خانہ خدا پہ پہلی نظر

98

خانہ کعبہ کا پہلا دیدار اور اس کا نشہ یا مزہ پھر ڈھونڈھے سے نہیں ملتا۔ جب مجھے پہلی بار بلاوہ آیا تو اپنے دل میں ارادہ باندھا کہ سرکار کریم کی والدہ کے نام کا عمرہ کروں گا۔ اب ایسے میں کوئی اپنی رائے دے اور رائے بھی کمال کی ہو تو میں نے اس کو بہرحال ارادوں کے اندر در اندازی محسوس کیا۔ دوسری بار جب عمرے پر گیا تو اپنی والدہ صاحبہ کے لیے عمرہ کر رہا تھا۔ طواف مکمل کیا۔ مسز نے کہا کہ وہ صرف طواف کرے گی اور سعی نہیں کرے گی یعنی عمرہ نہیں کرے گی کیونکہ وہ تھک چکی تھی۔ پاو¿ں سوج چکے تھے اور ویسے بھی عائشہ مسجد سے نیت کر کے آنا ہوتا ہے۔ باقی عمرہ کا اہتمام بھی تھا لہٰذا انہوں نے صرف طواف کعبہ کرنا تھا ہم دونوں طواف کر چکے۔
مسز نے کہا کہ وہ بچوں کی چیزیں ان کی انگوٹھی، گھڑی جو بھی پاس ہو گا خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ مس کر لے اس وقت تعمیر نو ہو رہی تھی صرف احرام اور عمرہ والوں کو خانہ کعبہ کے طواف والے سرکل میں آنے دیتے تھے۔ میں ان کے انتظار میں رک گیا۔ عربی سپاہی رکنے تو کسی کو دیتے نہیں بہرحال پندرہ منٹ انہوں نے مجھے برداشت کیا مگر ان کے کہے بغیر ہی میں نے آہستہ آہستہ چلناشروع کیا اور ایک طرف رک گیا۔ مسز حطیم والے حصہ میں کہیں داخل ہوئیں جب آدھا گھنٹہ گزر گیا تو میری پریشانی کی حد نہ رہی کہ یا اللہ میری والدہ کا عمرہ ہے طواف کر چکا، سعی کرنا باقی ہے۔ غلطی یہ کی اپنا موبائل بھی مسز کو دے دیا اور اس کا موبائل بھی۔ بٹوہ بھی اس کے پاس بیگ میں اور ماشاءاللہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ہم ٹھہرے کہاں ہیں یہ پتا ہے کہ ہلٹن یا منیلیم میں ہیں مگر کس ٹاور میں اور جانا کدھر سے ہے کمرہ نمبر کیا ہے۔ کچھ معلوم نہیں۔ مجھے گلزار بھائی نے کہا تھا کہ کسی وقت خانہ کعبہ کے اوپر دیوار سے چند فٹ اوپر دیکھنا اور ایک دوست نے جب خانہ کعبہ کی اندر سے Renovation کر رہے تھے، 90 دن اندر رہے تھے، انہوں نے فرمایا تھا کہ سدیس صاحب نے کہا تھا کہ خانہ کعبہ کی چھت یا اوپر نہیں دیکھنا۔ فرماتے ہیں کہ میری غیر ارادی نظر پڑ گئی میں وہ جلوہ بیان نہیں کر سکتا اور ان کا فرمان تھا کہ باہر بھی یہی حکم ہے لیکن یہ مجھے انہوں نے بعد میں بتایا۔
میری مسز کو جب کافی وقت گزر گیا تو میں نے خادمین شرطوں سے بات کی وہ کہیں فون نمبر دو اب فون نمبر تو ہم یاد کرنے یا لکھ کر رکھنے کے عادی نہیں بس فون میں محفوظ کیا اور نام لکھ لیا۔ اب میرا فون بھی تو مسز کے پاس تھا۔ میں نے کہا فون نمبر تو نہیں ہے۔ ان دنوں احرام کے بغیر کوئی مرد سوائے شرطہ ہو، خانہ کعبہ میں نہیں آ سکتا تھا۔ اچانک ایک 65/70 سالہ سمارٹ سے بزرگ خوش شکل شلوار قمیص میں ملبوس میرے برابر میں کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹے سے قد کا نوجوان تھا وہ بھی شلوار قمیص میں تھا مگر اس کی آنکھوںکا عجیب منظر تھا۔ تھوڑی سرخ اور نہ تکنے والی آنکھیں تھیں مجھے تو وہ انسانوں کے علاوہ کوئی مخلوق لگی تھی۔ میں نے ان بزرگوار سے کہا کہ میری مسز گم ہو گئی ہے میں پریشان ہوں وہ بولے کہ آپ فکر نہ کریں انہوں نے لباس پوچھا میں نے کہا کہ سب عورتیں سیاہ عبایہ میں ہیں۔ البتہ اس نے براو¿ن رنگ کا بیگ کندھے پہ لٹکایا ہوا ہے۔ انہوں نے کوئی دعا مانگی میں نے واپسی پر ایک دوست سے جب یہ ذکر کیا تو انہوں نے دعا بتائی۔
