اگر یہ کہا جائے کہ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سے چھٹی ہو جانے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا برا وقت ہی چل رہا ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ابتدا میں تو ان کا خیال تھا کہ استعفوں، دھونس، دھمکیوں اور وفاق پر یلغار جیسی کاروائیوں کے نتیجہ میں یہ اپنے ٹارگٹ حاصل کر لیںگے لیکن اس میں مکمل طور پر ناکامی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت بھاری فیسوں کے عوض انگیج کئے گئے بین الاقوامی لابسٹس اور ان کے اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ نے بھی اپنے جھوٹے سچے پراپیگنڈہ کا سلسلہ تو جاری رکھا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔اس کے بعد سول نافرمانی کی کال بھی حکومت اور ریاست کو پریشر میں نہ لا سکی۔
ان کے آخری دو حربوں میں پہلا یہ تاثر دینا تھا کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کے بانی چیئرمین کے ساتھ خصوصی لگائو رکھتے ہیں اور جلد ہی امریکہ سے آنے والے فون کے نتیجہ میں ان کے لیے جیل کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور بانی چیئرمین صاحب آزاد فضاوں میں اپنی کاروائیاں کرتے پھریں گے۔لیکن جوں جوں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے اس تاثر کے غبارے سے ہو ا بھی نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
یہاں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کی بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات طے پا گئے ہیں ۔ ابھی اس سلسلہ میں منائی جانے والی خوشیاں جاری ہی تھیں کہ عدالت کی جانب سے ایک سو نوے ملین پونڈ کی ہیرا پھیری کے کیس کا فیصلہ آ گیا اور بانی چیئرمین کے ساتھ ساتھ ان کی بیگم کو قید اور جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔
اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر قسم کے حیلے بہانے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے اور ان کی ناکامی کے بعد یقینا عمران خان خود کو اپنے سیاسی کیریئر کے ایک نازک موڑ پر پا رہے ہوں گے۔ اس عدالتی فیصلے نے، جو اہم قانونی اور سیاسی نتائج کا حامل ہے، عمران خان کے پاس تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے پر جانے کے لیے محدود راستے چھوڑ دیے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ ان الزامات کا نتیجہ ہے جو عمران خان کے دورِ اقتدار کے بارے میں طویل عرصے سے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ الزامات سیاسی طور پر محرک ہیں، لیکن مخالفوں کا کہنا ہے کہ یہ کرپشن کی بنیاد پر کی جانے والی حکمرانی کو اجاگر کرتے ہیں۔
جج ناصر جاوید رانا صاحب کی جانب سے دیے جانے والے فیصلہ کے نتیجہ میں نہ صرف عمران خان کو چودہ سال بامشقت قید کاٹنا ہو گی بلکہ وہ ایک مخصوص مدت کے لیے عوامی عہدہ رکھنے سے سے بھی قاصر ر ہے گا۔ امکان ہے کہ مسٹر عمران خان کی قانونی ٹیم جلد ہی ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرے گی، جس میں یا تو فیصلے کو واپس لینے یا معطل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم، خاص طور پر پاکستان کے عدالتی عمل کی پیچیدہ اور مبہم نوعیت کے پیش نظر، ایسے اقدام کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
بلاشبہ عدالت کے فیصلے نے حکومت اور عمران خان کے دیگر سیاسی حریفوں کو کافی حوصلہ دیا ہے، جن سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان کی کمزور ہوتی ہوئی صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ دریں اثنا، ان کی پارٹی کو اندرونی ہم آہنگی برقرار رکھنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے دوہرے چیلنج کا بھی سامنا رہے گا۔
پی ٹی آئی اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں اس کے کئی رہنما اپنے سیاسی مستقبل کی فکر میں یا کسی نہ کسی وجہ سے خود کو عمران خان سے دور کر چکے ہیں یا ایسا کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ویسے تو اس قسم کے حالات میں شائد کسی’ غیبی ‘ مدد کے بغیر خود عمران خان کے لیے بھی پی ٹی آئی کو مستحکم اور یکجا رکھنا خاصہ مشکل ہوتا لیکن پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے تو یہ کام بالکل ہی ناممکن نظر آتا ہے۔اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کے آئندہ عام انتخابات تک پی ٹی آئی دیمک زدہ بیساکھیوں پر کھڑی نظر آ رہی ہو گی۔
اب تک تو عمران خان اسی قسم کا تاثر دیتے رہے ہیں کہ ان کی سیاست ملک میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ اور ماورائے عدالت ہونے والی کارروائیوں سے متاثر ہے۔ ابتدائی طور پر تو ان کا یہ بیانیہ عوام بالخصوص نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کے ساتھ گونجتا رہتا ہے، جو انہیں سیاسی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتے تھے۔ تاہم، کرپشن کے الزامات ثابت ہو جانے اور مرکزی دھارے کی سیاست تک رسائی یا الیکشن لڑنے کی اہلیت کے بغیر اس رفتار کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو عمران خان کی جانب سے سعودی عرب، خلیجی ممالک اور چین جیسے ممالک کے ساتھ برے تعلقات کی وجہ سے بھی موجودہ منظر نامے میں، اس کے بین الاقوامی حمایت سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور اس وجہ سے وہ عالمی سطح پر تیزی سے الگ تھلگ بھی ہوتا جا رہا ہے، تو دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے تیزی سے جاری عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے سلسلہ نے بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں پریشانی پیدا کی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دی جانے والی سول نافرمانی کی کال کی بدترین ناکامی اور اس کے بانی چیئرمین اور اس کی اہلیہ کو عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کے بعد پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نے اس تاثر کو بھی زائل کرنے میں خاطر خواہ کردار ادا کیا ہے ہے کہ اگر ہلڑ بازی، تخریب کاری اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے کے جرم میں بانی چیئرمین، دیگر راہنماوں اور کارکنوں کے خلاف عدالتی فیصلے آئیں گے تو ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات نمودار ہوں گے۔ غرض اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سیاست، اقتصادیات، حکومت، انتظامیہ یا اسٹیبلشمنٹ کسی کو بھی متاثر کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ اگر اب بھی اس کی قیادت نے نوشتہ دیوار نہ پڑھا اور اپنی منفی سیاست کی روش ترک نہ کہ تو شائد پھر وہ دن دور نہیں جب پی ٹی آئی کا حال ایم کیو ایم جیسا اور عمران خان کا حال الطاف بھائی جیسا ہو جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.