سپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق کی زیرِصدارت حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین مذاکرات کے 2راؤنڈ ہوچکے۔ یہ سردارصاحب کاحسنِ ظن اور خوش نیتی ہے جووہ مذاکرات کوخوش گوار ماحول میں ہوتاقرار دے رہے ہیں وگرنہ حقیقت یہ کہ اِن مذاکرات کی کامیابی کادوردور تک کوئی امکان نہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ مذاکرات کی میزکے دونوں طرف بیٹھے اصحاب کومینڈیٹ تومِل چکا لیکن سچ یہی کہ طرفین کی بے اختیاری اوربے اعتباری اظہرمِن الشمس۔ پہلے حکومت کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ عمران خاں (جھوٹ سہی) اپنے دَورِحکومت میں دعویٰ یہی کرتے تھے کہ تمام فیصلے وہ خودکرتے ہیںاور اسٹیبلشمنٹ کی کیامجال کہ اُن کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ دوسری طرف میاںشہباز شریف لگی لپٹی رکھے بغیرچیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیرکی تعریف وتوصیف میں رطب اللساں رہتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہی کہ پاکستان میں اقتدارکی باگ ڈورہمیشہ زورآوروں کے ہاتھ میںہی رہی ہے جس کاادراک کرتے ہوئے میاںشہباز شریف جھوٹ کی آڑھت نہیں سجاتے۔ اب صورتِ حال یہ کہ فوج 9مئی اور 24نومبر پرنہ صرف یہ کہ کوئی سمجھوتہ کرنے پرتیار نہیں بلکہ اِس پربات کرنابھی ناپسند کرتی ہے۔ اِن حالات میں مذاکرات کی بیل کیسے منڈھے چڑھے گی؟۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف کی مذاکراتی ٹیم اتنی بے اختیارکہ اِدھر مذاکرات کی میزپر بیٹھتی ہے اوراُدھر اڈیالہ جیل میںبیٹھے عمران خاںسے مشاورت کے لیے ملاقات کی اپیل۔ دونوں راؤنڈز میںایساہی دیکھنے کوملا۔ اڈیالہ جیل میں بیٹھے عمران خاںاپنی مذاکراتی ٹیم کے مدارالمہام ہیںجن کی اجازت کے بغیرپتّہ بھی نہیں ہل سکتا۔ عمران خاںنے اوّل اوّل 4مطالبات کیے تھے یعنی اُن کے مینڈیٹ کی واپسی، 26ویں آئینی ترمیم کاخاتمہ، 9مئی اور 26نومبر کی سپریم کورٹ کے 3 سینئرموسٹ جج صاحبان کے ذریعے جوڈیشل انکوائری اورعمران خاں سمیت سیاسی قیدیوںکی رہائی۔ اپنی دال گلتی نہ دیکھ کروہ مینڈیٹ کی واپسی اور 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے سے دستبردار ہوگئے۔ گویا اُنہوںنے یہ توتسلیم کرلیا کہ عام انتخابات 2024میں اُن کامینڈیٹ چوری نہیںہوا اور 26ویں آئینی ترمیم بھی درست لیکن باقی 2مطالبات پروہ اب بھی قائم ہیں۔ اب صورتِ حال یہ کہ عمران خاں ’’فی الحال‘‘ اِن مطالبات سے پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں اور مقتدرہ کسی بھی صورت میں اِن مطالبات پربات کرنا پسندنہیں کرتی۔ اِس امر کا ادراک مذاکراتی ٹیموں کوبھی ہے۔ دلچسپ صورتِ حال یہ کہ جب تحریکِ انصاف کی مذاکراتی ٹیم کویہ دونوں مطالبات لکھ کردینے کوکہا گیاتو اُسے اِس کے لیے بھی بانی کی اجازت کی ضرورت پیش آئی اور مذاکرات تیسرے راؤنڈتک مؤخر ہوگئے۔ اِس صورتِ حال میںکیا کوئی اہلِ نظر مذاکرات کی کامیابی کاتصور بھی کرسکتا ہے؟۔
مذاکرات کی اِس گھمن گھیری میں دیگرعوامل بھی مدِنظر رہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری کہ متحارب گروہوں کی توپیں خاموش ہوجائیں اورافہام وتفہیم کاماحول پیدا کیاجائے لیکن یہاں اِس کادور دورتک نام ونشاں نہیں۔ اِدھر مذاکراتی ٹیمیں میزپر بیٹھیں، اُدھر عمران خاںنے ٹویٹ کھڑکا دیا۔ اُنہوںنے لکھا ’’اِس آمرانہ دَورمیں شخصی آزادیوں کے خاتمے، بنیادی قانونی حقوق کی پامالیوں اور اداروںکی تباہی نے ملک کے نہ صرف سماجی وسیاسی نظام بلکہ قانونی ومعاشی نظام کوبھی درہم برہم کردیا ہے۔ جس بھونڈے اندازمیں خالد خورشیدکو 34سال قیدکی سزاسنائی گئی اِس سے ثابت ہوتاہے کہ ملک میں رول آف لاء کاخاتمہ ہوچکا اور غیراعلانیہ بَدترین آمریت کاراج ہے۔ مشرف دَورمیں بھی ہم فوج کی مداخلت پرتنقید کرتے رہے ہیں۔ اِس کے باوجود ہمیں اِس قسم کے جبروفسطائیت کاسامنا نہیں کرناپڑا‘‘۔ پہلی بات تویہ کہ جب مذاکرات کاڈول ڈالا جارہا ہوتو اِس قسم کی ٹویٹ زہرِقاتل مگر عمران خاںکی ضد، نرگسیت اورانانیت اُنہیں کسی پَل چین نہیں لینے دیتی۔ دوسری بات یہ کہ جب ہربات روزِروشن کی طرح عیاں ہوتو جھوٹ نہیں بولاکرتے۔ پوری قوم مشاہدہ کرچکی کہ مشرف دَورمیں عمران خاں پاکستان کے وہ واحد سیاستدان تھے جوپرویز مشرف کے جلسوں میں تحریکِ انصاف کاجھنڈا اُٹھاکر شرکت کیاکرتے تھے۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کے عمران خاں جذباتی حامی اور چیف پولنگ ایجنٹ بھی تھے۔ وہ تومعاملہ اُس وقت بگڑاجب قومی اسمبلی میں واحد سیٹ رکھنے والے عمران خاںکو پرویزمشرف نے وزیرِاعظم نہیں بنایا۔ 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے پرویزمشرف سے قومی اسمبلی کی سیٹوںکا مطالبہ اور آمرکی عمران خاںکو آفر، سب تاریخ۔ اِس لیے اِسے دُہرانا محض وقت کازیاں۔ خاںصاحب کو یہ سوچنا چاہیے کہ اپنی جنگجویانہ طبیعت کے باعث اُنہوںنے کیاکھویا اور کیا پایا؟۔ کیا اپریل 2022ء سے دسمبر 2024ء تک وہ کسی ایک محاذپر بھی کامیاب ہوئے یا اپنا کوئی ہدف حاصل کرسکے؟۔ یادرہے کہ یہ وہی عمران خاںہیں جوکسی بھی صورت میں نوازلیگ یا پیپلزپارٹی کے ساتھ بات چیت توکجا، ہاتھ ملانابھی پسند نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ وہ مذاکرات کریںگے توصرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لیکن اب وہ اُسی مذاکرات کی ٹیبل پر آچکے۔ اگر اُنہیں ادراک ہوہی گیاہے توپھر مذاکرات کی کامیابی کایہ ماحول توہرگز نہیں جو وہ پیدا کررہے ہیں۔
’’وہی ہے چال بے ڈھنگی جوپہلے تھی سواب بھی ہے‘‘ کے مصداق عمران خاںنے کہا’’ 9مئی کے حوالے سے غلط بیانی کی گئی۔ سیدھا اصول یہی ہے کہ جس نے سی سی ٹی وی فوٹیج چُرائی اُسی نے 9مئی کروایا۔ ملٹری کورٹ سے فیصلے بھی اِسی لیے کروائے گئے کہ وہاںکسی نے سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی ہی نہیں۔ 26نومبر کوسیدھی گولیاں مارکر ہمارے لوگوں کوشہید کیاگیا‘‘۔ حقیقت یہ کہ 9مئی کے جن 19مجرموں کی رہائی عمل میںآئی وہ سب تحریری طورپر معافی مانگ کراقرار کرچکے کہ وہ 9مئی کی دہشت گردی میں ملوث تھے۔ اِس کے علاوہ اُن سبھی مجرمان کے ویڈیو ثبوت بھی موجود۔ جب اِن مجرمان کی رہائی پر تحریکِ انصاف اُنہیں ہار پہنائے، رہاہونے والے عمران خاں زندہ باد، لے کے رہیں گے آزادی جیسے نعرے لگائیں اور خیبرپختونخوا کے وزیرَاعلیٰ ہاؤس میں اُن کی رہائی کاجشن مناتے ہوئے اُنہیں ہیروز قرار دیاجائے توپھر عمران خاںکو اور کون ساثبوت چاہیے؟۔ رہی 26نومبر کوسیدھی گولیاں مارنے کی بات توحکومت کا باربار یہ مطالبہ کہ لاشیں کہاں ہیں اور ثبوت کہاں؟۔ تحریکِ انصاف توآج تک اُن 12لاشوں کے نام بھی پیش نہیں کرسکی جو سیدھی گولیوں سے مرے۔ عرض صرف یہ کہ سول نافرمانی کی تحریک کاآغاز کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوترسیلاتِ زَرمیں کمی کی تلقین اور بے لچک بیانات سے کبھی مذاکرات کامیاب نہیں ہواکرتے۔ جہاں فریقین صرف جیتنے کے لیے بیٹھے ہوں وہاں مذاکرات چہ معنی دارد؟۔مذاکرات کی کامیابی صرف کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پرہی ممکن ہے جس کا یہاں دوردور تک نام ونشان نہیں۔
تبصرے بند ہیں.