افغانی طرز عمل

90

تحریک پاکستان کے دوران1920میں مسلمانوں نے تحریک خلافت شروع کی تو ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ احساس ہونے لگاکہ ہندوستان اب ان کے رہنے کے لیے محفوظ نہیں رہا۔یہاں مسلمانوں کے لیے مصائب اور تکالیف کے پہاڑکاٹے نہیں کٹ رہے ۔ہندووں کو سرکار دربارمیں مسلمانوں سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے اور انگریز بھی مسلمانوں پر ظلم وستم کررہے ہیں۔اس صورتحال میں چوٹی کے علماکرام جن میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا شوکت علی اور عطااللہ شاہ بخاری کاذکرملتا ہے،ان علما نے ہندوستان کو مسلمانوں کے لیے دارالحرب قرار دے کر ان کو کسی اسلامی ملک کی طرف ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کردیا۔

مولانا ابوالکلام آزادکے قلم سے لکھا ہواہجرت کرنے کا فتویٰ 30 جولائی 1920 کو اخبار اہلحدیث امرتسرمیں شائع ہوا۔اس اشاعت کے بعد مسلمانوں نے ہجرت کے بارے سوچنا شروع کردیا۔سوال یہ نہیں تھا کہ ہجرت کی جائے یا نہ کی جائے بلکہ سوال یہ تھا کہ کس طرف کو ہجرت کی جائے۔اس سوال کا سب کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ہندوستان کے قریب ایک ہی ریاست ایسی بچی ہے یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے اور وہ ہے افغانستان۔اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے وطن افغانستان کی طرف ہجرت کرجائیں۔ہجرت کی خواہش رکھنے والوں کے ذہن میں نبی آخرالزماں ﷺ کی ہجرت مدینہ کا ماڈل تھا یہاں انصار مدینہ نے مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے بلکہ مہاجرین کو اپنی معیشت اور کاروبار تک میں شریک کرکے اعلیٰ ترین مثالیں قائم کردی تھیں۔

ہجرت کا فتویٰ جاری ہوا تو اس وقت افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان نے اعلان کردیا کہ سارے کا سارا افغانستان ہندوستان کے مسلمانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔یہ بات ہندوستان کے مسلمانوں تک پہنچی تو ان کا حوصلہ اور بڑھ گیا ۔یہ بات سن کر وہ مسلمان بھی اپنا گھر بار چھوڑکر ہجرت کے لیے تیار ہوگئے جو تذبذب کا شکار تھے۔تاریخ دان اور محقق نعیم قریشی نے اپنے مقالے تحریک ہجرت میں لکھا ہے کہ ’’اس ہجرت کی وجہ سے غریب کسان اپنا مال انتہائی کم قیمت پر بیچنے پر مجبورہوئے۔بعض سرحدی علاقوں میں دس ہزار روپے کی زمین ایک سو روپے کی بھی نہ بک سکی ۔دوسوروپے کی گائے بھینس صرف چالیس روپے میں بیچ دی گئی۔ہجرت کرنے والوں کو لگ رہا تھا کہ وہ شاید ہندوستان میں غلامی کی زندگی چھوڑ کر آزاد اسلامی مملکت کے باسی ہونے والے ہیں۔لیکن یہ سوچ یہ خوشی یہ اطمینان صرف اس وقت تک ہی تھا جب تک وہ ہجرت کے سفرمیں تھے۔

ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے۔اپنا قیمتی سامان ،زمینیں جائیداداور مال مویشی چھوڑ کر افغانستان کی طرف جانے والوں کا کیا معلوم تھا کہ افغانستان میں ان کے ساتھ ہندوستان سے بھی زیادہ برا سلوک ہونے والاہے۔جب قافلے افغانستان پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران نہیں بلکہ پریشان ہوئے کہ وہاں افغان حکومت کسی بھی مہاجر کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہی نہیں تھی۔خوش آمدید کہنا تو دور وہاں مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ۔ ان کے مال مویشی ان سے چھین لیے گئے ۔مہاجر خواتین پر آوازے کسنے اور ان کی بے حرمتی کرنا عام تھا۔ہندوستان سے جانے والے اپنے افغان اسلامی بھائیوں کو فتوے بارے بتاتے ان کو افغان بادشاہ کااعلان یاددلاتے لیکن جواب میں افغانی ان کو کہتے کہ جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ۔محقق قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں کہ ’’یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تنگ آکرافغانستان سے آگے ایران جانے کی کوشش کی تودور کھڑے افغانی پکاررہے تھے کہ ماروان ہندوستانیوں کو ،یہ چور ہیں۔مہاجرین کے ذہنوں میں ایک سوال بہرحال موجود تھا کہ افغانستان کے بادشاہ نے خود ان کو یہاں آنے کی دعوت دی تھی پھر ان کی بے حرمتی کیوں؟ اس کا راز بھی جلدی ہی کھل گیا ۔محقق نعیم قریشی لکھتے ہیں کہ ’’افغان بادشاہ کی پیشکش سنجیدگی پر مبنی نہیں تھی بلکہ یہ ایک چال تھی ۔مسلمانوں کوہجرت پر آماد ہ کرنے کا مقصد انگریزوں کو طیش دلاکر میسوری میں برٹش افغان کانفرنس کے لیے اپنی سودے بازی کو مضبوط کرنا تھا‘‘۔

