پنجاب کے محکمے،عمومی جائزہ

112

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں آبادی کا بڑھتا ہوا رجحان خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے، چالیس سے زائدانتظامی محکموں والے صوبہ کی انتظامی حالت کا جائزہ لیا جائے تو جواب غیر تسلی بخش ملتا ہے،محکموں کی اپنی حالت کا تنقیدی جائزہ لیں تو ان کی حالت بھی پتلی دکھائی دیتی ہے،قواعد و ضوابط سے قطع نظر غیر متعلقہ حکام کے اشارہ ابرو پر فیصلے ہوتے ہیں،صوبائی سیکرٹری جو اصل میں مجاز اتھارٹی ہے اکثر بے بس ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے صوبائی محکموں کی کارکردگی مثالی نہیں،صوبے اور عوام کے مفاد میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو پس پشت ڈال کر وزرائ،حکومتی جماعت کے رہنمائوں،حکومتی ارکان اسمبلی کے ذاتی مفاد کے منصوبوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔

پنجاب حکومت محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے میں دلچسپی رکھنے کی بجائے صرف وزیر اعلیٰ کو خوش کرنے اور ان کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مصروف عمل ہے ، نتیجے میں معاملات مزید بگڑ رہے ہیں،البتہ کلیدی محکموں کے سیکرٹریوں کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی وہ ذاتی طور پر مختلف منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں،جن کا براہ راست فائدہ صوبہ کے عوام کو ہو رہا ہے اگر چہ دائرہ کار محدود ہے ،کسان کارڈکا اجراء کیا گیا ،جس کی تشہیر زیادہ اور فائدہ کم نظر آ رہا ہے ، کسان کو کھاد،بیج،زرعی ادویہ اور آلات خریدنے کیلئے آڑھتی کو اونے پونے فصل اب بھی بیچنا پڑتی ہے ،طلبا،طالبات کو سکالر شپ،لیپ ٹاپ،ای موٹر بائیک دی جا رہی ہیں ،پنجاب کو آئی ٹی انجن بنانے کیلئے چینی کمپنیوں سے معاہدے کئے جا رہے ہیں،غریب شہریوں کو علاج کی مفت سہولت پر کام شروع ہو چکا،سکول آنے والے بچوں کو دودھ اور کھانا دینے کا پروگرام بھی دیا گیا ،تاہم ان تمام اقدامات کے اعلان کے بعد عمل درآمد کم ہی نظر آ رہا ہے۔

انتظامی معاملات کو درست کئے بغیر،محکموں کے آئینی نہیں انتظامی سربراہوں یعنی صوبائی سیکرٹری حضرات کو اختیار، اعتماد اور وسائل مہیا کئے بغیر کسی محکمے کی کارکردگی درست نہیں کی جا سکتی ،جب تک آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری نہیںہو گی تب تک کسی بھی محکمہ کی اصلاح ممکن نہیں،قانون اور محکمانہ قواعد و ضوابط ہی اصل نگران ہیں،ان پر عمل سے ہی کرپشن،بے ضابطگی اور بے قاعدگی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جن ریاستی ملازمین کی ذمہ داری ہے انہی کے کندھوں پر بوجھ ڈال کر مناسب وقت دیکر معاملات کو سدھارنا ممکن ہے۔

دوسری طرف صوبہ کے انتظامی اداروں کا کیا رونا روئیں یہاں تو آئینی ادارے بھی کسمپرسی کا شکار ہیں،ہمارے حکمرانوں کا وتیرہ رہا ہے کہ آئین ،قانون،ریاستی ادارے،آئینی عہدیدار جو مفادات کی راہ میں حائل ہوا اس کے پرخچے اڑا دئیے جاتے ہیں،ایسے میں انتظامی محکموں کی کیا اہمیت اور حیثیت رہ جاتی ہے؟حکومت کی توجہ اداروں پر اس قدر ہے کہ آصف زرداری کے سابق صدارتی دور میں 17محکمے صوبوں کے حوالے کئے گئے مگر آج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان اداروں کے وفاق میں بھی ملازم بیٹھے ہیں اور اربوں روپے سالانہ تنخواہ کی مد میں وصول کر رہے ہیں۔

