2025ء تبدیلیوں کا سال، سرخ دائرہ بے مقصد مذاکرات

32

2024ء گزر گیا، کیسے گزرا، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جیسے گزرنا تھا ویسے ہی گزرا، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے باعث عام انتخابات 8 فروری کو ہو گئے لیکن ان میں بھی فارم 45 اور 47 کی میگنیاں ڈال کر متنازع بنا دئیے گئے، مسلم لیگ ن اور پی پی نے پی ٹی آئی کو حکومت سازی کی دعوت دی مگر الیکشن کمیشن نے شیڈول کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا، پارٹی نشان بھی چھن گیا مخصوص نشستیں بھی نہ مل سکیں جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اتحادی حکومت بنا لی، آئینی اور جمہوری طریقہ یہی تھا تاہم اس کے بعد جو دور ابتلا شروع ہوا اس نے ایک دن بھی حکومت کو چین نہ لینے دیا، جلسوں کی ناکامی کے بعد خیبر پختونخوا کے خود ساختہ ’’محمود غزنوی‘‘ نے اسلام آباد پر مسلح حملے شروع کر دئیے ہر بار راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ 26 نومبر منحوس ترین دن جب پی ٹی آئی کے مسلح دستوں (جن میں افغان جنگجو بھی شامل تھے) نے بشریٰ بی بی اور کفن بردوش وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں وفاقی دار الحکومت پر ہلہ بول دیا۔ مجبوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کریک ڈائون کرنا پڑا۔ ’’چاند بی بی‘‘ گنڈا پور کے ہمراہ پیر سوہاوا کے راستے فرار ہو گئیں مسلح دستے بھی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے، بانی پی ٹی آئی کی آخری کال بھی ناکام ہوئی، پی ٹی آئی نے ہزاروں، سیکڑوں درجنوں اور آخر میں 12 کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، لاشیں نہ دکھا سکی کیونکہ وہ سارے فلسطینی تھے جو شام میں شہید ہوئے تھے ہر طرف سے ناکامی کے بعد دسمبر میں حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی گھٹنے ٹیکنے کے مترادف تھی۔ بے مقصد مذاکرات پہلا رائونڈ 23 دسمبر کو ہوا پی ٹی آئی کی ٹیم سے تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ مانگا گیا جیبیں خالی تھیں 2 جنوری تک کی مہلت اس دن بھی جیبیں جھاڑ کر دکھا دیں، بانی سے مشورے کے بعد مطالبات پر بات ہو گی۔ مذاکرات پھر ایک ہفتہ کے لیے ملتوی سیانوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ دینے سے اس لیے گریزاں ہے کیونکہ لوگ اسے این آر او کہیں گے جب لوگ کہیں گے تو ٹھیک ہی کہیں گے۔

2025 کا سورج طلوع ہو گیا۔ دنیا بھر میں جشن 31 دسمبر کی رات 12 بجتے ہی آتش بازی، اجتماعات، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے گورنر ہائوس میں 45 منٹ تک آتش بازی شہر میں 13 مقامات پر دھرنے سڑکیں بند، شہر ویران دفاتر سنسان، کرم ایجنسی میں جرگہ کا کراچی کے دھرنوں سے کیا تعلق۔ کراچی میں پرانی نمائش اور دیگر مقامات پر پولیس سے جھڑپیں پولیس دھرنے ختم نہ کرا سکی، معاہدہ ہو گیا۔ جرگے کے ممبران گھر پہنچ گئے۔ کراچی کے دھرنے ختم نہ ہو سکے، ہم زندہ قوم ہیں اسی طرح جشن مناتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ ٹل گیا۔ چھوڑیے رات گئی بات گئی نیا سال شروع ہو گیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے خان صاحب جیل سے باہر نہ آ سکے کب تک اندر رہیں 31 دسمبر کی رات چھ سات ٹی وی چینلوں پر خان کے عشاق اینکر پرسنز نے نجومیوں کو بلا لیا، ایک ہی سوال خان باہر کب آئیں گے؟ نجومی بھی عجیب مخلوق ہے، زمین کے مسئلے حل نہیں ہوتے ستاروں پر کمندیں ڈالے رہتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ ان سے بڑے تنگ تھے۔ ’’ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا، وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں‘‘ ایک نے کہا 5 جنوری سے 24 فروری اہم دوسرے نے 10 مارچ تک بات بن جانے کی خبر سنائی۔ خاتون گویا ہوئیں پہلے 6 ماہ خطرناک سکون سے گزر گئے تو پورا سال آرام تاہم حکومت کو خطرہ ہے (پہاڑی نسل کے اینکر کی باچھیں کھل گئیں) دوسری خاتون نے ستاروں کے نام گنواتے ہوئے کہا 12 جنوری سے خان کا بُرا وقت ختم ہو رہا ہے۔ (اینکر خوشی سے اچھل پڑے) بات کاٹنا چاہتے تھے مگر خاتون نے کہا خان نے اس دوران فائدہ نہ اٹھایا تو مئی کے بعد صورتحال بد ترین ہو جائے گی۔

