ٹی وی سکرین پر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ متحدہ امارات کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان میاںشہباز شریف نہایت خوشگوار موڈ میںایک گاڑی میں بیٹھے ، شیخ محمد بن زید النہان کار چلارہے ہیںاور دونوں رہنما کسی بات پر قہقہے لگا رہے ہیں، سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہورہی تھی کہ اتنی قریبی دوستی میں اب ہمارے لئے متحدہ امارات کے ویزے کھل جائینگے، ہماری لیبر ابو ظہبی ملازمتیں حاصل کرسکے گی، زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب بنے گا ، پاکستانیوںکیلئے ویزہ کا اجرا آسان ہوجائیگا ، مگر سارے افسانے میں اسکا ذکر نہیں تھا، کم از کم ہماری وزارت سمندر پار پاکستانی یا وزارت خارجہ اس تصویر کو ساتھ لگا کر متحدہ عرب امارت کی متعلقہ وزارت سے پاکستانیوںکے ویزے طلب کرلیں شائد انہیںاپنے سربراہ کی پاکستان سے دوستی کا اندازہ ہوسکے ۔ شیخ محمد بن زید النہان شائد اپنی چھٹیاںگزارنے یہاں آئے ہیں اس دوران وزیراعظم شہباز شریف ان سے سرکاری درخواست نہ کر سکے۔ ویزے کھلنے کی خبر نظر سے نہیں گزری تو مایوس ہوکر ملک کے اندرونی ماحول جہاں مذاکراتی ڈرامے چل رہے ہیں اس پر توجہ دینا پڑی ، کسی نے مذاکرات کا نام ’’مذاق رات ‘‘ خوب رکھا ہے جو لگتاہے شائد حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کوذہن میں ہی رکھ کر رکھا گیا ہے ۔پی ٹی آئی کی پریشان حال جیل سے باہر جس کے خیالات آپس میں نہیں ملتے بلکہ انہیں پہلے اڈیالہ جیل کے باسی سے ملاقات کرکے ہر نکتہ پر انہیںبتا نا ہوتی ہے رائے لینا ہوتی ہے ،مذاکرات کی پہلی شق میںوہ صرف کپتان کی رہائی کا مطالبہ دیکھنا چاہتے ہیں نیز خواب دیکھنے والے ٹرمپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں تو تاخیر بھی کررہے ہیں اسکے علاوہ انہیں کسی نکتے سے کوئی غرض نہیں ، اس طرح کے مذاکرات چاہے لاکھ اسے کوئی اورنام دے مگر حقیقی طور پر وہ ڈیل کی خواہش کا اشارہ دیتے ہیں مگر ڈیل کس سے ؟؟؟ جنہوںنے ملک کو تمام دنیا میں بدنام کیا ۔ ان مذاق رات کے دوران معافی تلافی کرنے والوں، نرم جرم کرنے والوںکی رہائی بھی ہورہی ہے جو رحم کرنے والوں کی رحم دلی ہے مگر جب دم ہی ٹیڑھی ہو تو معافی، رحم کوئی معنی نہیں رکھتے، جو لوگ ملکی املاک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ملک کو بدنام کرسکتے ہیں انکی جانب سے معافی کیا معنی رکھتی ہے ، جرم کرنے والے کس معافی کے حقدار ہیں ؟یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ گڑ گڑاکر معافی مانگنا اور رحم کی بنیاد پر قید سے رہائی ، باہر آکر وہی نعرے ، اور شرم سے بالا تر ہوکر وکٹری کے نشانات ، دراصل یہ وکٹری کے نشان انہیں چڑانے کیلئے بنائے جاتے ہیں کہ جو محب وطن ان کی کارروائیوںسے نالاں تھے ۔ 9مئی کے بعد اکثر کئی حلقوں سے یہ آوازیںآتی رہیںکہ گیہوں ساتھ گن بھی پستے ہیں اسلئے جو احتجاج کے دوران گرفتار ہوئے اگر انکے جرم نرم ہیں تو ایسے لوگوںکو چھوڑ دیا جائے اور اصل دہشت گردی کو ترغیب دینے والوںکو سزا دی جائے ، چونکہ اصل دہشت گردوں کو بچانے کیلئے قانونی ماہرین تحریک انصاف سے کروڑوں روپے فیس کی مد میں لے رہے ہیں ( ذریعہ آمدن نامعلو م ) مگر ان میں اکثریت کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں اور نہ وہ جماعت جسکی محبت یا ایما پر انہوں نے یہ دھما چوکڑی مچائی انکے پرسان حال یہ کروڑوں روپیہ لینے والے وکلاء نہیں وہ تو صرف ایک شخص کو بچانے پر مامور ہیں ،گناہ اور جرم میںفرق ہوتا ہے ملک کی اساس کو نقصان پہچانا گناہ ہے ، ملک کے خلاف دہشت گردی کے سہولت کاروں یا دہشت گردی کرنے والوں کو ڈھیل ، معافی انکے حوصلے بلند کرتی ہے جسکا اظہار نے رہائی کے فوری بعد کیا ۔ سانحہ مئی 2023ء کے19مجرموں کی سزائوں میں معافی کے اعلان کی جو تفصیلات جمعرات کو سامنے آئیں، ان سے ایک بارپھر واضح ہوگیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی میں قواعد و ضوابط کی پاسداری کو سختی سے یقینی بناتے ہوئے ان قواعد و ضوابط میں موجود نرمی اور رحم کے پہلوئوں کو بھی پوری طرح ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ (آئی ایس پی آر) کے بیان کے بموجب معافی کا مذکورہ اعلان پاک فوج کے کورٹس آف اپیل نے کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 9مئی کی سزائوں پر عملدرآمد کے دوران 67مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی درخواستیں دائر کیں، 48درخواستیں قانونی کارروائی کیلئے کورٹس آف اپیل میں نظرثانی کیلئے بھیجی گئیں، 19مجرموں کی سزائوں میں معافی کی صورت میں پاک فوج کے منصفانہ قانونی عمل اور انصاف کی مضبوطی کا ایک اورثبوت سامنے آیاہے۔ آئی ایس پی آر کے الفاظ میں ’’یہ نظام ہمدردی اور رحم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی یقینی بناتا ہے‘‘۔پاک فوج کے منصفانہ اقدام کوسراہنے کے بجائے معافی نامے پر رہائی پانے والوں کا وزیراعلیٰ ہائوس پشاور میں استقبال‘ ہار پہنائے گئے۔جس طرح امتحان میں اعلیٰ پوزیشن لینے والوں کو سرکاری سطح پر سراہا جاتا ہے‘ انہیں ہار پہنا کر انکے اعزاز میں تقریب منعقد ہوتی ہے‘ اسی طرح 9 مئی کے بلووں کے کیس کے جن ملزمان کو معافی نامے کے بعد رہائی ملی‘ انکی پذیرائی بھی وزیراعلیٰ خیبر پی کے ہائو س میں اسی انداز میں کی گئی۔ اور یہ معافی مانگ کر باہر آنے والے وکٹری کے نشان بناتے رہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور دکھانا چاہتے ہیں کہ موقع ملا تو پھر یہی معافی نامے والا لشکر لے کر وہ اسلام آباد کی طرف کوچ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر فوجی ہو یا سول عدالتیں ایسے افراد کو ضمانت پر یا معافی نامہ پر رہا کرنے سے قبل تسلی کرلیا کریں کہ یہ پھر کسی ایسی منفی سرگرمیوں سے دور رہیں گے یا نہیں۔ اگر انہوں نے آئندہ بھی یہی کرنا ہے تو پھر رعایت دینے کا کیا فائدہ، انکے اندر رہنے سے ملکی املاک محفوظ تھیں ۔ بڑے پتہ کی ایک بات یہ بھی ہے کہ معافی گناہ کی ہوتی ہے‘ جرم کی سزا ہو تی ہے۔ اگر رہا ہونے والے اسی طرح اپنی سابقہ روش پر لوٹتے رہے تو باقی ملزمان کو بھی شہ ملے گی۔ جرم کے مرتکب ہونے والوں کو معافی سے ہمارے ہاں مجرم اور شیر ہو جاتے ہیں۔صوبہ کے قانونی گورنر کی جانب سے معافی پانے والے مجرموں کی پذیرائی کوئی بہتر بات نہیں لگتی ، اور یہ براہ راست مرکز اور عسکری اداروں سے ٹکرائو کا عندیہ دیتا ہے ۔ادھر سیاسی منظر نامے پر پی پی پی کی دھمکیاں بھی جاری رہتی ہیںحکومت چھوڑنے کی ، انکا کہنا صحیح ہے کہ اگر ہم نے تعاون چھوڑ دیا تو حکومت چلی جائے گی۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت کی کس کی آئے گی ، کسی اور کی حکومت آئی تو انکے بھی بہت سے رہنما جیل یاترا کرسکتے ہیں ۔
تبصرے بند ہیں.