تفتیشی کی تفتیش کون کرے گا

80

’’جرائم کی صورت میں انصاف کی منزل تک پہنچنے والے راستے کا آغاز پولیس سٹیشن سے ہوتا ہے۔ مروجہ فوجداری نظام انصاف میں سنگین ترین جرم یعنی انسانی قتل کے مقدمات کا فیصلہ گریڈ 20اور 21کے سیشن جج کرتے ہیں جو 80فیصد کیسوں کے فیصلے میٹرک یا انڈر میٹرک تفتیشی افسروں کی مکمل کردہ تفتیش کے مطابق کر دیتے ہیں یعنی اہم ترین فوجداری مقدموں کا فیصلہ آج بھی ان نیم خواندہ تفتیشی افسروں کے ہاتھ میں ہے جن کی اکثریت بددیانت، نالائق اور ناقابل اصلاح ہے۔‘‘

گزشتہ دنوں میں ذوالفقار علی چیمہ کی کتاب ’’دو ٹوک باتیں‘‘ دیکھ رہا تھا۔ اپنے ابتدائی باب میں انہوں نے پولیس کے تفتیشی کردار کے بارے میں درج بالا چند بڑی اہم باتوں کا اظہار کیا جبکہ میرے نزدیک یہ نہ صرف پولیس کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ بلکہ ان پولیس کے کرداروں کے بارے میں جو تفتیش کے نام پر پولیس بلکہ عدلیہ میں پڑے ہزاروں زیر التوا مقدمات میں سب سے بڑی رکاوٹ جو بھاری رشوت لے کر جہاں قانون کو اندھا کر دیتے ہیں وہاں ان کی طرف سے کی گئی غلط تفتیش کے سبب کئی بے گناہ پھانسی بھی چڑھا دیئے گئے اور کئی بے گناہ عمرقید کی سزا بھگتتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں روز اوّل ہی سے پولیس کے قائم کردہ تفتیشی نظام کو ایک طرح کی انہوں نے خود ہی ہتھکڑی پہنا دی گئی ہے اور اس کو کھولنے کی چابی کسی کے پاس نہیں۔ قانون بنانے والوں نے تو قانون بنا دیا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرانے والوں نے خود ہی اپنی کتابوں میں قانون کو اس قدر پیچیدہ کر دیا ہے کہ دیر سے فیصلے سنانے کے لئے ہماری عدالتیں بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ آئے روز ہر تفتیش میں کبھی ملزم بدل جاتے ہیں، کبھی قاتل بے گناہ تو کبھی بے گناہ قاتل ٹھہرا دیئے گئے۔ ہمارے ہاں اس غلط تفتیش کے سسٹم نے جہاں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رکھا ہے وہاں عدالتیں یہ بات بھی کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ہم جلد فیصلے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جب تک تفتیشی عمل کو شفافیت کے پہلو نہیں دیکھ پاتے کیسے فیصلہ دے دیں۔ یہاں عدالت کو بھی اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ دوسرا ان کیسوں کے التواء میں زیادہ ہاتھ پولیس کا اپنا ہوتا ہے۔ کسی بھی تھانے میں قتل یا کسی اور کیس میں جس تفتیشی افسر کا تقرر ہوتا ہے ابھی وہ اس کے مراحل کے آدھے پراسیس میں بھی نہیں ہوتا کہ اس کی جگہ دوسرا تفتیشی افسر آ جاتا ہے اور آنے والا اپنے طریقے سے کام کرتا ہے۔ بعض اوقات مقدمہ اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہوتا ہے تو اس میں ایک نہیں دو چار تفتیشی افسر بدل دیئے جاتے ہیں لہٰذا ایک مقدمہ جس کا فیصلہ چند ماہ میں ہو جانا چاہئے وہ ہمارے پولیس اور عدالتی نظام میں نسلوں تک چلتا ہے۔
آج ہمارے ہر ادارے میں رشوت، کرپشن اور بدعنوانی کے اتنے دروازے کھل چکے ہیں کہ ان کو بند کرانے کے باوجود تمام قوانین اور کوششیں رائیگاں گئیں۔ دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجوہات میں فرسودہ نظام، فرسودہ بنائے قوانین، سزائوں پر بروقت عملدرآمد نہ ہونا اور جب پولیس میں اکثریت بددیانت، نالائق، راشی افسران کی ہو اور وہ اصلاح کے قابل بھی نہ ہوں تو پھر کیسے ایک اچھا نظام چل سکتا ہے۔ اس اچھے نظام کو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھا مافیا کبھی نہیں چلنے دے گا۔ اب وہ وردی میں بیٹھا کس کی سرپرستی میں چل رہا ہے۔ اس کے منظر اور پس منظر میں کئی عوامل ہیں جو کسی سے پوشیدہ نہیں۔ میں تو ایک بات جانتا ہوں کہ جس معاشرے کی بنیاد ہی غلط روایات اور بنے بنائے قوانین کو توڑنے کی اینٹ بجری سے ڈالی جائے گی جب ہر طرف پیسہ چلنے کی آوار اٹھے گی جب ملزم ابھی تھانے نہیں پہنچتا تو سفارشی پہلے وہاں موجود ہوتے ہیں۔ ان کو نہیں روکا جائے گا اور جب رشوت میں بارہ مصالحے ڈالے جائیں گے تو پھر برے نظام کی بنیادیں مزید مضبوط ہوتی ہیں۔ اگر میں صرف پنجاب پولیس کی مثال دوں جہاں سیاسی تعلقات کی آڑ میں ایم این اے، ایم پی ایز تھانے اور تھانیداروں کے خریدار ہوں گے جہاں سفارشی اور من پسند ہی بنائے قوانین پر عمل درآمد کرائیں گے، جب راتوں رات ایف آئی آر میں کمزور اور مخالفین کو پھانسنے کے لئے مضبوط جعلی دفعات کو ڈالا جائے گا اور اصل مجرموں کی بجائے بے گناہوں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔پھر کیسی تفتیشی کیسے قوانین جہاں عدلیہ بھی بعض اوقات غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہو جائے۔