خان کو شاید بُرے وقت کا احساس ہو گیا ہے کہ وہ سرخ دائرے کی زد میں آ گئے ہیں خطرناک مقدمات قطار اندر قطار ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ 9 مئی سب سے خطرناک اسے فالس فلیگ آپریشن کہتے تھے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف نے 19 مجرموں کی رحم کی اپیلوں پر باقی دو چار ماہ کی سزائیں معاف کر دیں، رہا ہو کر باہر نکلے تو خان کے حق میں نعرے، پشاور پہنچے تو سی ایم ہائوس میں کسی مینا خان نے انہیں پی ٹی آئی کا ہیرو قرار دیتے ہوئے ہار پہنائے انعام و اکرام سے نوازا اور نعروں میں رخصت کیا۔ حماقت اور کسے کہتے ہیں۔ اعتراف کر لیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں قوم یوتھ کے واریئرز ہی شامل تھے۔ باقی مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد ہونے کا خطرہ، منصوبہ سازوں کے بُرے دن بھی قریب، شنید ہے فیض حمید نے سلطانی گواہ بننے کی مشروط حامی بھر لی، معاملہ خدانخواستہ 1971ء کی طرف جا رہا ہے۔ متلون مزاج ہیں پل میں تولہ پل میں ماشہ، وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے کے عادی، 31 جنوری کے بعد ٹرمپ انکل کو بھی آزمایا جائے گا (رچرڈ گرینئل یک دم خاموش ہو گیا، اس کا ایکس اکائونٹ منڈی بہائوالدین سے کوئی صاحب چلایا کرتے تھے گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہو گئے) ایک ’’ان‘‘ کے قریبی دوست نے کہا ممکن ہے مذاکرات جنوری کے وسط ہی میں فلاپ ہو جائیں تاہم خان سال کے پہلے تین ماہ کے دوران کسی ڈیل کے ذریعہ باہر آ جائیں لیکن وہ جہاں بھی رہیں گے نظر بند رہیں گے۔ خان نے بے پرکی اڑائی یا حکومت کو آپشن دیا کہ مجھے 3 بار پیشکش ہو چکی خاموش رہنے کا وعدہ کرو باقی زندگی بنی گالہ میں چین سے بسر کرو، بنی گالہ میں نظر بند رہو گے خان کے بقول انہوں نے پیشکش مسترد کر دی۔ کس نے پیشکش کی، نام نہیں بتایا۔ ’’انہوں‘‘ کو کانوں کان خبر نہیں۔ رانا ثناء اللہ نے واضح کر دیا کہ کسی نے ایسی پیشکش نہیں کی۔ ٹی وی کے وہی چھ سات صحافی ڈھول بجا رہے ہیں تاریخیں دے رہے ہیں کہ خان آوے ای آوے، جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے ذرائع کے مطابق اس میں صرف دو مطالبات رکھے گئے ہیں اول بانی پی ٹی آئی سمیت کارکنوں کی رہائی، دوئم 9 مئی اور 26 نومبر پر عدالتی کمیشن کا قیام، دوسرے مطالبہ سے سینئر ترین ججوں کی شرط ختم کر دی گئی۔ آخری سوال خان باہر آ کر خاموش رہیں گے؟ جواب ایبسولیوٹلی ناٹ گزشتہ دنوں انہوں نے مبینہ طور پر سسٹم کو پھر ٹکر مارنے کی کوشش کی ہے۔ فرمان عالی شان 31 جنوری تک مجھے رہا نہ کیا گیا تو کے پی اسمبلی تحلیل، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے لیے حکم دوں گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس کے بعد انتخابات پر مجبور ہو جائے گی اور میں جیت کر پھر وزیر اعظم بن جائوں گا۔ اوپر سے آواز آئی جو چاہو کرو ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، نا امیدیوں کا ہجوم خواب چکنا چور، سزائیں کسی ایگزیکٹیو آرڈر سے ختم نہیں ہوں گی اقتدار کی فاختائیں اڑ گئیں آئندہ برسوں میں بھی سیاست اور اقتدار کی دیوی ان سے روٹھ گئی ہے۔

تبصرے بند ہیں.