وقتی بہلاووں سے بہلنے والی قوم

49

واہ ری بھولی بھالی قوم۔۔۔! تیرے کہنے بھی تو کیا کہنے۔۔۔! ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسی جا رہی ہے۔ ایک ہی طریقہ واردات کے لوگوں سے دہائیوں سے لٹتی جا رہی ہے مگر مجال ہے کہ ایک ذرا رک کر سوچنے سمجھنے اور غور و فکر پر آمادہ ہو۔ ۔۔!
نسلوں کی نسلیں جھوٹے بہلاوؤں سے بہلتی بہلتی ابدی نیند جا سوئی ہیں، ایک کے بعد دوسری اور تیسری نسل بھی جوان ہو گئی ہے مگر قوم کا مجموعی طرز عمل ویسے کا ویسا ہی ہے۔ لیڈران کی سطح پر نعرے ،لچھے دار گفتگو ، جھوٹے دلاسے ، مفاد پرستی ، جھوٹ ، مکر اور فریب جبکہ عوام کی حد تک شخصیت پرستی، انفرادی و اجتماعی تعصب، قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح، شغل میلا ، بے جا تجسس، تن آسانی، بسیار خوری اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی قومی مزاج بن کر رہ گئی ہے ۔۔۔!

’’روٹی ،کپڑا اور مکان ، لے کے رہے گا ہر انسان ‘‘کے نعرے سے لے کر’’پیلی ٹیکسی سکیم ‘‘، ’’بے نظیر پروگرام‘‘، ’’احساس پروگرام‘‘، ’’ہیلتھ کارڈ ‘‘،’’یوٹیلیٹی سٹورز پر جاری سبسڈیز ‘‘،’’سستا آٹا ‘‘،’’سستی چینی‘‘ ،’’رمضان پیکیج‘‘ اور دوسرے جز وقتی فوائد اور پیکجز تک عوام وقتی بہلاوؤں سے بہل رہی ہے اور لیڈران ہیں کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے انہیں ایک کے بعدایک نعرے اور جزوقتی سہارے اور مدد کا فریب دیئے اپنے مفادات کے کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔!

قومی طور پر ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ فقط سستے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے لوگ ایک دوسرے کو اپنے پاؤں تلے کچل دیتے ہیں مگر ان کو اپنی درندگی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔چوری ڈکیتی ،راہزنی ، جعل سازی ، دھوکہ دہی اور استحصال کی بڑھتی ہوئی وارداتیں معاشرتی رویوں کی عکاس ہیں۔ نام نہاد لیڈر ایک کے بعد ایک نعرے کا فریب دیئے اپنا کاروبار اقتدار آگے بڑھا رہے ہیں اور عوام الناس ہیں کہ نسل در نسل ایک ایسے لاحاصل انتظار کا شکارہیں کہ جس کی کوئی منزل نہ پہلے کسی کو مل سکی ہے نہ آئندہ اس کے ملنے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔۔۔!

قوم یہ اصول کب کی بھول چکی ہے کہ محنت کا ر اللہ تعالیٰ کا دوست ہے ۔ہر کسی کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔کائنات کا نظام حرکت پر قائم ہے اور ہمیں اپنے حصے کی جدوجہد کرنا ہوگی ۔خود اٹھنا ،جاگنا ، آگے بڑھنا اوراپنے حصے کا کام کرنا ہوگا مگر یہاں بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خاندانوں کے خاندانوں کا بھیک مانگنا ، غریبوں کا امیروں کے بند کواڑوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنا ، ہمارے ایسے رویوں کے مظہر ہیں جوہمیں اقوام عالم میں ڈبوئے جا رہے ہیں۔ بغیر ترجیحات کے تعین سے چلنے والی قوم ہمیشہ نعروں سے فریب دیتی اور فریب کھاتی ہے۔۔۔!

