تاجر برادری کا گرینڈ الائنس کی طرف قدم

92

ہمارے پورے نظام میں ایک بری روایت یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے انتخابات کے موقع پر جب کوئی گروپ شکست آلودہ ہو جاتا ہے تو اس کے اپنے اور غیر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اب شکست میں ایک نہیں کئی وجوہات ہوتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی بڑا گروپ یا گروپ کے بڑے نام ہمیشہ جیتیں گے۔ کہیں وہ اپنی ہی کی گئی غلطیاں کہیں بڑے بلنڈر، کہیں بڑے غلط فیصلے، کہیں آپسی یکجہتی کا نہ ہونا تو کہیں اندرونی اختلافات بھی وجہ شکست بن جاتے ہیں۔ ایک صدی کا فائونڈر اگر لاہور چیمبر میں طویل حکمرانی کرتا نظر آیا تو سمجھ لیا گیا کہ فائونڈر کبھی نہیں ہار سکتے۔ اس بار وہ اپنی ہی بنائی غلط حکمت عملی یا دوسرے کئی عوامل سے ہار گئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ ٹریڈ سیاست سے آئوٹ ہو گئے۔ ایک مثال دوں گا کہ پہلوانی کے اکھاڑے میں کئی پہلوان رستم بنتے اور پھر بار بار گرتے رستم بنے۔ میں نے اپنے گزشتہ دو تین کالموں میں فائونڈر کی لاہور چیمبر کے انتخابات میں شکست کے بارے میں چند نکات کی نشاندہی کی تھی اور ان خدشات کا اظہار بھی کیا تھا کہ کیا فائونڈر دوبارہ اپنے چڑھتے سورج کو دیکھ پائے گا؟ جبکہ یہاں تک کہا جا رہا تھا کہ اب یہ دوبارہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ میں تاریخ کا طالب علم نہیں اور جنہوں نے تاریخ پڑھی ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ اگر لیڈرشپ کا فقدان نہ ہو تو بڑی بڑی تباہ شدہ قوموں نے پھر سے عروج پکڑا، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کبھی ہارنے والے جیت جاتے ہیں تو مسلسل فتح دیکھنے والے ہار کے نشے سے بھی گزرتے ہیں۔ چند روز قبل پیاف کے رہنما سہیل لاشاری سابقہ صدر لاہور چیمبر کے ساتھ ایک ملاقات میں ان کا یہ موقف سامنے آیا کہ ٹریڈ میں انتخابی گروپ بندی ایک اچھی روایت ہے مگر ایک دوسرے کے خلاف مستقل گروپنگ کرنا کم از کم تاجر برادری کے مفاد میں نہیں۔ہارنے اور جیتنے والے ایک چھت تلے متحد ہوکر حکومت کے ساتھ اپنے مسائل اور معاشی معاملات اور اصلاحات پر بات کریں ہم سفید کالر لوگ ہیں آج نہیں تو کل ہم نے پھر ایک جگہ اکٹھے ہونا ہے لہٰذا اس سلسلے میں فیڈیشن سے صوبائی سطح تک بشمول تمام چیمبرز سب کو ایس ایم تنویر، انجم نثار، علی حسام کے ساتھ مل کے ایک ایسے خلاء کو دور کرنا ہے جو تمام تاجر برادری کے فائدے میں ہو۔ وہ چاہے کوئی گروپ ہو۔ آج متحد ہونا ہم سب کے لئے ہی نہیں ملک کی معیشت کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پی بی جی کے چیئرمین ایس ایم تنویر نے فائونڈر کی قیادت کو فیڈریشن ریجنل آفس لاہور میں بلا کر تاجر برادری کو یہ نوید دی کہ پاکستان کے معاشی استحکام اور معیشت کی طرف بہتری کے لئے ایک بڑے گرینڈ الائنس کی طرف ضرور جائیں گے۔ ایس ایم تنویر پاکستان کی ٹریڈ باڈی کا ایک بڑا نام جو بھائی جان ایس ایم منیر (مرحوم) سے ہوتا افتخار علی ملک تک جنہوں نے تاجروں کو ہمیشہ ایک چھت فراہم کی اور اب ایس ایم تنویر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹریڈ گروپ کی سیاست اور انتخابی رنجشوں کو ختم کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک آج وقت کا یہی تقاضا ہے کہ سب اکٹھے ہو جائیں کیونکہ اس ملک کی ٹریڈ کی باگ ڈور آپ سب کے ہاتھ میں ہے۔ آپ ہی ملک کی سب سے بڑی معاشی حب ہیں جس کے دروازے کی چابی آپ کے ہاتھ میں ہے اور اس وقت ضرورت ہے ایسے گرینڈ الائنس کی جس میں تاجروں کو ایک ہونا پڑے گا۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں فیڈریشن آف چیمبر کے لاہور آفس میں دیکھنے کو ملی جہاں پی بی جی فائونڈر والوں کو اس عزم کے ساتھ دعوت دی کہ آئیں ہم اس بڑے پلیٹ فارم پر نہ صرف مشترکہ کام کریں گے بلکہ تمام تاجروں کو یہ پیغام دیں کہ ہم سب ایک ہیں۔ اس سلسلے میں پیاف اور ایل بی ایف کو بھی دعوت دی جا رہی ہے کہ اب انتخابی سیاست سے باہر نکل کر تاجروں کے مفاد میں بڑے کام کئے جائیں۔ اس سلسلے میں میری ایس ایم تنویر سے بات بھی ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں روز اول ہی سے کہہ رہا ہوں کہ معاشی معاملات کے سلسلے میں ہمیں اکٹھے ہو کر ایک مشترکہ آواز بننا ہے یہ پی بی جی دونوں،پیاف فائونڈر یا انجم نثار، علی حسام یا پروگریسو گروپ کے ذاتی مفادات کا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستان کو آج بڑے معاشی مسائل جن میں سب سے بڑا مسئلہ انرجی سیکٹر ہے کہ ہم نے بجلی کے بھاری بلوں سے عوام کو بچانے کے لئے آٹھ پرسنٹ پر لانا ہے آگے ہمارا بڑا ٹارگٹ زراعت کی پرموشن جس کی بنیاد پر معیشت کو کھڑا کرنا اور ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری، رئیل اسٹیٹ یعنی ان اداروں کے مسائل کو حکومت کے ساتھ مل کر حل نکالنا ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوگا جب تمام تاجر برادری مشترکہ پالیسی اپناتے ہوئے ایک بڑے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔ آج نہیں تو کل کو ہم نے ایک دن پھر اکٹھے ہونا ہے تو پھر دیر کسی بات کی، سب بسم اللہ کریں، اختلافات صرف انتخابات کی حد تک رہنے چاہئیں۔ چلتے چلتے سابق صدر لاہور چیمبر کاشف انور کا موقف بھی دیکھتے چلیں کہ بزنس کمیونٹی کا متحد ہونا اور ایک بڑے پلیٹ فارم سے حکومت کو پیغام جانا بہت ضروری ہے۔ حکومت تبھی ہماری بات مانے گی جب ہم سب ایک ہوں گے۔ آج پاکستان اپنے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس مشکل دور سے نکالنے کی کنجی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ آئیں! سب مل کر باہمی اختلافات کی بجائے باہمی تعلقات کا بھی دروازہ کھولیں۔ یہ دروازہ کھلے گا تو بند تالا بھی کھل جائے گا۔ دوستی کی فضاء کے لئے کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا تو پھر سب کو بسم اللہ کرنا ہوگی۔
اور آخری بات…

میرے ذرائع نے خبر دی ہے کہ انتخابات سے قبل فائونڈر اور پیاف میاں شفقت علی کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ صرف اب ایک کاغذ کی حد تک محفوظ ہے جبکہ فائونڈر کے اہم رہنمائوں نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2026ء میں ہونے والے انتخابات میں وہ اکیلے میدان میں اتریں گے اور ہو سکتا ہے کہ فائونڈر اور پیاف انجم نثار گروپ پھر سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ باقی اللہ خیر کرے…

تبصرے بند ہیں.