مدینہ منورہ …. بازار اور خریداری….!

49

 

(گزشتہ سے پیوستہ)
اللہ کریم کا لاکھ لاکھ احسان کہ مدینہ منورہ میںقیام کے دوران مسجد نبوی میں نمازوں کی ادائیگی، روضہِ اقدسپر درود و سلام کے لیے حاضری اور ریاض الجنة میں نوافل کی ادائیگی کو ہماری مصروفیات میں فوقیت حاصل رہی تو اس کے ساتھ مدینہ منورہ کے مقدس تاریخی مقامات کی زیارات بھی بطریقِ احسن مکمل ہوئیں۔ اس ضمن میں بھتیجے عمران ملک ، اس کے خالہ زاد بھائی عزیزم واجد ملک اور اپنی بھتیجی عمران کی بہن راضیہ کا بطورِ خاص ذکر کرنا چاہوں گا کہ وہ تمام معاملات کی سر انجام دہی کے لیے اس طرح پیش پیش رہے کہ مختلف امور بفضلِ تعالیٰ ایک ترتیب سے اور بر وقت سر انجام پاتے رہے۔ تاہم ایک اہم مرحلہ مدینہ منورہ سے کچھ خریداری (Shopping)کا تھا۔اس کے لیے وقت نکالا گیا اور موزوں جگہ یا سٹورز سے مناسب نرخوں پر مختلف اشیاءجن میں سرِ فہرست کھجوروں کی خریداری کرنا کسی حد تک مشکل کام تھا۔مدینہ منورہ میں تین چار ورز قیام کے بعد ہم اس کے لیے کچھ متحرک ہوئے تو ہمارے سامنے اہم سوال یہی تھا کہ خریداری کا شیڈول کیسے بنے اور کہاں سے خریداری کی جائے اور کن چیزوں کی خریداری کی جائے۔ کھجوریں مدینہ منورہ کی ایسی سوغات ہیں جن کی خریداری مدینہ منورہ سے بہر کیف کرنا ہی تھی۔بچوں کے لیے کچھ اشیاءجن میں ملبوسات، جوتے، کھلونے، گھڑیاں اوربسکٹ وغیرہ شامل تھے تو وہ بھی خریدنا ضروری تھے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ دوسری ضروری استعمال کی اشیاءکے ساتھ پاکستان میں عزیز و اقارب اور احباب کو حرمین شریفین کی سوغات کے طور پر پیش کرنے کے لیے پر فیومز اور خواتین اور لڑکیوں کے لیے آرٹیفیشل جیولری کڑے، لاکٹ اور جوتے وغیرہ خریدنے کی باتیں بھی خواتین کی طرف سے سامنے آ رہی تھیں۔سچی بات ہے میں ذاتی طور پر ایک معقول مقدار میں کھجوروں کی خریداری کے ساتھ چھوٹے بچوں (ماشاءاللہ اپنے پوتوں ،نواسے ، نواسی اور پوتی) کے لیے چھوٹی موٹی چیزیں خریدنے کے علاوہ دیگر اشیاءکی خریداری کے حوالے سے بڑی حد تک خالی الذہن تھا۔واجد اور عمران اپنے بچوں، بچیوں اور دیگراہلِ خانہ کے لیے خریداری کے بارے میںکسی
حد تک پر جوش تھے تو ان کے ساتھ راضیہ بھی کافی سر گرم تھی کہ اپنی بچیوں کے لیے عبائیں اور سمارٹ واچ جیسی چیزیں ضرور خریدیں۔میری اہلیہ محترمہ میری طرح ہی خریداری میں کچھ زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہی تھیں۔ البتہ دیگر دونوں خواتین عمران کی امی اور واجد کی امی دونوں بہنیں چاہتی تھیں کہ اپنے بیٹوں عمران اور واجد کے علاوہ اپنے طور پر بھی اپنے کنبے کے چھوٹے بڑے افراداور ملنے جُلنے والوں کے لیے کچھ چھوٹی موٹی سوغات نما چیزیں ضرور خریدیں۔
مدینہ منورہ آمد کے بعد تیسرا یا چوتھادن تھا کہ ہم نے طے کیا کہ ظہر کے نماز کی ادائیگی کے بعد ہم تینوں (میں ، عمران اور واجد) مسجد نبوی کی شمالی سمت میں جو بڑے بڑے کئی منزلہ پلازے ، ہوٹل اور شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں ان میں دکانوں اور سپر سٹورز سے کھجوروں سمیت دیگر اشیاءکی قیمتیں جاننے کے کوشش کرتے ہیں اور کچھ چیزوں کی قیمتیں اگر مناسب لگیں تو ان کی خریداری بھی کر لیتے ہیں۔ خواتین سے ہم نے کہا کہ وہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد نبوی میں خواتین کے حصے میں ہی موجود رہیں گی۔ ہم تینوں نے مسجد نبوی کے جنوبی سمت کے قدیم حصے میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد باہر نکل کر فاصلے پر شمالی سمت میں مسجد نبوی کے بیرونی بڑے گیٹ 332 سے باہر کا رُخ کیا۔