ہائے یہ خوشامدی چیلے نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے…

77

کسی آفس، تقریب، خوشی مرگ کے مواقع، چھوٹے گروپس سے بڑے اداروں تک، سرکاری دفاتر سے ہر ماحول میں آپ نے ان لوگوں کو ضرور اپنے اردگرد پایا ہوگا جو خود کسی کام کے تو نہیں ہوتے مگر وہ کھانے پینے سے لے کر اپنی دیہاڑی لانے اور مفادات کی خاطر آپ کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں وہ اس قدر آپ کے بارے بول بولتے ہیں کہ آپ زمین نہیں آسمان پر ہیں۔ آپ کے اس قدر گن گاتے ہیں کہ بعض اوقات شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ آپ کے یہ دوست لوگ کون ہیں؟ کبھی آپ نے ان کو پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے ماحول میں یوں تو بڑے بڑے ایکٹر کریکٹر صبح سے رات گئے تک کہیں ایک دوسرے کی مخالفتیں کرتے تو کہیں اپنے مفادات کے لئے آپ کی خاطر خوشامدی باتیں کرتے ہوئے آپ کو بڑا مکھن لگاتے ہیں۔ یوں تو اب مارکیٹ میں اتنے برینڈ کے مکھن آ گئے ہیں کہ نہیں پتہ کہ کس مکھن کی تاثیر کتنی اچھی ہے اگر اب مکھن کا ذکر چلا ہے تو وہ کون کس کو نہیں لگاتا آپ نامور ہیں، آپ کا شمار بڑے لوگوں میں ہوتا ہے یا بڑے لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں یا دوسروں کی نظر میں بڑے پن کے طور پر جب آپ کو لے لیا جاتا ہے تو پھر مان جایئے کہ آپ کے اردگرد دوستی کی آڑ میں خوشامدی اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپ کا دماغ خراب نہ ہونے کے باوجود خراب کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ کریں نہ کریں وہ آپ کو ایسا مکھن لگائیں گے کہ انسان سوچتا ہے کہ یہ تو میری اوقات ہی نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ خوشامدی لوگ کون ہوتے ہیں یا کبھی ہم ان کو ’’چمچے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کون اور کہاں سے آ جاتے ہیں۔ خاص کر سرکاری افسران بالا کے اردگرد گھومنے والی کلاس کے اندر ان کی بڑی کلاسز ہوتی ہیں اور جب تک آپ سے ان کے مفاد پورے نہیں ہو جاتے وہ آپ کی نسلوں کے اندر بھی اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کی خوشامدیوں کی قسموں کو دیکھیں تو ان میں ایک ہوتے ہیں ’’ویلے‘‘ جن کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا اور اپنے کام نکلوانے کے لئے مکھن کی فیکٹری ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ خوشامدی جو دفتر کے اندر عہدے کے مطابق اپنے افسران کی قربت حاصل کرنے کے لئے پورے آفس میں ان کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں۔ خاص کر چھوٹے سٹاف کی شکل میں تو بڑے خوشامدی نظر آئیں گے۔ وہ آفس کے کام کم تو افسران کے ذاتی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بڑے خوش نظر آتے ہیں اور بعض ان کے بچوں اور بیگمات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو افسران کے آنے اور جانے یعنی ہر وقت ان کے وقت پر گہری نظر ہوتی ہے اور جس دن صاحب دفتر نہیں آتے تو دوسرے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ صاحب لاہور سے باہر گئے ہیں اور مجھے پتہ ہے کیوں گئے ہیں۔


ایک مثل مشہور ہے کہ جہاں دو خوشامدی اکھٹے ہوتے ہیں تو وہاں شیطان رخصت پہ چلا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ان خوشامدی حضرات کو بڑا واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے بڑے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں اگر میں غلط نہ کہوں تو ہر سیاسی جماعت کے اندر ایک ریاست موجود ہے اور اس ریاست پر بڑے بڑے خوشامدی براجمان ہیں جو ظل سبحانی، عالی جناب ، عالی مرتبت، عالم پناہ، جہاں پناہ اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرنے کے لئے ہمہ تن آپ کی اجازات کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ان خوشامدی، مداری ، اور خاص کر نامور درباریوں نے تو اقتدار کے ایوانوں تک کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حاکموں کو سب اچھا ہے کہہ کر تمام حالات سے بے خبر اور بے خوف کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی، شاہانہ طعام و جام اور شاہانا جاہ و جال پرانے بادشاہوں اور شہزادوں سے کہیں بھی کم تر نہیں ہوتے۔ اب ان خوشامدیوں کا ذکر کرتے چلیں جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو بڑے نامور خوشامد تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بھی اپنی شاہانہ خوشامدی گفتگو کے ساتھ رات کو لگنے والی عدالتوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور جس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ وہ اپنے لیڈر کی شان میں ایسی ایسی گفتگو فرماتے ہیں کہ خدا کی پناہ اللہ تیری شان اور ایسے قصیدے اور دفاع کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی شاید پانی پانی ہو جاتا ہوگا مگر مجال ہے کہ ان کے چہرے پر ایک لمحہ بھی شرمندگی آئے اور تو اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جہاں تاریخ کو ادھیڑتے نظر آتے ہیں وہاں جھوٹ اس قدر بولتے ہیں کہ بعض اوقات وہ سچ نظر آنے لگتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی ہو یا سیاسی قد کاٹھ والے بونے خوشامدی در اصل ملک و ملت کو ہی نہیں بلکہ ہماری تھوڑی بہت بچی کھچی جمہوریت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی کے ٹکڑوں پہ پلنے والے جب اپنی بھوک مٹانے کے لئے جیسے ہی ان کی حکمرانی جاتے دیکھتے ہیں تو مٹھائیاں تقسیم کرتے اور بھنگڑے ڈالتے فوٹو شوٹ کرانے کے لئے ادھار مٹھائیاں بھی خریدتے ہیں پھر ان کی جگہ آنے والے حکمرانی میں حصہ بقدر اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اور آنے والے کے ساتھ بھی اپنے سابقہ کردار ادا کرنے کے لئے عوام میں ان کی مقبولیت کھونے کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔
سن تو سہی جہاں میں تیرا افسانہ ہے کیا
کہہ رہی ہے مخلوق خدا تجھے غائبانہ کیا

تبصرے بند ہیں.