نئے سال کے آغاز میں جہاں تمام اشاریے مثبت ہیں۔ معیشت دیوالیہ پن کے دہانے سے واپس مڑ چکی ہے۔ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ برآمدات بڑھ اور درآمدات کم ہو رہی ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری سی پیک فیز دوئم اور سعودی عرب کی طرف سے گوادر ریفائنری کے قیام اور ریکوڈک کے 15 فیصد حصص کی خریداری کی صورت میں آ رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دس ماہ کی قلیل مدت میں موجودہ حکومت نے مقتدرہ کے تعاون سے معاشی پہیہ اک دفعہ پھر صحیح سمت میں گھما دیا ہے۔ لیکن یہاں کچھ اور خطرناک پہلو بھی ہیں جو اس پٹڑی پہ بمشکل چڑھی رفتار بڑھاتی گاڑی کو ایک دفعہ پھر ڈی ریل کر سکتے ہیں۔ خدا نخواستہ ایک دفعہ پھر ملک کو اندھیروں میں دھکیل سکتے ہیں۔
کل ایک سینئر تجزیہ کار سے اس ضمن میں جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں یہی کہا کہ شائد موجودہ حکومت یا سیٹ اپ کو تبدیل کر دیا جائے۔ اب یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے کسی کو کوئی علم نہیں۔ سو فیصلہ سازوں سے عرض ہے کہ ملکی ترقی کو سب سے بڑا اور پہلا خطرہ موجودہ حکومت کی کسی بھی طریقے یا کسی بھی وجہ سے تبدیلی کا فیصلہ ہو گا۔ محترم وزیر اعظم نے بھی اپنی ’’اڑان پاکستان‘‘ نامی ایکسپورٹ پالیسی کے اعلان کے وقت چھپے الفاظ میں اس کا اظہار کیا ہے۔ کہ ’’جب بھی معیشت پٹڑی پہ چڑھتی ہے کوئی نا کوئی بغیر کسی وجہ کے ملکی معاشی پہیے کو واپس گھما دیتا ہے‘‘۔ اب ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اس دفعہ اگر ایسا ہوا تو خاکم بدہن ملک سنبھل نہیں پائیگا اور ایسی کسی بھی کوشش کا نتیجہ اندرونی طور پہ مزید کمزوری، بد امنی اور مخدوش حالات پہ ہی منتج ہو گا۔ جو ملک اور نہ ہی قوم کے لیے قابل قبول ہوں گے اور نہ ہی ان کو کنٹرول کرنا کسی بھی طاقت کے بس میں ہو گا۔ سو اب ملک و قوم کی بھلائی کی خاطر منتخب حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے مزید تجربات بند ہو جانے چاہئیں اور حکومت، مقتدرہ، اعلیٰ عدلیہ سب کے پیش نظر ملکی تعمیر و ترقی کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہئے۔
اب آیئے دوسرے خطرے کی طرف۔ یاد رہے کہ پچھلی ایک دھائی میں کئی ممالک نے مشکل حالات پہ قابو پا کر ترقی کا سفر شروع کیا وہ سالہا سال سے جاری مسلح شورشوں کو سختی سے کچل کر آگے بڑھے۔ ان میں ایتھوپیا، الجیریا، ترکیہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اب ان تینوں ممالک میں اندرونی خلفشار پہ قابو اور خلفشار کے موجد، موجب اور حصہ داروں کو سخت سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ ان ممالک کے ہر ایک انچ رقبے پہ وہاں کی حکومت اور سکیورٹی اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔ نتیجتاً ان کی معیشتیں تیزی سے دن بہ دن اوپر جا رہی ہیں۔ دوسری طرف اگر وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں دو صوبوں میں امن و امان کی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہاں خلفشار پھیلانے والے خواتین و حضرات کو ابھی تک حکومت یا ملکی سکیورٹی اداروں کی طرف سے ڈھیل ملی ہوئی ہے اور وہ ڈھٹائی و بے شرمی سے آئے روز وطن عزیز کی سالمیت پہ حملہ آور ہو رہے ہیں۔
