فصل ِہلاکت…

67

اس وقت دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے بہت توجہ سے دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے، اپنے ملکی حالات کو بچانے، سنبھالنے، سدھارنے کے لیے ۔ دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی! نہایت غیر معمولی غیر متوقع تبدیلیاں اور پسِ پردہ کا ر فرما قوتوں کے عزائم صرف مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کو نہیں، پاکستان مسلم دنیا میں اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ایٹمی قوت کا مالک انتشار، عدم استحکام، معاشی بد نظمی، کس مپرسی، سیاست بازی،( شام جیسی ) فرقہ وارانہ کشمکش کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔الجھنیں فوری سلجھانے کی بجائے پارہ چنار کا مسئلہ کراچی کا امن خراب کرنے کا ذریعہ کیوں بنے؟ وہ پاکستان جو امتِ مسلمہ کے سر کا تاج، کمزور مسلم ممالک کی آواز تھا، آج خود اپنے لیے بھی کسی عالمی فورم پر ، تنازعہ حل کرانے، صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسلام آباد کے خوبصورت تجارتی مراکز میں بھیک مانگتے بہرو پیے بصد معذرت، دنیا میں پاکستان ہی کی ایک تصویرمحسوس ہوتی ہے۔

دردمند پچھلی نسل رخصت ہو گئی۔ نئی نسلی امت تو کیا، خود اپنی تاریخ جغرافیے سے بھی بے بہرہ ہے۔ کھوکھلی جذباتیت، نعرہ بازی، بھیڑ چال، کالی سکرینوں کی پروردہ، محنت سخت کوشی سے نا آشنا! عظیم الشان اسلامی تاریخ نہ بھی پڑھ سکے تو کم از کم 2011 ء کی عرب بہار ہی سیاق و سباق، تاریخی تناظر میں ان تمام مسلمان ممالک کو پڑھ لے۔ ہم تیزی سے انہی حالات کی طرف لپک رہے ہیں۔ انتشار، خانہ جنگی، مدبر سیاست کاری سے عاری پیسے کی پجاری قیادت کی صفوف۔ کم از کم غزہ اور شام کو پڑھیے، سمجھئے۔ بین الاقوامی سیاست، بڑی طاقتوں کے مکر و فریب، قیامت خیز ظلم ڈھانے والی کٹھ پتلیوں کے پیچھے کار فرما مغربی ہاتھ! جمہوریت، انسانیت، ہیومنزم، جینوا کنونشنز، عالمی عدالت ہائے انصاف، عورتوں بچوں کے بہی خواہوں کے حقیقی چہرے، یہ غزہ ، شام نے دنیا کی تمام سکرینوں پر دکھا دیا ،پڑھا دیا۔ شرمناک انسانیت سوز مظالم سے لبالب بھری جیلیں جہاں انسان داخل کیے جاتے اور ڈھانچے، لاشیں برآمد ہوتی رہیں۔ اس سے نہ امریکہ بری ہے نہ اس کے محبوب کارندے حکمران! سیاہ فام امریکی آبادی سے پوچھ لیجیے یا گوانتا مو، با گرام، ابوغریب سے۔ اور اب قیامت خیز، انسانیت سوز زندان خانے شام اور اسرائیل کے۔ یہ ہے اکیسویں صدی کی چکا چوند، آسمان کو چھوتی ترقی! بش جونیئر( دہشت گردی کی جنگ کا موجد) اور اب ٹرمپ کا یہ کہنا کہ یہ تہذیب اور خونخواری، وحشیانہ پن مابین جنگ ہے۔ یعنی مہذب ان کے سوا کوئی نہیں۔ چیتھڑے بنی لاشیں اور تاخت و تاراج آبادیاں جن کی ہیں، وہ مسلمان تو وحشی اور خونخوار ٹھہرے اور یہ خود مہذب! شام کا حشر (بشار اور حافظ الاسد کے 54 سال) اور اس کے مددگاروں کی ساری داستانیں خود گارڈین، بی بی سی، سی این این نے مجبوراً سناڈالیں۔ اس دوران غزہ میں اسرائیل کی کار فرمائی صرف ہسپتالوں کی دیکھ لیں، ہم شہروں، بستیوں کی بات نہیں کرتے۔ ہسپتال جنگی جرائم کے دائرے میں آتا ہے۔ غزہ کے 33 ہسپتال مکمل تباہ، غیر فعال کر دیئے اسرائیلی فوج کی بمباریوں نے۔ ٹینکوں سے محاصرے اور گولہ باری، آگ لگا تے رہے ، لیبارٹریاں، آپریشن تھیٹر، طبی آلات، ہمہ نوع وسائل کچرا بنا دیئے۔ یو این نے بھی کہہ ڈالا کہ یہ جنگی جرم ہے، طبی قتل (Medicide) ہے۔ WHO کا سربراہ ٹیڈ روس بھی چلاّ اٹھا’ ہسپتالوں پر حملے بند کرو‘۔ ٹیڈ روس خود بھی یمن ایئر پورٹ پر اسرائیلی حملے کی زد میں آکر بال بال بچا! کمال عدوان شمالی غزہ کا آخری فعال ہسپتال اب تباہ کر کے طبی عملے سمیت 40 2 کو کپڑے اتروا کر گرفتار کر کے لے گئے۔ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے ہیں۔ انھیں لاٹھیوں سے شدید پیٹا اور کپڑے اتروا کر نا معلوم منزلوں کی طرف لے گئے۔ جب ڈاکٹر ابو صفیہ کا بیٹا شہید ہوا توانھوں نے جنازہ خود پڑھا کر ہسپتال کے احاطے میں دفن کر کے کہا،’ ہم تو انسانیت بچانے پر مامور تھے۔ اسرائیلی فوج نے سب کچھ جلا دیا، ہمارے دل بھی جلا دئیے۔ میرا بچہ مارڈالا۔یہ عمداً قتل ِعام جاری ہے۔ میں اپنی ڈیوٹی سے کبھی دستبردار نہ ہوں گا۔ یہ تباہ کن صورتحال ہے۔ عالمی برادری سے ہمیں مدد درکار ہے‘۔

اسلام کو وحشیانہ کہنے والوں کی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی جمہوریت اسرائیل اور دنیا میں بابائے جمہوریت امریکہ کے عام تباہی کے لا منتہا ہتھیاروں کی برسات ہیروشیما، ناگا ساکی، پہلی دوسری جنگ عظیم کی بمباری کو مات دے گئی۔ لاشوں سے آنکھیں، گردے، دل، جگر، پیوندکاری کے لیے نکال کر شاندار عالمی طبی تجارت مسلم مقتولین کے اعضاء سے کر رہیں ہیں۔ یہ ہے ’جمہوریت‘ کا حسین چہرہ۔ شام، فلسطین والوں کی تو سبز، نیلی خوبصورت آنکھوں کی پیوند کاری مغرب کی طبی ترقی میں نگینہ بنا کر اس (کریہہ) تجارت نے جڑدیں! عام تباہی کے انہی ہتھیاروں کے نام پر امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی۔’ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی‘۔ اس پوری سرزمین کا ہر درخت اور پتھر (احادیث کے مطابق) پکار اٹھے گا۔میرے پیچھے یہودی چھپا ہے! آخر ایسا کیوں نہ ہو سید نا عیسیٰؑ کے آمد پر! پتھروں، درندوں کے بھی سینے شق ہو گئے ان کے مظالم کی سفاکی، سربیت کی حدّت و شدت پر۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کارندے مائیک کے سی نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ اسرائیلی حکومت کی حمایت اور اس کے مطالبات پورے کرتے چلے جانا یہ سب کچھ غلط، ناقابل برداشت اور شرمناک ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن مہم جوئی۔ اس نے ایسا کبھی کہیں نہیں دیکھا!

ایک نظر شام پر بھی۔ بشار الاسد سے پہلے حافظ الاسد نے 1982 ء میں شام کے چوتھے بڑے شہر حماۃ کو 27 دن محصور کرکے اخوانی بغاوت کو کچلا بمباری کرکے۔ عام شہری نشانہ بنے ہزاروں کی تعداد میں۔ ٹارچر، ماورائے عدالت قتل، لاپتگی ڈھائی لاکھ آبادی پر برسے۔ دونوں باپ بیٹا قصابی میں طاق رہے۔ جنوری 2014 ء میں شامی فوج سے نکل بھاگنے والے فوٹو گرافر نے 53ہزار لاشوں کی تصاویر سمگل کیں جو اسدی قید خانوں میں مارے گئے۔ یہ تصاویر مارچ 2015ء میں ہیومن رائٹس واچ کو،شامی تنظیم نے حوالے کیں۔ یہ ہولناک تصاویر اور پس پردہ داستان دنیا کے سامنے آچکی تھی۔ عالمی چوہدریوں کو،’ اگر مردے بول سکتے: شامی زندانوں میں ٹارچر اور قتلِ عام‘ کے عنوان سے ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیم کا یہ تصدیقی ہولناک المیہ نظر نہ آیا؟ گارڈین، نیویارک ٹائمز، سب نے یہ سب کچھ شائع کیا، بی بی سی کے مطابق UN سیکورٹی کونسل کو یہ تصاویر دکھائی گئیں۔ مگر بشار جنگی مجرم نہ ٹھہرایا گیا۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کا ویٹو اور شام کو روس کا ویٹو میسر تھا۔ دنیا پوری ڈھٹائی سے خوفناک مظالم سے منہ پھیرے رہی۔ شاید اسی دن کے لیے ظلم کی انتہاؤں پر آخری ضرب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی لگنی لازم تھی جو رب تعالیٰ نے انھیں زندہ اٹھا لیا! مذکورہ کہانی تو شام پر ڈھائی قیامتوں کا ایک شوشہ ہے صرف۔ دفاتر لکھے جاسکتے ہیں شام اور دیگر عرب بہار ممالک اور ان کے سفاک حکمرانوں، مظلوم عوام اور اندھے گونگے بہرے عالمی اداروں اور چوہدریوں پر۔ سب کچھ نیٹ پر موجود ہے پڑھ دیکھیے! تصویر شام کی یہ ہے کہ اسدی حلقوں، علویوں کے علاقے تو خوبصورت لہلہا رہے ہیں۔ باقی زیادہ تر شامی شہروں اور غزہ کے ملبوں، کھنڈروں میں کوئی فرق نہیں۔ تعمیر نو ایک بہت ہی بڑا چیلنج ہے۔ احمد الشرع نے نوزائیدہ جمہوریت پسندوں کے الیکشن کروانے، آئین بنانے کے مطالبے پر 4 سال اور 3 سال کا کہہ دیا ہے( سعودی العربیہ انٹرویو) ۔ ووٹرز لسٹ؟ لاکھوں تو قبروں میں یا مہاجرتوں میں ہیں یا لا پتہ ہیں! ’پہلی ترجیح ملک میں بلا تفریق امن و امان، خوشحالی، عدل، استحکام دینا، معاشی حالت سنوارنا ہے‘۔ یہ جو Inclusive’مشمولہ حکومت‘ کی رٹ دنیا (خصوصاً امریکہ) نے لگا رکھی ہے جس میں تمام اقلیتوں، نسلوں کی نمائندگی ہو۔ یہ رٹ صرف افغانستان، شام، بنگلہ دیش جیسے ممالک ہی کے لیے لازمہ ہے! خود امریکہ کی مشمولہ حکومت میں 435 کانگریس ممبران میں صرف 2 مسلمان خواتین ہیں جن کی چٹنی بنتی رہتی ہے۔ اکثریتی سنی شام میں حد درجے اقلیتی صدور 54 سال رہے تو مشمولہ کی یاد نہ آئی؟
نوحہ گر چپ ہیں کہ روئیں تو کس کو روئیں
کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو

تبصرے بند ہیں.