اڑان پاکستان منصوبہ !!

101

سال 2025 کا آغاز ہو گیا ہے۔ دعا ہے کہ یہ سال پاکستان کیلئے ترقی ، خوشحالی اور استحکام کا سال ثابت ہو۔ اللہ کرئے کہ ہم ان تمام مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں، جو ہمیں برسوں سے درپیش ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ معاشی لحاظ سے 2023 پچھلے سال (بلکہ سالوں) کی نسبت کافی بہتر رہا۔ 2023 میں ہمیں مثبت معاشی اشاریے دیکھنے کو ملے۔ اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان رہا۔ شرح سود میں کافی کمی آئی۔ روپے کی قیمت کو استحکام نصیب ہوا۔ ترسیلات زر میں بھی 44 فیصد کا اضافہ ہوا، جو ایک ریکارڈ ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی۔ ان معاشی اشاریوں کی وجہ سے ہی فچ اور موڈیز جیسے اہم عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ (قرض واپس کرنے کی صلاحیت) کو اپ۔ گریڈ کیا۔ نئے سال کے آغاز پر یہ خبر سننا بھی اچھا لگا کہ مہنگائی گزشتہ 7 برس کی کم ترین سطح یعنی 4.1 فیصد پر آگئی ہے۔یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور اس کا کریڈٹ وفاقی حکومت کو جاتا ہے۔
معاشی استحکام کے تناظر میں ہی وفاقی حکومت نے’’ ـ اڑان پاکستانـ‘‘پروگرام کی بنیاد رکھی ہے۔ اڑان پاکستان اقتصادی بحالی کا پانچ سالہ منصوبہ ہے۔چند دن پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس تقریب میں چاروں صوبوں کے اہم نمائندے موجود تھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا ایک اہم مقصد برآمدات کا فروغ ہے اور ایسی معاشی ترقی جو برآمدات پر مبنی ہو۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ گروتھ اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے لازم ہے کہ کاروبار دوست ماحول مہیا کیا جائے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہا ر کیا کہ ان کی حکومت 3 سال کے اندر اندر پاکستان کو بڑے ممالک کی صف میں لے آئے گی۔

میں اس منصوبے کی مکمل تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں۔ ویسے بھی مجھے معاشی اعداد و شمار کی کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ تاہم اخباری خبروں اور وزیر اعظم کی تقریر کے توسط سے جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئیں ، وہ خوش آئند ہیں۔ اچھی بات ہے کہ حکومت برآمدات بڑھانے کے لئے پرعزم ہے۔ہماری معیشت کا یہ پہلو ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ ایک ایسی معیشت کی بنیاد رکھی جائے، جس کی بنیاد برآمدات پر کھڑی ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ عام آدمی ہی نہیں بڑی کاروباری شخصیات اور اداروں کو بھی بھاری بھرکم ٹیکسوں کی شکایت رہتی ہے۔ یہ پہلو خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے ۔اڑان پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا بس چلے تو ٹیکسوں کو بالکل کم کر دوں۔ اس منصوبے کے متعلق مجھے مختلف ماہرین کی آراء سننے کا موقع ملا۔ معاشی ماہرین کا نکتہ نظر ہے کہ یہ ایک اچھا معاشی پلان ہے۔ تاہم اس کی کامیابی کے لئے لازم ہے کہ اس پر عمل درآمد اور متعین اہداف کے حصول کیلئے ایک جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ ماہرین کی یہ بات بالکل درست ہے۔ کسی بھی منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس سے جڑے مختلف پہلووں پر توجہ دی جائے اور عملی نفاذ کی کوشش کی جائے۔ اس سے پہلے بھی حکومتیں مختلف معاشی منصوبے بناتی اور پیش کرتی رہیں، تاہم شاید ہی کسی منصوبے پر کامل عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکا ہو۔
عمومی طور پر ملکی اور غیر ملکی کاروباری شخصیات یا ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ۔ ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ ا فرادی قوت مہنگی ہے اور غیر تربیت یافتہ بھی۔ یہاں ٹیکسوں کی بھرمار اور سہولیات کا فقدان ہے۔ یہاں پر معاملات تساہل اور ریڈ ٹیپ ازم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار تو رہے ایک طرف، خود پاکستانی سرمایہ کار بھی چند سال پہلے تک بنگلہ دیش اور ایسے ہی دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہو چلے تھے۔ اس سارے قضیے کا ایک اہم پہلو ہمارے سیاسی حالات بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاست اور معیشت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی بے یقینی کی کیفیت نے ماضی میں ہماری قومی معیشت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔سیاسی بے یقینی اور افراتفری کی وجہ سے سرمایہ کاری رک گئی تھی۔ قومی معیشت کی حالت ابتر ہو کر رہ گئی تھی۔ اب ہماری گرتی پڑتی، لڑکھڑاتی معیشت سنبھلنے لگی ہے۔ اللہ کرئے کہ اڑان پاکستان منصوبے کے تحت ہماری معیشت واقعتا اڑان بھرے او ر پاکستان خوب ترقی کرئے۔

تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اس بات کا عہد کریں کہ وہ سیاست کو اپنے سیاسی مفاد یا سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ ماضی قریب میں یہ بھی ہوا کہ ایک جماعت نے آئی۔ ایم،ایف کو باقاعدہ خط لکھا کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ یہ خط ایک ایسے وقت پر لکھا گیا جب ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ سیاسی انتشار اور احتجاج کی وجہ سے بھی ہماری معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے۔ہمیں کروڑوں ، اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جب دارلحکومت پر لشکر کشی ہوتی ہے تو حکومت کے پاس راستے بند کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ راستے بند ہوتے ہیں تو کاروبار رک جاتے ہیں۔ بقول وزیر اعظم اسلام آباد ایک دن کے لئے بند ہوتا ہے تو معیشت کو 190 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں لازم ہے کہ ہم معیشت کو سیاست اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے باز رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام سیاسی قوتیں کم از کم معیشت اور معاشی منصوبہ بندی کے لئے مل بیٹھیں۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں طویل المدت معاشی منصوبہ بندی کریں۔ اس کے بعد کوئی حکومت آئے یا جائے، اس منصوبے پر عمل درآمد کریں اور ملک کو آگے بڑھنے میں اپنا کردار ادا کریںاور اپنا حصہ ڈالیں۔
وفاقی حکومت کے لئے تفہیم کا پہلو یہ ہے کہ آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ انٹرنیٹ صرف سماجی رابطے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کی کاروباری اہمیت بھی مسلم ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش یا سست روی کا نقصان ہماری معیشت کو بھی ہوتا ہے۔ اڑان پاکستان کا منصوبہ کامیاب بنانا ہے تو انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی جیسے مسئلے کو بھی حل کرنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.