بلوچستان میں مسلح شورش کو ابھی تک پوری قوت سے ختم نہیں کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان ملک اور قوم دشمن عناصر نے کئی علاقوں کو نو گو ایریا بنا رکھا ہے۔ کچھ اسی طرح کی صوتحال صوبہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں ہے جہاں پی ٹی ایم جیسے وطن دشمن گروہ، تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر شورش برپا کیے ہوئے ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں اپنے آبائی علاقے میں جانے سے قاصر ہیں کہ وہاں پہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد موجود ہیں۔ رہی سہی کسر اب دو مسلکی بنیادوں پہ قائم مسلح گروہوں نے پوری کر دی ہے کہ جن کی آپسی لڑائی میں سیکڑوں بے گناہ مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کئی علاقوں میں مورچے اور بنکر بنا رکھے ہیں اور یہ بھی حکومت و سکیورٹی ایجنسیز کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں بس ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے وطن کے وجود سے ہی انکاری ہو تو آپ کو اس کے خلاف کارروائی کرنے بلکہ اسے سختی سے کچل دینے سے کس چیز نے روک رکھا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان میں موجود قدرتی گہرے پانی والا گوادر پاکستان کی ہی نہیں اس خطے کی سب سے بڑی بندرگاہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ فعال ہو کر یہ سی پیک کے تحت چین سمیت آٹھ ممالک کی بیرونی دنیا سے تجارت کا مرکز بن جائے گا لیکن وہاں بھی امن و امان کا فقدان ہے۔ پچھلے چند ماہ میں وہاں بھی ملک دشمن تنظیموں نے کئی مسلح حملے کیے ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں کون سا ملک وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا خطرہ مول لیگا؟ اس لیے ضروری ہو چلا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں گرینڈ آپریشن کر کے ملک اور قوم کے دشمن مسلح گروہوں کو سختی سے مکمل طور پہ کچل دیا جائے۔ تاکہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسلح گروہوں کو ہتھیار ڈالنے، پاکستان سے وفاداری کا حلف لیکر قومی دھارے میں واپسی کے لیے تیس دن کا وقت دے۔ جو بھٹکے ہوئے اس عام معافی کے نتیجے میں واپس آ جائیں انہیں گلے لگائیں اور جو بغاوت پہ آمادہ رہیں ان کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے یا شک نہیں کہ ملک کے ہر کونے میں امن اور ریاستی رٹ قائم ہو گی تو ہی اقوام عالم آپ کی طرف متوجہ ہوں گی۔ امن کے بغیر جب آپ قریب ترین دوست ممالک کو بھی سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے تو وہ بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے قاصر رہیں گے۔ جہاں گوادر پاکستانی معیشت کے لیے گیم چینجر ہے اسی طرح خیبر پختونخوا قدرتی حسن کے لحاظ سے کسی بھی ترقی یافتہ خطے یا ملک سے کم نہیں۔ اگر وہاں امن و امان کی صورتحال ٹھیک ہو جائے تو یہ خطہ پوری دنیا کے سیاحوں کے لیے جنت بن سکتا ہے اور پاکستان سیاحت سے بھی سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ سو شرط صرف ایک ہے کہ مسلح گروہ ختم ہوں، شورشیں کچل دی جائیں تاکہ باہر سے سرمایہ کاری بھی آئے اور سیاح بھی۔
وقت آن پہنچا ہے کہ ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے اب ایجنسیز حرکت میں آئیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا۔ یہ پاکستان کے ایک اسلامی و فلاحی، معاشی طور پہ مضبوط، خود مختار ریاست بننے اور اقوام عالم میں اپنا صحیح اور جائز مقام حاصل کرنے کا آخری موقع ہے۔ کیونکہ وقت کم اور سفر طویل ہے اس لیے مزید صبر ہو گا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ صاحبان اقتدار و طاقت کی اولین ترجیح اگر صرف مضبوط و خوشحال پاکستان ہے تو ایسا ہونے کے رستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو فوری طور پہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا انتہائی ضروری ہو چکا۔
لہٰذا بسم اللہ کیجئے دیر کس بات کی؟
تبصرے بند ہیں.