سخت گرمی تھی اور دھوپ کافی تیز تھی۔ ہم نے سڑک کو جلدی جلدی پار کیا اور دوسری طرف جہاں پلازوں کے اونچے اونچے بلاک ، ہوٹل اور شاپنگ مالز وغیرہ موجود ہیں اِدھر آ گئے۔سامنے والے بڑے پلازے میں داخل ہو کر برقی سیڑھیوں سے فرسٹ فلور پر پہنچے تو وہاں سعودی عرب کے مشہور سپر سٹور چین (chain) "بن داﺅ د ” کا داخلہ گیٹ کھلا ہوا تھا،”بن داﺅد "کے سپر سٹور میں جو دو تین فلورز پر پھیلا ہوا ہے،کھانے پینے کی اشیاءکے ساتھ برتنوں، گھڑیوں ، کھلونوں ، جوتوں ، پر فیومز، کپڑوں اور الیکٹرانک اشیاءکے سٹالزموجود تھے۔ ہر سٹال پر مختلف اشیاءکی قیمتیں لکھی ہوئی تھیں۔ بچوں کے لیے گھڑیاں اور کھلونے وغیرہ سیل میں دستیاب تھے۔ واجد نے اپنے بچوں (بیٹوں اور بھانجوں) کے لیے چار پانچ گھڑیاں پسند کیں اور خرید لیں۔
بن داﺅد کے سپر سٹور سے باہر نکل کر ہم اگلے پلازے میں چلے گئے۔وہاں بھی ادھر اُدھر گھوم پھر کر مختلف دکانوں سے گھڑیوں اور جوتوں وغیرہ کے نرخ پوچھے۔جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ نرخ ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔ گھڑیوں کی ایک بڑی دکان سے میں نے اپنی کلائی پر بندھی سٹیز ن (Citizen)گھڑی دکھا کر پوچھا کہ اس طرح کی گھڑی ہو تو اس کی قیمت بتائیے۔دکان دار نے معذرت کی اور کہنے لگا کہ سٹیزن جاپان کی گھڑیاں یہاں کسی سے بھی نہیں ملیں گی۔کیونکہ یہ گھڑیاں اب یہاں (سعودی عرب میں)نہیں منگوائی جاتیں۔ ان کی جگہ پر سیکو (SIECO)اور کیسیو(CASIO) وغیرہ گھڑیاں دستیاب ہیں جو آپ لے سکتے ہیں۔میں نے ایک دو گھڑیوں کی طرف اشارہ کر کے ان کے نرخ پوچھے تو جان کر ہمارے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی۔ہزار بارہ سو ریال سے زائد نرخ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم دکان سے باہر نکل آئے اور دوسری دکانوں کا جائزہ وغیرہ لینا شروع کر دیا۔ عمران نے اپنی بچیوں (جو کالج یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہیں)کے لیے سمارٹ واچز لینا تھیں۔ان کی تلاش میں کہ مناسب نرخوں میں مل سکیں ہم شاپنگ مال کے دو تین فلورز پر ایک سے زائد بار اِدھر اُدھر گزرے۔ایک بات ہم نے نوٹ کی اور آپس میں اس کا تذکرہ بھی کیا کہ دکانوں پر سیلز مین کے طور پر پاکستانی وغیرہ شاز و نادر ہی ہیں۔بنگالی البتہ ہر طر ف بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں بلکہ بعض دکانوں پر صرف بنگالی ہی نظر آئے جس سے لگتا تھا کہ دکانوں کے مالک بھی وہی ہیں۔اگلے دو تین دنوں میں ہمیں دیگر شاپنگ مالز میں اسی طرح کے اور سٹورز وغیرہ پر بھی جانے کا اتفاق ہو۱،وہاں بھی ایسی ہی صورتِ حال نظر آئی۔میرا مشاہدہ (جو غلط بھی ہو سکتا ہے) یہی ہے کہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں ہر دو جگہوں پر بھی یہی صورتِ حال ہے۔ وہاں صفائی کے کاموں اور سقایا یعنی آبِ زم زم کے کولروں اور سٹالز پر متعین افراد کے ساتھ دوسرے چھوٹے بڑے کاموں کے لیے بڑی تعداد میں جو سٹاف ڈیوٹی دیتا ہے ان میں بھی پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر سمجھی جا سکتی ہے جبکہ بنگالیوں اور جنوبی ہند کے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد میرے خیال میں بہت زیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوںہے؟اور پاکستانی کارکن اور محنت کش وغیرہ کہاں یا کن شعبوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔اس کا جائزہ لینادلچسپی کا حامل سمجھا جا سکتا ہے جس کا تفصیلی تذکرہ ان شااللہ آئندہ کسی وقت ہو گا۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.