ایک طرف حکومت پنجاب نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ میں گندم کی کاشت کا ٹارگٹ مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹریز کے صدر چوہدری شفیق انجم نے میڈیا نمائندوں کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے فلور ملز بحران سے دوچار ہیں گندم کی زیر کاشت رقبے میں کمی کے باعث پیداوار کم رہنے کا امکان ہے حکومت فلور ملز اور کسانوں کے نقصان کا ازالہ کرے یہی مؤقف چیئرمین پاکستان کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو متنبہ کرتے ہوئے اپنایا کہ اگر پنجاب حکومت نے گندم چار ہزار روپے فی من نہ خریدی تو آئندہ گندم کی فصل نہیں ہو گی انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پاسکو کو ختم کرنے جا رہی ہے موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس سال گندم کی پیداوار کم ہوگی اور حکومت کو گندم امپورٹ کرنا پڑے گی۔
ملک میں اس سال کپاس کی پیداوار میں کم ہو جانے سے ملکی ضروریات پوری نہیں ہو رہی جننگ فیکٹریوں میں پچھلے سیزن کی نسبت اس سال 33 فیصد کاٹن پھٹی کی گانٹھیں کم آئی ہیں پاکستان کو 1کروڑ 15لاکھ گانٹھوں کی سالانہ ضرورت ہے جبکہ 55 لاکھ گانٹھیں آئی ہیں لہٰذا بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے کپاس کی درآمد کرنا پڑیں گی ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستانی برآمدات میں 60 فیصد کا حصہ دار ہونے کی بدولت پاکستان کی معیشت کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے لیکن دوسری طرف یہ شعبہ سیاسی اور معاشی بحران کے باعث گو نا گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ حکومت پنجاب کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ پچھلے سال کپاس کی کاشت کے حوالے سے محکمہ زراعت نے پورا زور لگا دیا تھا اور حکومت نے کپاس کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے دعوے کیے تھے لیکن کسانوں کو سستے زرعی مداخل کا بندوست کیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی سہولت فراہم کی گئی جس سے وہ دلبرداشتہ ہوئے اور رہی سہی کسر حکومت پنجاب نے گندم کی فصل کی صحیح قیمت کسانوں کو ادا نہ کی یہ کسانوں کے ساتھ ظلم پہ ظلم کرنے کے مترادف تھا اسی طرح اس سیزن میں گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے گنے کی قیمت مقرر نہ ہونے سے شوگر ملز کسانوں سے اپنی من مانی قیمت پر گنا خرید رہی ہیں اور حکومت پنجاب کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے شوگر مافیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ایسے میں حکومت یہ کہے کہ زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی چاہتی ہے تو یہ سراسر غلط بات ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کاشتکاروں کو ان کے جائز حق دلانے کیلئے میدان عمل میں ہر فورم پر آواز اٹھا رہے ہیں اور اسی طرح بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے کے خلاف انہوں نے 17 جنوری کو ملک بھر میں احتجاج کرنے کی کال دے دی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کو جماعت اسلامی کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے معاہدہ راولپنڈی سے بھاگنے نہیں دیں گے۔ ان کے اس مؤقف میں بڑا وزن ہے کہ جن آئی پی پیز نے حکومت کے ساتھ معاہدے ختم کر دئیے جس سے حکومتی خزانے کو سیکڑوں ارب کی بچت ہوئی اس فائدے کے اصل حقدار تو بجلی استعمال کرنے والے صارفین ہیں ان کو یہ فائدہ منتقل ہو تاکہ بجلی کے بل کم ہوں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی لہٰذا یہ نہیں ہو گا کہ جماعت اسلامی اس پر خاموشی اختیار کر لے، ہم پُرامن عوامی احتجاج کی قوت کا آپشن استعمال کریں گے اور عوام کے غضب کیے گئے حقوق ان کو دلانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ نے مزید 15 آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں کی منظوری دی ہے جس سے 1.4 کھرب کی بچت اور بجلی 11 روپے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان ہے۔ ایک وقت تھا کہ عوام کی غالب اکثریت کو آئی پی پیز کے لفظی معنی تک معلوم نہ تھے۔ کپیسٹی چارجز کے نام پر کھلے ڈاکہ کا پتہ نہیں تھا۔ یہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا کمال ہے کہ انہوں نے پاکستان کے عوام میں شعور بیدار کیا اور ملک، عوام، صنعت، تاجر، معیشت دشمن آئی پی پیز معاہدوں اور ان کے کرداروں کو عوام الناس کے سامنے بے نقاب کیا۔ آج اس کا ثمر قوم اپنے سامنے دیکھ رہی ہے اور قوم کو امید کی کرن نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی ہو گی اور انہیں سکھ کا سانس آئے گا۔
تبصرے بند ہیں.