فریب کی اس دنیا کے ، مکر اور فریب کے جادو سر چڑھ کر بول رہے ہیں بالکل اس اشتہارکی طرح ، جسے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اشیاء کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اس سے اس شے کی حقیقت کو کیا سے کیا دکھایا جاتا ہے مگر جب اس کی اصل حقیقت کھلتی ہیں تو وہ سرے سے ہی الگ ہوتی ہے اور اکثر اوقات’’ کھوداپہاڑ، نکلا چوہا ‘‘والی بات ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح کا احوال ہمارے لیڈران گرامی کا ہے جن کے خلوت اور جلوت کے چہرے الگ اور جلسے جلوس اور کیمرہ کے سامنے چہرے کے خدوخال الگ ہوتے ہیں۔ ان کے قول اور فعل کا تضاد قدم بقدم سامنے آتا ہے۔ وعدوں کا ایفا تو دور کی بات ، منتخب ہونے کے بعد اکثر ایسے لیڈر اگلے الیکشن تک دکھائی بھی نہیں دیتے مگر عوام ہیں کہ ان کے لاحاصل وعدوں پر اعتبار کیے جاتے ہیں اور سوکھے پودوں پر پھول کھلنے اور پھل لگنے کے انتظار میں ان کے پیچھے نعرے لگائے جاتے اور اپنا اسباب لٹائے جاتے ہیں۔

اور لیڈران ہیں کہ کبھی جمہوریت کی محبت کی شمع دلوں میں جلاکر تو کبھی آمریت سے نفرت دلاکراور کبھی موروثی سیاست سے نجات دلانے کے سپنے دکھاکر توکبھی ’’ دونہیں ایک پاکستان، تعلیم سب کے لیے، قانون کی حکمرانی میں سب ایک، تعلیم سب کے لیے، آزاد عدلیہ ، سیاسی اثر و رسوخ سے پاک پولیس ، بیوروکریسی عوام کے تابع ،امیر اور غریب سب برابر، صحت سب کا بنیادی حق ، تحریر،تقریر، اظہار خیال اور آزادانہ نقل و حرکت سب کا حق اور دیگر بنیادی انسانی حقوق ‘‘ کا نام لے لے کر اور نعروں کا فریب دے دے کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کیے جارہے ہیں اور عوام ہیں کہ وقتی بہلاوؤں سے بہل رہے ہیں اور یوں اقتدار کا سفر ایک دائرے میں وقتی کامیابیوں کے ثمر خوبی سے سمیٹ رہا ہے۔۔۔!جبکہ نتیجتاً ملکی مسائل ہیں کہ بڑھ رہے ہیں، عوامی اضطراب ہے کہ اپنی حدوں کو چھو رہا ہے اور نااہل قیادت ہے کہ دہائیوں سے اپنے اقتدار کی طوالت اور دوام کے تانے بانے بن رہی ہے۔۔۔!

’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ سے کسی نے سیکھا ہے نہ ’’ دہشت گردی ‘‘ کے خلاف طویل جاری جنگ سے کوئی سبق لینے کو تیار ہے۔ملک کمزور کرنے ’’سبسڈیز‘‘،’’ قومی اثاثوں کی بہتری کی بجائے نج کاری‘‘ ، ’’ ٹیکس کے نام پر کاروباری استحصال ‘‘، ’’ اشرافیہ نواز پالیسیاں اور ’’ قرض لے لے کر امور سلطنت چلانا‘‘ جیسی ناقص حکمت عملیاں جاری ہیں۔دیکھیے کب عوام ’’ مختلف کارڈز‘‘ کے فریب سے نکلتی ہے اور کب ، کس لیڈر کی حقیقت پسندانہ اور عوام دوست پالیسیوں سے ملک کی آمدن اس سے اخراجات سے تجاوز کرتی اور ملکی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔۔۔!
اللہ کرے کہ نئے سال کے ملکی ترقی و خوشحالی کے حکومتی خواب، دعوے اور عزم شرمندہ ء تعبیر ہوں اور نئے سال کے ہر دن کا سورج غریب کی شنوائی ، مہنگائی میں کمی، ملکی معیشت میں بہتری ، بے روزگاری کے خاتمے ، صحت مند ماحول اور مثبت روایات کے فروغ تلے طلوع و غروب ہو۔۔۔! اللہ کرے۔۔۔!

تبصرے بند ہیں.