۔ عورت کے خلاف کوئی ایک ظلم تو نہیں ہے۔خواتین کے خلاف جرائم کی کئی شکلیں ہیں اور ان کی بھی آگے سے مزید شاخیں ہیں جیسے اگر ہم خواتین کے خلاف جسمانی جرائم کی بات کریں تو اس میں سب سے پہلے گھریلو تشدد آتا ہے جس میں ذرا ذرا سی بات پر مار پیٹ، تعلقات میں جسمانی، جذباتی، یا جنسی زیادتی۔ پھر ریپ اور جنسی حملہ۔ جب بات یہاں بھی نہیں رکتی تو پھر انتقام یا سزا کے طور پر خواتین پر تیزاب پھینکنا۔ ہمارے سماج میں مردوں کی غیرت صرف عورت کے کردار سے نتھی ہے ، اسی لیے باہر بھی کوئی بدنام زمانہ گھر کی عورت کے بارے میں کچھ کہہ دے تو بھی غیرت کے نام پر خواتین ہی بلی کا بکرا بنتی ہیں اور غلط باتیں کرنے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اس کے علاوہ آج بھی پاکستان کی کچھ کمیونٹیز میں ثقافتی عمل کے طور پر فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن کی جاتی ہے۔

جسمانی کے بعد خواتین کو جذباتی اور نفسیاتی جرائم کا بھی سامنا ہے ، بدتہذیبی اور بد اخلاق رویے جو عورت کی عزت نفس یا جذباتی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔خاص طور پر ورکنگ مقامات پر۔ راہ چلتے، یا آتے جاتے کوئی عورت پسند آ جائے تو اس عورت کا پیچھا کرنا، ہراساں کرنا یا دھمکی دینا۔ اس کے علاؤہ عورت کو ہراساں کرنے، دھمکانے یا ذلیل کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال سائبر ہراسمنٹ میں آتا ہے۔ گھر ، محلے اور ورکنگ مقامات پر عورت کو ڈی ویلیو کرنا۔ملک میں خواتین کے خلاف ہر جرم ہی عام ہے لیکن اقتصادی جرائم یا مالی بدسلوکی سب سے بڑا جرم ہے جس میں مرد عورت کے مالی وسائل کو کنٹرول کرنا یا اس کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔عورت کو اس کی مرضی کے خلاف جسم فروشی پر مجبور کرنا اور عورت کو جبری مشقت، شادی، یا استحصال کی دیگر اقسام پر مجبور کرنا۔ مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔خواتین کے خلاف سماجی اور ثقافتی جرائم کی بات کریں تو اسمیں عورت کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرنا۔جہیز کا مطالبہ کرنا یا دینا، جو اکثر گھریلو تشدد، ہراسگی یا زندگی کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاؤہ پاکستان میں بھی اولاد میں اولاد نرینہ کی خواہش میں بچیوں کو قتل کرنا یا چھوڑ دینا موجود ہے یا مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق یا جان لینے کی خبریں بھی میڈیا پر متواتر آتی ہیں۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا ریگولیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھٹیا لوگوں کی رسائی سوشل میڈیا تک ہے۔ جن کا پسندیدہ کام خواتین کی والز پر غیر مناسب کمنٹ کرنا اور انبکس میں گھٹیا ، دھمکی آمیز یا بدسلوکی والے پیغامات بھیجنا۔بغیر رضامندی کے غیر اخلاقی تصاویر یا ویڈیوز کا شئیر کرنا۔زیادہ تر مکمل بدنیتی کے ساتھ غیر خواتین کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور اگر خواتین سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے کسی کاروبار سے وابستہ ہیں تو انہیں تنگ کرنا ، ان کے بزنس نمبرز پر رابطے کر کے فری ہونے کی کوشش کرنا۔ جس وجہ سے کئی خواتین کو میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ خواتین اگر اپنی تصاویر شئیر کر دیں تو ان کے کردار کو جج کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔آپا باجی میم سے شروع ہونے والی گفتگو محترمہ ، جناب من اور پیاری پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ خواتین کے خلاف کئی طرح کے جرائم میں سے کچھ ہیں، جن کے خاتمے کے لیے ایک محفوظ اور بہتر معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ قوانین کی پاسداری بھی شامل ہے۔

تبصرے بند ہیں.