ایچ ایم پی وی وائرس: کیا یہ کورونا کی طرح دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے؟

147

بیجنگ:چین میں حالیہ دنوں میں ہیومن میٹا نمونیا وائرس (ایچ ایم پی وی) کے کیسز میں اضافے کے بعد عوام میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ یہ وائرس عام طور پر زکام یا فلو جیسی علامات پیدا کرتا ہے، جن میں کھانسی، بخار، ناک کا بند ہونا اور سانس میں دشواری شامل ہیں۔ ایچ ایم پی وی سردیوں کے موسم میں زیادہ فعال ہوتا ہے اور متاثرہ شخص کے چھینکنے، کھانسنے یا قریبی رابطے سے دوسرے افراد میں منتقل ہو سکتا ہے۔

چین کی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ ایچ ایم پی وی کے کیسز خاص طور پر 14 سال سے کم عمر بچوں میں زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے ہسپتالوں میں جگہ کی کمی ہو رہی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین میں احتیاطی تدابیر پر زور دیا جا رہا ہے، جیسے ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلے کی پابندی۔

ایچ ایم پی وی پہلی بار 2001 میں دریافت ہوا تھا اور یہ وائرس عام طور پر برونکائٹس اور نمونیا جیسے سانس کے انفیکشنز کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے خلاف دنیا بھر میں قوتِ مدافعت کی موجودگی کی وجہ سے اس کے عالمی وبا بننے کا خطرہ کم ہے۔

چین کے متعدی امراض کے ادارے کے سربراہ کان بیاؤ نے کہا کہ سردیوں اور بہار کے موسم میں سانس کی بیماریوں کے کیسز میں اضافے کا امکان ہے، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ 2024 میں ان بیماریوں کے کیسز پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ ایم پی وی سے بچاؤ کے لیے ماسک کا استعمال اور دیگر احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہیں۔

تبصرے بند ہیں.