ہمارے بچپن میں محلے یا خاندان کے بعض افراد کچھ لوگوں کو چڑانے یا چھیڑنے کے لیے مخصوص الفاظ بولا کرتے تھے۔ جیسے ہماری مسجد کے مولوی صاحب پینٹ اور خصوصاً جینز کی پینٹ کے شدید خلاف تھے قرب و جوار کے بچے ان کو دیکھ کر یا تو پینٹ پہن کر آ جایا کرتے تھے یا پھر پینٹ کے فضائل اور اس کے معاشرتی فوائد پر تفصیلی گفتگو کرنے لگتے۔ اسی طرح کرکٹ کلب کے نوجوان بعض بزرگوں کو مخصوص سیاسی نعروں کی بدولت چھیڑنے یا چڑانے کا کام کر لیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ صاف تھی ان بزرگوں کو مخصوص سیاسی حلقوں یا جماعتوں سے کوئی بیر یا اختلاف ضرور تھا۔
بچپن تو خیر سبھی کا چلا جاتا ہے لیکن ہمارے بچپن کے ساتھ ایک صدی اور ایک زمانہ بھی رخصت ہو گیا۔ہم ناسٹلجیا کا شکار ہوئے بغیر بھی اس دور کی سادگی اور خوبصورتی کو یاد کر سکتے ہیں در حقیقت گزشتہ صدی کی بالکل مختلف دنیا سے ہمارا گزر ہوا تھا۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم نے گزرے ہوئے زمانے کی جمالیات کو تو چھوڑ دیا لیکن اس میں پائے جانے والے نقائص اور مسائل کو ساتھ لے کر نئے دور میں چلے آئے ہیں۔
خیر ہم نئے نظام تعلیم سے منسلک ہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے ہمیں چھیڑنے کے لیے تدریس بازوں نے کچھ الفاظ دریافت کیے ہیں اور انھیں ہماری چڑ بنا لیا ہے۔ نئے نکور ٹرینرز سے ہم جب بھی ملتے ہیں وہ ہمیں کبھی (Pedagogy) پیدا گوجی ،اینڈرا گوجی، ہیوٹو گوجی، خالی گوجی سنا کر چڑاتے ہیں اور کبھی انٹرپنیور۔ پانچ چھ برس سے بعض ستم ظریف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو ہماری چڑ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان اصطلاحات سے کوئی سیاسی یا خاندانی اختلاف نہیں ہے لیکن ان کے خالی جھنڈا لہرانے پر ہم نوحہ کناں ضرور ہیں۔ ہمیں دکھ ہے کہ گزشتہ دس برس میں انٹرپنیور شپ پڑھانے، بتانے یا سنانے والے کسی ٹرینر کو ہم نے روزگار حاصل کرتے نہیں دیکھا۔ pedagogy کی نئی نویلی ریسیپیز سنانے والوں کا کوئی سوشل امپیکٹ کسی سطح پر نہیں دیکھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پیڈا گوجیاں ہمارے طلبا کو کتاب کی طرف راغب نہیں کر سکیں۔ تعلیم کے میدان میں کتاب بینی کا بنیادی کام کوئی برآمد شدہ گوجی انجام نہیں دے سکی۔ کئی دہائیوں سے لائبریریاں خالی ہیں، پرائیویٹ لائبریریاں ختم ہو گئی ہیں بلکہ شاید آج کی نوجوان نسل یہ جانتی ہی نہ ہو کہ پچیس تیس سال پہلے ہر بازار، محلے یا مارکیٹ میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں سے بچے بڑے سب کرائے پر کتاب پڑھنے کے لیے لے جاتے تھے۔ ناول، شاعری، افسانے، کئی طرح کے میگزین، اخبارات، رسالے، جریدے اور نہ جانے کیا کیا ان لائبریریوں پر دستیاب ہوتا تھا۔ ہم میں سے بہت سے افراد نے مغربی ادب کے تراجم، اجرامِ فلکیات پر لکھی جانے والی کتابوں کے تراجم، عالمی سیاسیات پر لکھی گئی انگریزی، روسی اور ہندی کتابوں کے تراجم انھی لائبریریوں کے طفیل پڑھے تھے جن میں میکاولی کی کتاب "دا پرنس،” کوٹلیہ چانکیہ کی "ارتھ شاستر” ، وکٹر ہیوگو کے ناول "کبڑا عاشق”، جان ڈن اور کیٹس کی شاعری اور شیکسپیئر کے ہیملٹ سمیت معلومات عامہ کی بھی کئی کتابیں شامل تھیں۔
پرانے استاد نے بس بڑی سادگی سے مطالعہ اور تفریح میں اتفاق قائم کر دیا تھا۔ معلومات کا حاصل کرنا اور ان پر اپنی بیٹھکوں میں بات چیت کرنا ، کسی ایک موضوع پر مکالمہ کرنا ایک سرگرمی تھی جس کی بدولت خاص طرح کے مضمون کی حمکت سمجھنے میں مدد ضرور ملتی تھی۔ پرانے استاد نے بڑی آسانی سے سیکھنے کے عمل میں تمام تکلفات کا خاتمہ کر دیا تھا۔ جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ، کرسی میسر نہ آئے تو زمین پر بیٹھ جاؤ، عام لباس یا وہ پہن لو جس میں سہولت محسوس کرو۔ تعلیم کا کلچر کچھ ایسا تھا کہ سکول لائف میں لڑکے کئی کئی گھنٹے اپنے بالوں کی بناوٹ اور ان کو رنگنے میں ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ پڑھنے والے لڑکوں کی پہچان ہی یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے بال رکھا کرتے ہیں۔ بے تکی رنگ برنگی وضع قطع بنانے میں دن کا بڑا حصہ ضائع کر دینے کا تصور ہی نہیں تھا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی ناول توبہ النصوح میں نصوح کے سب سے چھوٹے بیٹے کا احوال بیان کیا ہے جس کے بال بہت خوبصورت تھے اور وہ ان کی سجاوٹ پر خاصا وقت صرف کرتا تھا۔ محلے کے ایک گھر کی دانشور معلمہ نے جب اسے اپنے گھر آنے اور پڑھنے کی اجازت دی تو شرط یہ رکھی کہ پہلے بال منڈوانا ہوں گے۔ اس شرط پر استدلال یہ تھا کہ بچہ دن کا کثیر وقت بالوں کو سنوارنے میں صرف کرتا ہے اور توجہ مسلسل اسی سنگھار پر لگی رہتی تو سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا۔ دیکھیے سو سال پہلے کے استاد نے پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو تیز اور خالص بنانے کے لیے سب سے پہلے اس میں سے بناوٹ اور تکلفات کو ختم کیا۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ سادگی کسی محرومی کی دلیل نہیں بلکہ تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری کی پہلی شرط ہے۔ نئے استاد نے مصروف دور میں تمام تکلفات اور بناوٹ کو داخلِ تدریس کر کے طالب علم کو پڑھائی سے فارغ کر دیا ہے۔
اب کتاب بینی کے لیے وقت کہاں سے نکالا جائے ؟ جب پورا تعلیمی کلچر ہی غیر تعمیری سرگرمیوں، بناوٹ اور تکلفات سے بھرپور ہو تو کتاب پڑھنے کی فرصت کس فارغ آدمی کے پاس ہونے لگی؟؟ اب ایسے میں محلے کی لائبریری سے کون اداس آدمی کتاب لینے جائے گا ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے لائبریریاں بند کر دیں اور انھی دکانوں میں نوجوانوں کے لیے کیفے اور فاسٹ فوڈ کے کاروبار شروع کر دیئے۔ البتہ لاہور کے کچھ کیفے ایسے ہیں جن میں کچھ کتابیں عجائبات کی طرح سجا کر رکھی گئی ہیں۔ ان کی حیثیت وہی ہے جو کسی عجائب گھر میں سنبھال کر رکھے گئے نوادرات کی ہوتی ہے۔
رہی سہی کسر ہمارے نئے نکور ٹرینرز نے پوری کر دی۔ یہ تدریس کے ایسے ایسے منتر اور فارمولے پکڑ کر لائے ہیں جو خود انھیں فائدہ دے پائے نہ اس معاشرے کو۔ ان کے معموں میں مسائل ہمارے ہیں نہ ان کے حل ہماری تلاش سے تجویز کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں کا ہمارے ماحول اور معاملات سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں لیکن نت نئی اصطلاحات کے ذریعے انھیں جبراً ہمارے دماغوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک کی جامعات میں اپنی زبان و ادب کو نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔ فقط یہی عمل نئی نسل کو کتاب دشمن بنانے کے لیے کافی تھا۔ لوکل محرکات، مسائل اور معاملات کو پیشِ نظر رکھ کر نہ تو تدریس کے طریقے دریافت کیے گئے نہ تعلیمی اصطلاحات بنائی گئیں۔ ہم نے سارا نظام تعلیم لوکل مسائل کا امپورٹڈ حل پیش کرنے والے ماہرین کے سپرد کیا ہوا ہے۔
کتاب سے دور ہونے کی وجہ مصروف زندگی نہیں ہے۔ آج بھی دنیا کے ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل دنیا میں ہم سے پہلے داخل ہونے والے ممالک میں کتاب بینی ہماری نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے جوانوں نے ڈیجیٹل دنیا میں کتاب بینی کا سفر طے کیے بغیر قدم رکھا ہے۔
اب ہمیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا صارف بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ جس طرح کے ٹرینرز ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں یہ ہمارے ملک میں نئی ٹیکنالوجی کے صرف صارفین پیدا کریں گے۔ یہ صارفین پہلے لوگوں سے زیادہ مصروف ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں.