عام طور پر میں مشاعروں میں کم ہی جاتا ہوں۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ان مشاعروں کے منتظمین ’’خاص طور‘‘ پر مجھے بلاتے ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ بقول یاروں کے پنجابی کے موجودہ شعری منظر نامے میں گنتی کے جو چند ’’سچی مچی‘‘ کے اچھے شاعر ہیں اُن میں کہیں ایک نام میرا بھی ہے۔ خاص طور پر جب سے نوجوان گلوکار رمضان جانی کی آواز میں میری دو پنجابی نظمیں ’’دل روندا اے‘‘ اور ’’اسی دل نوں مرشد جان لیا‘‘ کے علاوہ نامور ادیب اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی دوستوں کی کسی محفل میں پڑھی ہوئی پنجابی غزل ’’اتھرو تارا ہو سکدا اے / دکھ دا چارا ہو سکدا اے/ اکو واری فرض تے نئیں ناں / عشق دوبارا ہو سکدا اے‘‘ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی ہیں۔ رمضان جانی کے گائے ہوئے گیت ’’دل روندا اے‘‘ پر تو عہد حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار استاد محترم عطاء الحق قاسمی نے روزنامہ جنگ میں 2 اکتوبر 2022ء کو اپنے کالم بعنوان ’’ابرار ندیم اور رمضان کا دل روندا اے‘‘ میں استادانہ شفقت سے کام لیتے ہوئے کھلے دل سے خاصی پذیرائی بھی کی تھی جو میرے لیے ایک اعزاز کا درجہ رکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں ’’میں جب یہ گیت کاغذ پر اتار رہا تھا مجھے لگتا تھا یہ آج کے کسی عاشق، کسی شاعر کا کلام نہیں بلکہ یہ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ، دکھوں کی وہ لہر ہے جس نے ایک نیا جنم لیا ہے اور ابرار ندیم کے بطن سے ظاہر ہوئی ہے میں نے یہ نظم جتنی بار پڑھی ہے مجھے ہر دفعہ لگا کہ اس میں بیان کیے گئے دکھ ایک شاعر کے ہجر کی داستان ہی نہیں بلکہ ہمارے کچے گھروندوں کی دیواروں سے ٹکرانے والے نوحے ہی ہیں یہ نوحے ہماری لوک شاعری کا حصہ ہیں مگر جنہوں نے یہ نوحے لکھے وہ بھی انہی کی طرح گمنام ہیں جن کے حوالے سے یہ نوحے لکھے گئے۔ ابرار ندیم، اللہ تمہیں لمبی زندگی دے اور عزتوں سے نوازے، ہمارا یہ رونا اور کرلانا اور اس میں پھر غم و اندوہ اور جذب و مستی کی آمیزش نے پوری نظم کو لوک شاعری میں تمہارے نام سے منسوب کر کے امرکر دیا ہے! تم بہت خوش قسمت ہو‘‘۔ رہی سہی کسر افتخار عارف اور ظفر اقبال کے بعد عہد حاضر کے نمائندہ اور مقبول ترین شاعر عباس تابش کے ان الفاظ نے کر دی ’’دل ابرار ندیم دی شاعری نال جُڑ جُڑ جاندا اے، ابرار بالکل وکھرا شاعر اے ساڈی رہتل وچ ایہدیاں جڑاں بوہت ڈوہنگیاں تے مضبوط نِیں۔ مینوں لگدا بئی مستقبل دے وڈے شاعراں وچ ابرار ندیم دا ناں ضرور شامل ہووے گا‘‘ عباس تابش صاحب نے تو وضع داری نبھاتے ہوئے اپنی اس رائے میں مستقبل کے امکان کی بات کی تھی۔ مگر ان کی اس رائے کے بعد سچی بات ہے میں نے تو اسی وقت اپنے آپ کو ناصرف ایک بڑا شاعر مان لیا تھا بلکہ یہ ذہن بھی بنا لیا تھا کہ اب کوئی ’’مائی کا لال‘‘ مجھے اعزازیہ والے ملکی و بین الاقوامی مشاعروں میں شریک ہونے سے نہیں روک سکے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ نوجوان گلوکار رمضان جانی تو میرے گیت گا کر راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ پڑوسی ملک بھارت میں بھی سنگیتا مترا، سنیل مونگی اور مسافر جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں نے میرا اردو کلام گا کر مجھے اچھا خاصا مشہور کر دیا۔ مگر مشاعروں کے دعوت نامے تو دور کی بات اس ’’مشہوری‘‘ کا مجھے تاحال ایک ٹکے یا کسی چھوٹے موٹے ایوارڈ کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس بات کا دکھ اور ملال اپنی جگہ کہ گذشتہ پچیس تیس برس سے ادب کی ’’مفتو مفت‘‘ مشہوری کے باوجود ابھی تک ہم جیسوں کا کہیں کوئی اعتراف نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ایسے ایسے دو نمبر لوگوں کو ادبی تقریبات اور مشاعروں میں سٹیج پر پھولوں کے ہار پہنا کر نوازا جاتا ہے جن کا شعر و ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے میں جب خوبصورت لب و لہجے کے شاعر اور ہمارے دوست قمر رضا شہزاد بھی بھولپن سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر اس مافیا کا دفاع کرتے ہیں تو مزید دکھ ہوتا ہے۔ قمر رضا شہزاد فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں ’’ممکن ہے شاعری کی دنیا میں شاعر کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جاتی ہوں لیکن ایک بات یاد رکھیں شعر کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ کچھ ہمارے جذباتی شاعر مشاعرے میں نہ بلائے جانے پر سخت رد عمل دیتے ہیں اور اس کا ذمہ دار مشاعرے میں شریک ہونے والے شعرا کو سمجھتے ہیں حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اگر یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ کچھ ایسے شاعر ہیں جو کسی دوسرے اچھے شاعر کو مشاعرے میں شریک نہیں ہونے دیتے ان کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو۔ ویسے بھی مشاعرہ پڑھنا اور مشاعرے میں اپنے شعر کا جادو جگانے کا ہنر ہر شاعر کے پاس نہیں ہوتا۔ جن شعرا کو خدا نے یہ ہنر دیا ہے ان کی قدر کی جانی چاہیے کہ وہ اس تہذیبی اقدار سے محروم ہوتے ہوئے معاشرے میں لوگوں کو بارود کے بجائے حرفوں کی طرف لا رہے ہیں مشاعرے میں شریک نہ ہو سکنے پر غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ مشاعرہ تو صرف ایک ذریعہ ہے جو آپ کے شعر لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ذرائع ہیں جو شعر کو بہت تیزی سے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ آ پ کا شعر ایک لمحے میں پوری دنیا کے ادب ذوق لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ مشاعروں میں شریک ہونے والے شاعروں پر غصہ نکالنا چھوڑیے۔ اچھا شعر کہنے کی کوشش کی جائے۔ شعر تو کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تک پہنچ ہی جائے گا اور اگر اس میں طاقت ہو گی تو اسے کسی سفارش یا واہ واہ کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ وہ ازخود لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لے گا۔ سینئرز کی عزت کیجئے کہ انہوں نے یہ شعر کی شمع آپ کے سپرد کی ہے جونیئرز سے محبت کیجئے کہ آپ یہ شمع انہیں دے رہے ہیں۔ جنہوں نے اس کی حفاظت بھی کرنا اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچانا بھی ہے۔‘‘ قمر بھائی! گستاخی معاف! بلاشبہ اچھے شعر کا راستہ نہیں روکا جا سکتا لیکن کیا آپ اس سے انکار کریں گے کہ البتہ ہمارے یہاں اچھے شاعر کا راستہ ضرور روکا جاتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا ہمارے ملک میں معاوضہ پر مشاعرہ پڑھنے والے صرف گنتی کے پندرہ بیس شاعر ہی اچھے ہیں جو اتفاق سے بیورو کریٹ بھی ہیں یا اُن کی ان مشاعروں کی انتظامیہ تک خوب رسائی ہے۔ یہ بھی بتائیے کہ دراصل اچھے شعر کی تعریف کیا ہے اور کیا معاوضوں والے ان مشاعروں میں شریک سبھی شعرا آپ کی بیان کردہ تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ کیا کسی اچھے شاعر کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کا کلام مشہور ہو جائے اور اس کے بعد اسے مشاعروں میں شرکت کے عوض ملنے والی ’’روٹی روزی‘‘ سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی فرما دیں کہ تہذیب حافی اور علی زریون جیسے شعرا اپنے کلام سے کس قسم کے ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر آپ واقعتا ان کی شعری خدمات کے معترف ہیں تو یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ ان جیسے ’’اعلیٰ‘‘ اشعار کیوں نہیں کہتے حالانکہ آپ تو تہذیبی روایات کے حامل ایک اعلیٰ پائے کے قادر الکلام شاعر ہیں۔
تبصرے بند ہیں.