اوورسیز پاکستانی مشکلات کا شکار

72

پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کے والدین بیوی بچے اور دیگر عزیز و اقارب ایک کرب میں مبتلا ہیں کہ حکومت پاکستان امریکہ کینیڈا فرانس جاپان اور دیگر ممالک سے اپنے اپنے پیاروں کو جو رقوم بھیجتے تھے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپین ممالک میں داخل ہونے والے سینکڑوں پاکستانی آئے روز لانچوں میں سمندر کی لہروں کی نظر ہو رہے ہیں لیکن حکمران یہ نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ملک کی معیشت کے اشارے بہتر سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں سٹاک ایکسچینج ڈے ٹو ڈے فراٹے بھر رہی ہے اقوام عالم سے سرمایہ دار جھولیاں بھر بھر کر کے پاکستان لا رہے ہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کہ قائد عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو مشورہ دے رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں ڈالر صرف اور صرف ضروری مقاصد کے لیے اپنی بیگم بچوں والدین رشتہ داروں اور ملازمین کو بھیجی اور جو رقوم زمین خریدنے اور دیگر کاروبار کے لیے پاکستان بھیجتے تھے اسے روک کر رکھیں جس پر میری دانست میں کوئی خاطر خواہ عمل نہیں ہوا۔ حکمران کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں نے گزشتہ ادوار سے زیادہ رقوم بھیجی ہیں۔ یہ جنگ حکمرانوں اور تحریک انصاف کے لیے تو صرف ایک کھیل ہو لیکن اوورسیز پاکستانیوں کی فیملیوں بچوں بزرگوں اور دیگر تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے زندگی موت کا کھیل بنا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ خدارا حکمران اور تحریک انصاف اپنی لڑائی لڑیں لیکن ہمیں اس کا ایندھن نہ بنائیں۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر بھی حکومت پاکستان کی طرف سے طرح طرح کی پابندیاں ہیں اس کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن پاکستانی حکومت کسی بھی شخص کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے سوشل میڈیا کا سلو ہونا یا نہ چلنا پاکستانیوں کی کمائی میں کمی کا باعث بنتا ہے اور مشکلات اس لیے پیدا کی جا رہی ہے کہ حکمرانوں کے خیال میں اوورسیز پاکستانیوں کا زیادہ تر تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ حکومت تو ماں ہوتی ہیں اسے تو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے لیکن یہاں آدم نرالا ہے پاکستانیوں کو ایئرپورٹس پر آتے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان پہ الزام یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فلاں وقت میں نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی کی جبکہ اقوام عالم میں کسی بھی ملک میں احتجاج کرنے پر نہ تو پابندی ہے اور نہ ہی اس طرح کے قوانین لاگو ہیں تو میں حکمرانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ صدق دل سے ان سارے معاملات کا نوٹس لیں اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو ایک آنکھ سے دیکھیں تاکہ ہر پاکستانی یہ محسوس کرے کہ مجھے پاکستانی ہونے کے ناطے فخر حاصل ہے کہ میں پوری دنیا میں پاکستان کا علم بلند کر سکتا ہوں۔

تبصرے بند ہیں.