فَسَیَکفِی±کَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِی±عُ ال±عَلِی±م
مجھے یہ سن کر اس دعا کا Sound ایسا ہی لگا یعنی یاد آ گیا۔ حضرت صاحب دعا مانگتے مانگتے رک گئے اور مجھے کہتے ہیں آپ خود دعا کریں اور میری طرف دیکھنے لگ گئے۔ میں نے پنجابی میں ہی خانہ کعبہ کی چھت کی طرف دیوار سے دو تین فٹ اونچا دیکھ کر اپنے خالق کو مخاطب کیا اے پروردگار تو نے خود بلکہ تیرے نبی کریم نے بلایا ہے۔ تیرے گھر آئے ہیں ہم جیسے مسکینوں کمزوروں کے گھر کوئی آئے تو ہم جان نثار کر دیتے ہیں تو مالک ہے، خالق ہے تیرے اور تیرے
نبی کا مہمان ہوں خالی ہاتھ ہوں مگر تو میرے ساتھ یہ تو نہ کر، بھلا کوئی اپنے مہمانوں کے ساتھ اپنے محبوب کے بلاوے پر آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ ایسا بھی کرتا ہے۔ مہربانی کریں اور مجھ پر آسانیاں فرما دیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ قربان جاو¿ں پروردگار اور آقا کریم کی شان پر کہ کم از کم 60/70 فٹ اس سے بھی زیادہ لوگوں کا ہجوم طواف کرتے کرتے ہوئے لوگوں کا پاٹ سا گیا یعنی 60/ 70 فٹ جگہ درمیان بالکل خالی ہو گئی کوئی عورت اور مرد حرکت میں نہ رہا اور میری مسز خانہ کعبہ کی دیوار رکن یمانی سے بوسہ کر کے سیدھی باہر میری ہی طرف آ رہی تھی۔
میں نے فوراً ان بزرگوں کو کہا کہ وہ آ گئی ہیں۔ کہتے ہیں شکر ہے میں نے کھڑے کھڑے ان سے کہا کہ آپ کراچی سے ہیں کہتے ہیں، نہیں۔ میں نے پوچھا کدھر کے ہیں کچھ توقف اور سوچ میں جیسے مجھے اٹکتے ہوئے بتانے لگے فرماتے ہیں بمبئی سے ہوں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہاتھ پکڑا جیسے ریشم پکڑا ہو، میں نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میرے ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے۔ کہنے لگے وعدہ کریں کہ آپ میرے لیے دعا کریں گے۔ میں شرمندہ سا ہو گیا۔ انہوں نے بضد ہو کر وعدہ لیا میں نے وعدہ کیا میں نے اور میری بیوی نے اجازت چاہی اور نہ چاہتے ہوئے میں ان بزرگوں سے جدا ہوا۔ ان کے ساتھ جو نوجوان تھا وہ درمیان میں بھی بول رہا تھا کہ چلتے ہیں تو بزرگوں نے منع کیا کہ نہیں ان کی مسز ملے گی تو چلیں گے۔ بہرحال وہ بزرگ عجیب معجزہ اور تحفہ تھے۔ یاد رہے کہ جب مسز مل گئیں یا جب اُن سے محو کلام تھا ان کے ساتھ جو نوجوان تھا وہ بالکل غائب تھا میں نے پھر مدینہ میں ریاض الجنة میں نماز حاجت پڑھ کر ان کے لیے دعا کی اور اب تک کرتا ہوں۔ میں نے مسز سے کہا تم گئی تھیں چیزیں مس کرنے اور اتنا وقت لگا دیا وہ کہنے لگیں کہ حطیم سے باہر آنے کو دل نہیں چا رہا تھا اور خوب نوافل پڑھے اللہ سے دعائیں کیں۔ مجھے آج بھی وہ بزرگ یاد ہیں اور طواف کا ایک دم رک جانا 60/70 فٹ کی Space اور چار پانچ منٹ کے لیے اور اللہ سے دعاو¿ں کی قبولیت کا منظر یاد ہے۔ دراصل جہاں بھی یوں دعا توجہ مانگتی ہے میں پریشان تھا اللہ نے بزرگ بھی بھیج دئیے اور میری بات بھی سن لی اور اگر دعا کریں جیسے روزانہ کرتے ہیں کہ جگالی کی جا رہی ہے تو پھر توجہ بھی ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.