معاشی بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا ہے جس میں اقتصادی شرح نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لیے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے سلسلے میں سخت گیر ٹیکس مہم، نجکاری اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی کوششوں زیادہ نتیجہ خیز نظر نہیں آرہی۔
’اُڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اقتصادی ماہرین اڑان کے تحت اگلے پانچ برسوں میں رکھے گئے اہداف کو موجودہ معاشی انڈیکیٹرز کی روشنی میں معصومانہ خواہش قراردے رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں جاری سیاسی بحران اور دہشت گردی کی موجودہ لہر ہے۔ان حالات میں تمام ترذاتی تعلقات کے باوجود بھی موجودہ اتحادی حکومت کسی قسم کی بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی پائیدار ترقی کے لیے معاشی منصوبوں کا آغاز آزادی کے بعد 1955میں ہی ہوگیا تھا۔ جسے پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ قرار دیا گیا۔ اس میں ترقی کے مختلف اہداف رکھے گئے۔ انہی پنج سالہ منصوبوں کے تناظر میں 13 واں پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ پیچھلے سال جون 2024 میں منظور کیا گیا تھا۔ پچھلے 65 برسوں میں ایوب خان اور ضیا الحق کے طویل مارشل لائ، بے نظیربھٹو اورنواز شریف کی نیم جمہوری حکومتوں اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد ہائبرڈ حکومتوں میں ان منصوبوں کاتسلسل رہاہے۔ لیکن حیران کن طور پر ان منصوبوں سے تاحال کوئی بھی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوسکی۔اقوام متحدہ کے مطابق قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 2016 میں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کو اپنے قومی ترقی کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا جس میں 2030 تک کے اہداف شامل تھے۔جس میں غربت کا خاتمہ، بھوک کا خاتمہ، بہتر صحت، آسودہ زندگی، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور صفائی، باکفایت اور صاف توانائی، معقول روزگار اور شرح نمو، صنعت میں جدت پسندی اور انفراسٹرکچر، عدم مساوات میں کمی، پائیدار شہر اور آبادیاں، ذمہ دارانہ تصرف اور پیداوار، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات، زیر آب حیات، امن انصاف اور مضبوط ادارے، مقاصد کے لیے شراکت داری جیسے اہداف شامل تھے۔اس کے بعد 2018 میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے یواین پائیدار ترقی کے فریم ورک (یو این ایس ڈی ایف) پر دستخط کیے جسے پاکستان ون یونائیٹڈ نیشنز پروگرام بھی کہا گیا۔ یہ فریم ورک ایک درمیانی مدت کی اسٹریٹی جک منصوبہ بندی کی ایک ایسی دستاویزتھی جس میں دس اہم کامیابیوں پر توجہ دی گئی۔ معاشی ترقی, باعزت روزگار، حفظانِ صحت، غذائیت، خوراک کا تحفظ اور پائیدار زراعت، مشکلات کا سامنا کرنے کی اہلیت، تعلیم، صنفی مساوات، گورننس، اور سماجی تحفظ جیسے اہداف تھے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ جس میں 2026 تک مزید اضافے کا امکان ہے۔ ماضی کے منصوبے سی پیک کی طرح اڑان کو ایک اور ’گیم چینجر‘منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت پر معاشی ماہرین کیجانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جارہے ہے کہ انھوں نے سی پیک جیسے بہترین منصوبے کونہایت خاموشی سے رول بیک کر دیا ہے۔ اڑان پانچ الف کے فریم ورک پر مبنی ہے۔ ایکسپورٹ، آئی ٹی، انوائرنمنٹ، انرجی انفراسٹرکچر اور پانچواں سوشل ایکویٹی ہے۔ان حالات میں جب پاکستان کی معیشت ایک فیصد کے حساب سے آگے بڑھ رہی ہے۔ فارن انوسٹمنٹ 25 برس کی کم ترین سطح پر ہے۔ پاکستان انٹرنیٹ کی بندش کے باعث معاشی نقصان کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ ایسے میں 6 فیصد گروتھ، 60 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ، ڈیجیٹل انقلاب کے دعوے غیر حقیقت پسندانہ لگتے ہیں۔ لائن لاسز اور کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 2000 ارب سے زائد کے بوجھ تلے دبا انرجی سیکٹر کس طرح ملک میں صنعتی پہیہ چلائے گا۔ اگر یہ چارفیکٹرز کام نہیں کرتے تو سوشل ایکوٹی کا تصور محال ہے۔ پاکستان کے عوام شدید مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہے۔ کمپرومائزڈ سیاسی نمائندگی اور عوام کی اضطرابی کیفیت سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ ماہرین کیمطابق پاکستان کو اس وقت شارٹ ٹرم معاشی منصوبوں کی ضرورت ہے جبکہ حکومت اس کے برعکس لانگ ٹرم منصوبے پیش کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کہتے ہیں کے اڑان کے دو تین برس بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ماضی میں بھی حکومتیں 25 بار یہ کہہ چکی ہیں۔ اور ہر بار ایک بڑا پروگرام سامنے آتا ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ بارآئی ایم ایف پروگرام لینے والا ملک بن چکا ہے۔اس صورتحال پر دوسوال سامنے آئے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس موجودہ صورتحال سے فوری نکلنے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے؟ یا پھر حکومت کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت نہیں ہے؟ اس لئے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں جدید دور
میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک سنگاپور، ملائشیا، دبئی اور ترکی سے سیکھنا ہو گا۔ سنگاپور 1965 میں ملائشیا سے الگ ہوا۔یہ بغیر قدرتی وسائل کے ایک جزیرہ نما تھا جو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ لی کوان کی دور اندیش قیادت میںمعیاری تعلیم، میرٹ اور انصاف پر مبنی نظام، مضبوط قانونی ڈھانچے، کرپشن کے خاتمے، مکمل ٹرانپرنسی اور جدید انفراسٹرکچرکے ذریعے سنگاپور عالمی معیشت کا ایک بڑا مرکزبن گیا۔ سنگاپور میں اوسط فی کس آمدن ایک لاکھ ڈالرسالانہ سے زیادہ ہے۔جبکہ پاکستان میں سالانہ فی کس آمدن 1600 تقریباً ڈالر ہے۔
کیا وزیر اعظم شہباز شریف اڑان پاکستان منصوبہ شروع کرنے سے پہلے کرپشن کے پر کاٹ سکیں گے؟ کیا گارنٹی ہے کہ پچھلے منصوبوں کی برعکس اس بار ٹرانسپرنسی یقینی بنائی جائے گی؟ انوسٹمنٹ کامکمل قانونی تحفظ اور سب سے اہم سیاسی عدم استحکام ختم کرنے جیسے فیصلوں کی طاقت موجودہ حکومت کے پاس ہے؟ کیا وزیر اعظم شہباز شریف اتحادی حکومت کی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کا حوصلہ کریں گے؟ اگر وہ یہ سب کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتے ہیں تو پھر شاید اس طرح کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ورنہ پاکستان منصوبوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ جہاں ہرمنصوبے کی قبرکا کتبہ ہی باقی ہے۔
تبصرے بند ہیں.