یہ درست ہے کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اگر ہوتیں تو پھر نظام قدرت رک جاتا جبکہ ہمارے نظام اور اداروں کی پانچ نہیں کئی انگلیاں جب ادھر ادھر جائیں گی تو پھر اچھے بھلے چلتے نظام پر سوالیہ نشان اٹھ جاتے ہیں۔ پانچ انگلیوں سے میری مراد پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جہاں برے لوگ تو وہاں اچھے افسران کی بھی کمی نہیں اور اگر آپ کو یہاں تھوڑا بہت اچھا نظام دکھائی دے رہا ہے تو شاید انہی اچھے افسران کی وجہ سے ہے۔ کہتے ہیں کہ تھانیدار اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے اور ان بے تاج بادشاہوں میں ایسے تھانیدار بھی شامل جنہوں نے کبھی اپنے ضمیروں کے سودے نہیں کئے۔ اس لئے کہ ان کے ضمیر ایمان سے بھرے ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک ایس ایچ او امتیاز سندھو جو آج کل سمن آباد تھانے میں براجمان ہیں۔ میں نے ان سے گزشتہ دنوں پوچھا کہ ہمارے پولیس کے نظام پر کرپشن، رشوت، غلط تفتیش، مافیاز کے ساتھ تعلقات اور اپنے ہی بنائے قانون کو توڑنے تک کا کون قصور وار ہے تو امتیاز سندھو نے بتایا کہ میرے خیال میں ہمارے ہاں جب تک تفتیشی کو کیس کے دوران سیاسی اور تعلقاتی دلائو سے نہیں نکالیں گے اور وہ جن حقائق پر کام کر رہا ہے اس میں افسران بالا کی مداخلت کا خاتمہ نہیں ہوگا وہ اصل مقدمہ پیش نہیں کر سکے گا۔ ایک اور اہم بات کہ ہمارے تفتیشی کو ٹرانسپورٹ سے لے کر جدید کمپیوٹر، لیب ٹاپ، سٹیشنری تک کو خود سے کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ تفتیشی کو یہ سہولیات سرکاری طور پر بہم پہنچائے اور آخری بات کہ وہ تفتیش کے مکمل اختیارات دیں جو اس کو میسر نہیں ہیں۔ ہر تفتیشی کی سوچ ہوتی ہے کہ مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرے جو اس کو کرنے نہیں دیا جاتا تو پھر ایسے ہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔

اور آخری بات…
آزادانہ تفتیش، سیاسی دبائو سے مکمل پرہیز، مکمل اختیارات میں کسی بھی پولیس افسر کو ایمانداری کی طرف نہ صرف لے جاتے ہیں بلکہ ہر کیس میں جہاں شفافیت دکھائی دے گی وہاں عدلیہ کو بھی جلد فیصلے کرنے میں آسانی رہے گی، باقی نام رہے اللہ کا…۔

تبصرے بند ہیں.