علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ کی ڈومیسٹک لابی میں بیٹھے ہم کوئٹہ جانے والے مسافروں کے چہرے دیکھتے تھے، ان کے لباس کا جائزہ لیتے تھے۔ زیادہ مسافر شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے اور چند ایک پتلون کوٹ والے بھی تھے۔ میں نے اس دن ہدایت کے مطابق شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی تاکہ پنجاب سے کوئٹہ گئے ہوئے حجاموں سے مشابہت کسی ممکنہ نفرت سے محفوظ رکھے۔ جنوبی پنجاب سے سیکڑوں حجام کوئٹہ کو دبئی سمجھتے ہوئے بلوچستان کے مرکزی شہر میں کاروبار سجائے بیٹھے ہیں۔ بلاشبہ کوئٹہ ایک امیر شہر ہے جہاں ایران اور افغانستان سے ملحق چار بارڈرز سے ہونے والی سمگلنگ نے کاروباری طبقہ کو امیر ترین بنا دیا ہے۔ ایران اور پاکستان کو ملاتی سرحدیں تفتان اور ماشکیل جبکہ افغانستان سے ملحق سرحدیں چمن اور چاغی خاص سامان کی ترسیل کے لیے مشہور ہیں اور یہی درآمد کوئٹہ کے کاروباری افراد کو امیر ترین کرتی ہے۔ لاہور ائرپورٹ پر کوئٹہ جانے والے مسافروں میں کچھ خواتین اور لڑکیاں جدید فیشنی ملبوسات پہنے ہوئے تھیں اور انہی سے ہمیں حوصلہ ہوا کہ کوئٹہ بارے جو کچھ بتایا گیا تھا وہ آدھا سچ تھا۔ قومی ائرلائن کی پرواز چیک ان کے مراحل سے گزر کر ٹیک آف ہوئی تو ہم دھند کے حصار میں تھے۔ ایک گھنٹہ بیس منٹ کا بورنگ سفر کئی گھنٹوں پر محیط لگا۔ فورٹ منرو کے پہاڑ شروع ہوئے تو منظر صاف دکھائی دینے لگا۔ پہاڑوں کی سطح مرتفع اور نوکیلی چوٹیاں جہاز کی کھڑکی سے صاف دکھائی دیتی تھیں۔ کہیں کہیں ندیاں اور جھیلیں بھی نگاہ سے گزریں۔ بہت کم سبزہ دیکھنے کو ملا، شائد اس لیے کہ موسم برف چھڑک رہا تھا جس نے سبز رنگ کو سنہرے لبادے پہنا دئیے تھے۔ چند لمحے بعد کوئٹہ پہنچنے کا اعلان ہوا مگر پھر دوبارہ اناو¿نسمنٹ کی گئی کہ ائرپورٹ تربیتی طیاروں نے مصروف رکھا ہوا ہے اس لیے ابھی ہم ہولڈ پر رہیں گے ہم پندرہ منٹ تک کوئٹہ کے پہاڑوں پر گردش کرتے رہے، یہیں سے میں نے ہنہ جھیل دیکھی۔ نیلے پانی والی بیضوی جھیل۔ کوئٹہ انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترے تو گیلری میں مہمان نوازوں کی سرزمین آپ کا استقبال کرتی ہے کے بورڈ نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ہم اپنے ہی وطن میں اترے ہیں۔ قبائلی لوگ مہمانوں سے حسن سلوک روا رکھتے ہیں۔ ائرپورٹ سے باہر آئے تو سامنے سیرینا ہوٹل کا ڈرائیور ہاتھ میں ہمارے ہی نام کی تختی پکڑے ہمارا منتظر تھا جس کی پاکٹ پلیٹ پر اس کا نام منیر کنندہ تھا۔ ایک باوقار ڈرائیور کو اپنا سامان دیتے ہوئے میں ہچکچایا اور پھر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں کے چونچلوں میں ایک اعزازی پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی کمال ہے۔ ابھی دو گھنٹے قبل آواری کی گاڑی علامہ اقبال ائرپورٹ چھوڑ کر گئی اور پھر ایک اور اعزازی سواری مل گئی، ورنہ ہم مٹر گشت کرتے کسی ٹیکسی پر سیرینا پہنچ جاتے اور کوئٹہ کی گلیوں سے شناسائی بھی ہو جاتی۔ بزنس کلاس کی سہولتوں نے سیاحت کے ان رنگوں کو دھندلا دیا ہے جو ابتدا میں ہماری عادت ہو گئے تھے۔ ہوٹلوں کے کمرے اور بستر دیکھ کر نرخ طے کرنے، ڈھابوں سے چائے پینے، گرم پانی نہ ملنے پر ہوٹلوں میں شور شرابے اور چیک آو¿ٹ کے وقت پر بحثیں ہماری سیاحتی زندگی سے نکلے تو سفر پھیکا پھیکا ہوتا گیا۔ سیرینا چوک کوئٹہ کے ایک طرف آرمی سلیکشن سنٹر اور دوسری طرف ہائیکورٹ ہے۔ سامنے ہوٹل میں ہمارا قیام تھا جہاں کی غیر متوقع سکیورٹی نے کچھ اطمینان عطا کیا۔ ہوٹل پہنچتے ہی کوئٹہ کا جو خوف سنی سنائی باتوں نے طاری کر رکھا تھا اسے محفل غزل میں شرکت کر کے زائل ہوتا محسوس کیا اور پھر کوئٹہ گلگت اور سکردو کی طرح دوسرا گھر لگنے لگا۔ اگلی صبح اٹھے تو کوئٹہ بھیگا ہوا تھا۔ اطراف میں ایستادہ پہاڑوں پر دھند کا راج تھا اور ہواو¿ں میں سرد موت کی دستک، سیب اور چیری کے پیڑوں سے پتے جھڑ کر کھلے صحنوں اور سڑکوں پر بے آسرا اُڑتے پھرتے تھے۔ میں نے کسی بھی ہل سٹیشن یا پہاڑی شہر کی اتنی صاف فضا کبھی نہیں دیکھی تھی جیسی کوئٹہ کو عطا ہوئی۔ کہیں گرد یا آلودگی نہیں تھی۔ بارش نے شہر کو اس لمحے رومانس سٹی بنا رکھا۔ شہر کی قدرتی فصیل پر اترتی برفیلی چاندی کے گالے آسانی سے دیکھے جا رہے تھے۔ کوئٹہ سے منسوب دہشت گردی کی داستانیں، لسانی و صوبائی تعصب کے قصے اور فرقہ واریت کے افسانے اس لمحے دل و دماغ سے محو ہو چکے تھے۔ ہم ہائیکورٹ کے لان میں عین اس جگہ کھڑے تھے جہاں پر بم دھماکے سے درجنوں وکلا قتل ہوئے تھے اور متعدد سائل جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس برفیلے موسم نے وہ سب کچھ بھلا دیا تھا جسے ہم سوچنے لگ جائیں تو آہوں اور سسکیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ ہم کیسے بھول سکتے تھے کہ یہ شہر منیر احمد بادینی، دانیال طریر، شیخ ایاز، عطا شاد، طالب میر، علی بابا تاج ایسے بڑے تخلیق کاروں کا شہر ہے اور یہاں ماہ رنگ بلوچ اور علی احمد کرد جیسی توانا آوازیں پروان چڑھی ہیں۔ کوئٹہ میں جبل نور القرآن نام کے غار بنائے گئے ہیں۔ کوئٹہ کے شہری علاقے بروری کے قریب پچیس سال قبل بڑے بڑے غار بنائے گئے تھے جن کا مقصد قرآن پاک کے شہید ہو چکے نسخوں کو محفوظ کرنا تھا۔ پندرہ بڑے اور متعدد چھوٹے غاروں میں کلام مجید کے لاکھوں شہید نسخے جمع ہیں۔ ہم اس حیرت کدے کے بعد نصیر خان نوری کمپلیکس بھی گئے جہاں امن کا پیغام دیتے آثار قدیمہ کو دیکھ کر خون آلود جدت پر شرمندگی ہونے لگی۔ کوئٹہ کا لنجو پارک کوہ چلتن کے دامن میں واقع شہر سے پنتالیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ بلوچ اور پشتون قبائل کے ثقافتی رنگ اس دشت کو رونق عطا کرتے ہیں۔ ہم جب لنجو پارک پہنچے تو برف باری شروع ہو چکی تھی۔ محکمہ موسمیات والے بتا چکے تھے کہ اسی روز کوئٹہ کے بلند ترین مقام زیارت میں برف اترے گی۔ شائد غیر ملکی آلات کی وجہ سے محکمہ موسمیات سچ بولتا ہے یا اس لیے سچ بولتا ہے کہ موسم کا گرم سرد ہونا کسی سیاسی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتا۔
تبصرے بند ہیں.