اسلامی ملک سمجھ کرعظیم نبی ﷺ کی عظیم سنت پوری کرنے کے لیے ہجرت کرنے والے افغانیوں کی بے اعتناعی اور ٹھکرائے جانے کے بعد اپنا سب کچھ لٹاکرواپس ہندوستان آنے پر مجبور ہوگئے۔کوئی افغانستان کو جیسے چاہے ’’برادر اسلامی ملک‘‘ سمجھے یا کہتا رہے میرے لیے افغانستان کا یہی تعارف ہے جو اس نے تحریک ہجرت کے دران میرے آباؤ اجداد کے ساتھ بدترین سلوک کرکے کروارکھا ہے۔اس لیے افغانستان سے کسی اچھے کی امید احمقوں کی جنت میں رہنے جیسی ہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی افغان حکمرانوں کو موقع ملا وہ غزنی اور کابل سے نکل کر پنجاب کی طرف آئے اور یہاں کے وسائل لوٹ کرچلتے بنے۔انہوں نے کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ پنجاب یا موجودہ پاکستان میں بسنے والے لوگ مسلمان ہیں یا ان کے اسلامی بھائی ہیں۔تاریخ اسی تلخی سے عبارت ہے ۔کچھ لوگ افغانستان کی محبت میں پگلا گئے ہیں اور وہاں سے ہمارے ملک میں دہشتگردی اور ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کرنے والوں کو صلح اور امن کا پیغام دینے کی وکالت کررہے ہیں۔پاکستان کی طرف سے سرحد پار دراندازوں کو سبق سکھانے کو افسوسناک کہتے ہیں وہ شاید افغانیوں کی تاریخ سے نابلد ہیں۔
یہ بھی صرف کہانیاں ہی ہیں کہ افغانی کبھی مغلوب اور مفتوح نہیں رہے انہوں نے کبھی کسی کی حکمرانی قبول نہیں کی ۔ اس بابت سینئر صحافی اور تجزیہ کار جناب آغا اقرار ہارون نے ایک تفصیلی ریسرچ پیپر شائع کیا ہے وہ آپ گوگل کرسکتے ہیں جس میں انہوں نے تاریخی حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ صرف درانی دور کے علاوہ افغانستان زیادہ تربیرونی طاقتوں کے زیر اثر ہی رہا ہے اور افغانیوں نے ہر آنے والے فاتح حکمران کے سامنے سرجھکایا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان نے ماضی قریب میں کوئی لڑائی اپنے بل پر نہیں جیتی۔روس حملہ آور ہوا تو اس کو باہر نکلالنے کے لیے امریکا اور پاکستان کی فوجی اور مالی امداد شامل حال رہی ۔اس کے بعد جب امریکا نے حملہ کیا تووہ اس وقت تک وہاں موجود رہا جب تک اس کے مقاصد پورے نہیں ہوگئے ۔اور امریکا کے افغانستان سے جانے میں بھی مرکزی کردارپاکستان کا ہی تھا۔ یہ الگ بات کہ افغان تحریک ہجرت سے یہی کرتے آئے ہیں اس لیے ان سے کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں ہے۔ بات ان کی سرشت کی نہیں یہاں ہمارے لوگوں کی محبت کی ہے جو افغانیوں کو اپنا ’’ اسلامی بھائی‘‘ سمجھنے سے باز ہی نہیں آرہے۔

تبصرے بند ہیں.