ایک کے بعد ایک انکشاف

67

پاکستان میں ہر گزرتے دن کے بعد کسی نہ کسی ایسے موضوع پہ بات ہوتی ہے کہ وہ بات کئی کئی روز پھر خبروں کی زینت بن جاتی ہے۔ حالیہ ایک بیان میں وزیر دفاع نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان میں کسی مغربی صوبے میں بسانے کیلئے پاکستان سے 10ارب روپے مانگے،اس پہ پاکستان نے گارنٹی مانگی کہ ٹی ٹی پی واپس نہیں آئیں گے اس پہ وہ خاموش رہے ۔

یہ بیان بہت سے سوال اُٹھا رہا ہے۔ مزید جو ایک اہم بات کہی کہ پاکستان کے دفاع کو اندرونی خطرات ہیں ہم باہر کے خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس کے لئے ہم پوری طرح تیار ہیں دہشت گردی کی بڑی وجہ وہ لوگ ہیں جو لا کر بسائے گئے وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا کہ عمران خان نے اسمبلی میں کہا تھا کہ 40 سے 45 ہزار لوگ آئیں گے اور اب یہ لوگ خیبر پختونخواہ میں بیٹھے لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔
اب یہ دو باتیں نہایت ہی اہم ہیں ۔پہلی کہ جو پیسے دے کے ٹی ٹی پی کو ملک سے باہر بھیجنے کی اس سے سوال پر اُٹھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں ہیں جو امن کو قائم نہیں رہنے دے رہی ،جس کا خمیازہ آج بھی صرف پاکستان کو ہی بھگتنا پڑتا ہے اور یہ بات ظاہر ہوتی ہے شاید پاکستان بے بس ہے۔

دوسرا جو عمران خان کا اسمبلی میں بیان کہ 40سے45ہزار لوگ آئیں گے اور اب وہ خیبر پختونخواہ میں لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں اس بات سے بھی بے بسی ہی جھلک رہی ہے یعنی پہلی بات کہ کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کسی بھی ایجنڈے کے لئے پیش نہیں کرتا کہ جس سے ملک کا امن تباہ ہو دوسری بات اگر ایسا کوئی فیصلہ لینا بھی پڑے تو اس کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ۔

مزید اہم بات کہ ہم بیرونی خطرات سے نمٹ سکتے ہیں اور اندرونی خطروں کی جانب اشارہ دیا تو یہ بات ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات کو قابو کرنے کے لئے پاکستان کے ادارے بے بس ہیں یہ ایک سوالیہ نشان؟جو کہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ 2001 میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد القاعدہ اور افغان طالبان کے کئی جنگجو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ گزین ہوئے ۔القاعدہ نے نظریاتی اور تنظیمی سطح پر ان گروہوں کو متاثر کیا اور شدت پسند گروہوں کومتحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،قبائلی علاقوں میں مختلف شدت پسند گروہ موجود تھے ،جیسے بیت اللہ محسود کا گروہ، 2007میں ان گروہوں نے اتحاد کیا اور ٹی ٹی پی کی تشکیل دی جس میں بیت اللہ محسود کو پہلا امیر بنایاگیا۔

ان تمام عوامل کے بعد جو حالات منظر پہ آئے اور جو چیزیں اثر انداز ہوئیں اس میں قبائلی علاقوں میں حکومتی کنٹرول اور لاپرواہی دکھائی دی،نتیجہ یہ ہوا کہ امن و امان کے مسائل نے شدت پسندوں کو منظم ہونے کا موقع دیا، پاکستان میں جاری فوجی آپریشنز نے بھی بعض قبائلی گروہوں کو حکومت کے خلاف اکٹھا ہونے پہ مجبور کر دیا ،اب ان تمام عوامل میں سیاسی جماعتوں نے کیا کردار ادا کیا؟
پاکستان میں امن کے لئے بعض سیاسی جماعتوں، خاص کر تحریک انصاف اور جمعیت علما اسلام نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی جسے بہت اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کہا گیا کہ یہ لوگ شدت پسندوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے جبکہ اگر دیکھا جائے تو ہر مسئلہ کا حل مذاکرات سے ہی ہوتا ہے اور اگر ان تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر میں اپنے الفاظ میں بیان کروں تو جو صورتحال رہی اس میں قبائلی علاقوں میں موجود سیاسی خلاء اور عدم توجہی نے زیادہ شدت پسندی کو فروغ دیا۔

اگر بین الاقوامی سطح پہ رہتے ہوئے بات کی جائے افغانستان میں امریکی جنگ نے شدت پسندی کو ہوا دی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس کا اثر محسوس ہوا ۔اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بعض حکام کے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسی ،،را ،، نے بھی ٹی ٹی پی کو مالی اور عسکری مدد فراہم کی تاکہ پاکستان کے امن و امان کو تباہ کیا جا سکے اور انتشار پھیلایا جا سکے۔
یہ بات بھی ہمیشہ سے زیر بحث رہی کہ مختلف ادوار میں بعض سیاستدانوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ مذہبی جماعتوں نے شدت پسندی کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر تقویت دی لیکن ان الزامات کے ٹھوس ثبوت عام طور پر نہ مل سکے۔
ٹی ٹی پی کا قیام اور تنظیمی ڈھانچہ کئی عوامل کا نتیجہ ہے جن میں علاقائی سیاست،شدت پسند نظریات اور عالمی مداخلت شامل تھے۔ کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کو کو براہ راست ذمہ دار قرار دینا حقائق سے ہٹ کے ہوگا لیکن شدت پسندی کے خلاف سیاسی اتحاد اور موثر پالیسی کی عدم موجودگی نے ٹی ٹی پی کو پنپنے کا موقع فراہم کیااور اب یہ سیاستدان اپنی بیان بازی سے صرف اور صرف میڈیا کی خبروں کی زینت اور اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.