ہماری معیشت شعبہ زراعت پر انحصار کرتی ہے،70فیصد سے زائد آبادی کا روز گار زراعت سے وابستہ ہے ،مگر ہم آلو ،ٹماٹر،پیاز،لہسن ،ادرک،چینی ،گندم ،دالیں تک درآمد کر رہے ہیں،کپاس ہمارے ملک کی پہچان تھی مگر آج ہم کپاس بھی درآمد کر رہے ہیں اور ٹیکسائل انڈسٹری تیزی سے بنگلہ دیش منتقل ہو گئی،کاشتکار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ تو جاری ہو چکا مگر کسان آج بھی مڈل مین اور آڑھتی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے،برآمدات میں ہم پسماندہ ترین ملکوں کی صف میں آتے ہیں،ہماری صنعت بھی زبوں حال ہے اور محکمہ صنعت بے بس، سرمایہ کار کو نئی صنعت لگانے کیلئے درجنوں محکموں سے این آر او لینا پڑتا ہے اس کے لئے ون ونڈو ادارہ ضرور قائم کر دیا گیا ہے مگر اس کے لئے بھی فائلوں کا پیٹ تو بھرنا پڑتا ہے ،بعینہ ہر محکمہ کی یہی صورتحال ہے،مگر حکومت پہلے سے موجود اداروں میں اصلاحات لا کر ان کو کار آمد بنانے کی بجائے نئے محکمے،نگران ادارے اور اتھارٹیز بنانے میں مصروف ہے،دعوی سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر سرکاری اداروں کو درست کرنے کا اقدام کیا جائے تو مہینوں میں تمام ادارے متحرک ،فعال اور کار آمد بنائے جا سکتے ہیں،اس کیلئے ماہرین کی تقرری کرنے کی بجائے دستیاب بیوروکریسی کو اعتماد میں لے کر اختیار اور ٹارگٹ دیا جائے تو بہترین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

پنجاب کے حکومتی ادارے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی، ساخت اور گورننس کے حوالے سے اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ آج ہم چند اداروں کی کارکردگی، مسائل اور اصلاحات کے ممکنہ پہلوؤں کا مختصر تجزیہ کریں گے،یہ ادارے بنیادی طور پر عوامی خدمات فراہم کرنے، امن و امان قائم رکھنے، اور ترقیاتی منصوبے نافذ کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں تعلیم، صحت، پولیس، بلدیاتی حکومت، زراعت، اور دیگر محکمے شامل ہیں۔ تاہم، ان اداروں کو بدانتظامی، کرپشن، اور گورننس کی کمزوریوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پنجاب میں تعلیم کا شعبہ حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے۔ حکومت نے تعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے مختلف منصوبے متعارف کروائے ہیں، جیسے کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور دانش سکول لیکن ابھی تک بہت مسائل باقی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی دباؤ آڑے آتا ہے،اساتذہ کی بھرتیوں میں شفافیت اورسکولوں میں پانی، بجلی، اور بیت الخلا جیسی سہولیات کی کمی ہے، نصاب کی غیرمعیاری تشکیل اور اپ ڈیٹ کا فقدان ہے ۔تعلیم کے لئے بجٹ میں اضافے اور جدید تکنیکس استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

پنجاب میں صحت کے محکمے کی کارکردگی بھی سب سے زیادہ متنازع ہے، سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور عملے کی بدانتظامی جاری ہے ، دیہی تو درکنار شہری علاقوں میں بھی ڈاکٹروں اور عملے کے غیرپیشہ ورانہ رویہ کی شکایات ہیں،اس سلسلے میںاصلاحات کی سخت ضرورت ہے ،پنجاب پولیس پر عوام کے تحفظ کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ادارہ اکثر بدعنوانی، طاقت کے غلط استعمال، اور عوامی اعتماد کی کمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے،رشوت خوری اور بدعنوانی کی شکایات بہت زیادہ ، جدید تربیت اور وسائل کی کمی ہے ۔بلدیاتی حکومتیں عوامی مسائل کے حل کے لیے بنائی جاتی ہیں، لیکن پنجاب میں بلدیاتی نظام اکثر غیر مؤثر رہتا ہے،اسے لاگو کرنے اور اس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے ،بلدیاتی حکومت کو مزید اختیارات ،مالیاتی خودمختاری اور عوامی مشاورت کا نظام متعارف کروانا ہو گا۔زراعت کے حوالے سے جدید زراعتی ٹیکنالوجی کی کمی ہے ، کسانوں کے لیے قرضوں کی سہولتیں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔پانی کی قلت اور ناقص نظام آبپاشی کو بہتر بنانا ہو گا ،اسی طرح جدید زرعی تحقیق اور کسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سبسڈی کی ضرورت ہے۔
پنجاب کے حکومتی ادارے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان میں بدانتظامی، کرپشن، اور گورننس کی کمزوریاں نمایاں ہیں، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع اصلاحات، شفافیت، اور احتساب کے نظام کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.