حکومتی اکابرین روز میڈیا پر آ کر کہتے ہیں کہ معیشت سنبھل گئی، ترقی کے راستے پر گامزن ہو گئی اور حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ یہ آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 7 دہائیوں سے تمام حکومتی معاشی ماہرین عوام کو یہی منجن بیچتے رہے ہیں لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے یقیناً یہ حقیقت ہوتی تو یہ رونا دھونا نہ ہوتا بلکہ یہ ملک ہمسایہ ملکوں کی طرح ایک ترقی یافتہ نہیں تو مستحکم معیشت کا حامل ضرور ہوتا۔ اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی انہی ملکوں کی طرح ہوتے۔ اس کا تجارتی خسارہ اس حد تک پیچیدہ نہ ہوتا۔ کیا آج تک ہم نے جتنے بھی اہداف مقرر کئے ہیں وہ کبھی پورے ہوئے ہیں؟ اہداف کے مقابلے میں قومی معیشت کی شرح نمو کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔بلکہ آج یہ صورتحال ہے کہ ہمارا افراطِ زر گزشتہ چھ دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024ء میں جی ڈی پی شرح 2.40 فیصد رہی جو کہ پاکستان جیسے بڑے ملک کے لئے جہاں آبادی 25 کروڑ سے بھی زائد ہے پریشان کر دینے والی ہے اور اربابِ اختیار کے لئے دعوتِ فکر ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ ہمارے اربابِ اختیار زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے بڑے غیر حقیقی اہداف مقرر کر لیتے ہیں جو عوام کے لئے خوش کن ہوتے ہیں۔ معاشی بحالی کے چیلنجز سے دوچار حکومت نے معاشی بحالی کے لئے "اڑان پاکستان” کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا ہے، جس میں اقتصادی شرح نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لئے بلند اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایک ایسے موقع پر ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کئے گئے ہیں جب کہ آئی ایم ا یف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے سلسلے میں پاکستان ٹیکس، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوشش کر رہا ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت آئندہ پانچ سال کے لئے جو اہداف رکھے گئے ہیں وہ ملک کے موجودہ معاشی اشاریوں کے مقابلے میں خواہشمندانہ ہیں۔ ایک تو پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آ رہا دوسرا ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ماضی میں بھی زمینی حقائق کے برعکس ایسے بڑے اقتصادی اہداف مقرر کئے جاتے رہے ہیں ، لیکن ان میں ناکامی دیکھی گئی۔ جب تک حکومت سیاسی استحکام اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کے لئے عملی اقدامات نہیں کرے گی، یہ منصوبہ بندی پیپرز کی حد تک محدود رہے گی۔ بلا شبہ لوگوں کو سستی چیزیں ملنی چاہئیں وہ مہنگائی سے تنگ آمد بہ جنگ آمد تک آ پہنچے ہیں اور مہنگائی کی بنیادی وجہ حکومت کے اربابِ معیشت کی سمجھ سے بالا تر ہے وہ تذبذب میں ہیں۔
ہمارے معاشی منصوبہ ساز تو اس کے اسباب بہت سی باتوں میں تلاش کرتے ہیں وہ اپنی جگہ پر اور یقیناً ان کے اثرات کو کلیتاً رد نہیں کیا جا سکتا تاہم انہیں صرف تین سال کے عرصہ میں پاکستان کی معیشت کو 6 فیصد کی شرح نمو سے 2 فیصد تک گراوٹ کا کلیدی عنصر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہمارے داخلی مسائل قومی معیشت کے لئے کہیں زیادہ مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ معاشی الجھنیں روز بروز پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہیں۔ قوتِ خرید کم اور غربت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جس سے مصنوعات کی کھپت میں کمی کی صورت میں صنعتی ترقی کے امکانات میں کمی کا سبب بنتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں صنعتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔
معاشی ترقی کا اگرچہ مجموعی قومی پیداوار سے گہرا تعلق ہے لیکن یہ معاشی ترقی کو ظاہر نہیں کرتی کیونکہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ معاشی ترقی کے لئے واحد عامل نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کی جی ڈی پی بلند شرح سے بڑھ رہی ہو پھر بھی وہ ملک معاشی ترقی کے حصول میں کامیاب نہ ہو۔ معاشی ترقی ایسے عمل کو کہتے ہیں جس میں جی ڈی پی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی اور ادارتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کے ذریعے ترقی کے عمل کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ جیسے امریتا سین کے مطابق کیا پائیدار ترقی کے مقاصد کو حاصل کیا گیا ہے؟ ان کے مطابق معاشی ترقی کے پائیدار مقاصد اسی وقت حاصل کئے جا سکتے ہیں جب کہ اس قوم کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی حاصل ہو، کیا ہمارے ہاں ایسا ہی ہے؟ اور یہ کہ سب انسانوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے مساوی مواقع میسر ہوں اور معاشرے میں امن، انصاف، صنفی مساوات کی راہ میں رکاوٹ کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ کرۂ ارض پر متنوع زندگی اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کی آسائشوں کا حصول سب کے لئے تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب پائیدار زراعت و جنگلات، پائیدار پیداوار و کھپت، گڈ گورنس، تحقیق و ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تعلیم وتربیت کی رفتار میں اور آبادی کے توازن کو برقرار رکھا جائے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن سنگین ترین چیلنجز کا سامنا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو درپیش مسائل کی ترجیحات کا تعین کر کے ان کے حل کے لئے ٹھوس حکمتِ عملی مرتب کریں۔ ہماری مملکتِ خداداد فی الوقت جس قسم کے گمبھیر مسائل سے دوچار ہے اس میں بنیادی ڈھانچہ کی فرسودگی، گورنس کی کمزوریوں، مالیاتی نظم و ضبط کا فقدان، تیکنیکی مہارتوں کی کمی اور تہذیبی و ثقافتی اکائیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بیرونی قرضوں میں گھری معیشت کے وبال نے داخلی خود مختاری اور قومی آزادی کو لپیٹ رکھا ہے۔ اس لئے قوم کو سبز باغ نہ دکھائے جائیں حقائق پر مبنی پالیسیاں اپنائی جائیں۔
تبصرے بند ہیں.