نئی صبح طلوع ہونے کے قریب !

46

سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کا نظم ونسق کیسے چل رہا ہے کیونکہ سویلین ادارے (سارے نہیں ) اپنے فرائض ادا کرنے میں پر جوش نظر نہیں آتے ان میں جوش اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انہیں اپنی جیب بھاری ہونے کا یقین ہو لہذا عوام کی خوب درگت بن رہی ہے۔
آپ نے کوئی بھی کام کروانا ہو جب تک رشوت نہیں دیں گے وہ کام نہیں ہو گا۔ سویلین محکموں میں بیٹھے ملازمین چٹے دن اپنی مرضی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاید ان کی اوپر تک رسائی ہوتی ہے کیونکہ ان کے خلاف شکایت بھی کی جائے تو وہ کھوہ کھاتے میں چلی جاتی ہے۔

ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکومتیں سیاسی معاملات کو تو بڑی گہری نظر سے دیکھتی ہیں اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ ہو تو اسے دور بھی کرلیتی ہیں مگر مجال ہے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے آئیں۔ اس وقت عوام کی بہتری سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں وہ بغیر کسی لالچ کے دوسرے لفظوں میں ’’ غیرسرکاری فیس‘‘ کے اپنے قلم کو جنبش نہیں دے رہے۔ آپ محکمہ پولیس کو دیکھ لیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا خزانہ بھرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ان سے جائز طریقے سے میٹر لگانا خاصا مشکل ہے مگر جب مٹھی گرم کر دی جائے تو مشکل آسان ہو جا تی ہے۔ اسی طرح پٹوار خانہ ہے اس میں بھی اندھیر مچا ہوا ہے دھڑلے سے ’’فیس‘‘ وصول کی جاتی ہے وگرنہ بندہ ساری عمر رْلتا ہے۔ مزکورہ محکموں کے علاوہ جو دیگر سویلین محکمے ہیں انہوں نے بھی لوگوں کا برا حال کر رکھا ہے۔ ویسے عوام بھی ان کے طرز عمل کے عادی ہو چکے ہیں وہ شور تو مچاتے ہیں مگر قانون کا سہارا نہیں لیتے ہو گا کہ انہیں ضروری سہولتیں دینا ہوں گی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ غریب لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے ان میں سے تو ایسے بھی ہیں کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر محنت مشقت کرنا پڑتی ہے جو اگر انہیں میسر ہو‘ ضروری نہیں کیونکہ صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں جس سے ذرائع پیداوار کم پڑ گئے ہیں اور غربت کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں مستقبل قریب میں بھی صنعت کاری کا کوئی امکان نہیں لہذا آنے والے دنوں میں جو ہونے والاہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہا ہے کیونکہ اسے موجودہ نظام سے شکوہ ہے ۔
بات ہو رہی تھی سرکاری محکموں کی کہ وہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے تکالیف پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنی خواہشات پوری کر رہے ہیں ان کے نزدیک جب اقتداری لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو اور بار بار دھو رہے ہیں تو پھر وہ کیوں پیچھے رہیں‘ انہیں بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔کبھی کبھی حکومت ان کے گرد گھیرا بھی تنگ کرتی ہے تاکہ اْس کی اِس ’’ادا‘‘کو پزیرائی مل سکے۔ بس یہی چکر ہے جو ستتر برس سے جاری ہے اور خوشحالی آنے میں نہیں آرہی۔

حکمران لوگوں کے مسائل ختم نہیں کر سکے۔اب تو چاروں طرف سے ان پر (عوام) الم ومصائب کا سایہ گہرا ہو چکا ہے کیونکہ انہیں جہاں مسائل کا سامنا ہے وہاں وہ ایک جانے انجانے خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ انہیں شکوہ و شکایت کی اجازت بھی نہیں حیرانی یہ ہے کہ حکومت با آواز بلند سب اچھا کی گردان الاپے جا رہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ اگر وہ نہ ہوئی تو ملک کنگال ہو جائے گا ترقی رک جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اگر عمران خان آگیا تو ان کی یہ حالت بھی ایسی نہیں رہے گی لہذا اس کا ساتھ دیا جائے مگر عوام ہیں کہ اس کی کسی بات کسی دلیل اور کسی منطق کا اثر نہیں لے رہے۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے دن خان کے آنے ہی سے پھریں گے انہیں حقیقی آزادی کا احساس تب ہی ہو گا معیشت ان کے اقتدار میں آنے ہی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی۔

لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’پرندہ‘‘ کھلی فضا میں سانس لے سکے گا ( اگرچہ اسے سزا ہو چکی ہے مگر یہاں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتے ہیں) کیونکہ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ غالب اکثریت والی سیاسی جماعت ہی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام دے سکتی ہے مشکل فیصلے بھی وہی کر سکتی ہے۔

بہر کیف ڈونلڈ ٹرمپ خان کو اپنا ’’بیلی‘‘ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ اسے اقتدار میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ان کے سیاسی مخالفین انہیں پسند نہیں کرتے کہ وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ چمن یونہی رہے مگر انہیں علم ہونا چاہیے کہ غریب عوام کی بس ہو چکی ہے وہ موجودہ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں لہٰذا نئی صبح طلوع ہونے کے قریب ہے !

تبصرے بند ہیں.