سیاست اور بہتر ایڈمنسٹریشن

55

موجودہ حکومت کو ایک سال کے لگ بھگ عرصہ ہونے کو آیا ہے۔ تا ہم یہ آج بھی مشکلات و مسائل کے بھنور میں پھنسی نظر آتی ہے۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک طرف اس حکومت کو عمران خان اور تحریک انصاف جیسے مشکل سیاسی حریف کا سامنا ہے تو دوسری جانب عوام کو درپیش مسائل جس میں مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی سر فہرست ہے حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج رکھتے ہیں۔ مذکورہ عرصے کے دوران پی ٹی آئی کے دھرنوں، احتجاج اور اسلام آباد میں ڈی چوک پر پہنچنے کے عملی مظاہروں نے حکومت کو انتظامی طور پر مصروف عمل رکھا۔ خاص طور پر ایس سی او کانفرنس اور بعد ازاں مختلف مواقع پر غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر پی ٹی آئی کے احتجاج نے گویا پورے ملک کو بند کر کے رکھ دیا۔ حکومت کی تمام توانائیاں ان احتجاجوں سے نمٹنے میں صرف ہوتی نظر آئیں۔ خیر بالآخر کفر ٹوٹا اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر رضامند نظر آئی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔ پی ٹی آئی نے جو مذاکرات کا ایجنڈا سامنے رکھا ہے اس میں سر فہرست نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا قیام اور اپنے کارکنوں کی جیلوں سے رہائی ہے۔ یقینا اس میں تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان بھی شامل ہوں گے تاہم ان کا نام واضح طور پر فی الحال شامل نہیں۔ جہاں تک نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بننے کا سوال ہے تو اسے بنانے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کیونکہ اگر حکومت کا موقف درست ہے کہ نو مئی کے واقعات میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور کارکن ملوث ہیں اور ان واقعات کے پیچھے کوئی بیرونی قوت کار فرما ہے اور بیرونی فنڈنگ بھی کی گئی ہے اور اس کے ماسٹر مائنڈ پاکستان اور باہر موجود ہیں تو جوڈیشل کمیشن کے قیام سے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات سے یہ موقف درست ثابت ہو سکتا ہے ایسے میں جو شواہد موجود ہیں وہ بھی یقینا اپنا کردار ادا کریں گے اور یوں پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے ان کارکنوں کا بچنا مشکل ہوگا جو نو مئی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کے پاس عوام کے سامنے حقائق لا کر یہ ثابت کرنا آسان ہوگا کہ وہ حق پر ہے۔ مزید براں اگر اسی ضمن میں آئندہ چل کر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں اور فوجی عدالتوں یا پھر سول عدالتوں سے بشمول عمران خان پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف فیصلے آتے ہیں تو اسے عوامی حمایت حاصل ہوگی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان کسی بیرونی قوت یا اندرونی طاقت کے اشارے پر کوئی ڈیل کریں گے اور نہ ہی ڈھیل لیں گے۔ تاہم یہ امر بھی قابل غور ہے کہ عمران خان اب تک اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے ہمیشہ تیار نظر آئے اور ان کا مطالبہ بھی یہی رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے بات کریں اگر ڈیل نہیں کرنی تو اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا اتنا ضروری کیوں ہے۔ ایسے میں حکومتی کمیٹی چارٹر آف اکانومی، چارٹر آف ڈیموکریسی کی تجدید، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے متفقہ پالیسی اور سیاسی احتجاج کیلئے حدود کا تعین جیسے پاکستان کے مخصوص معاملات پر سیاسی اتفاق رائے چاہتی ہے۔

ایسے میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ بعض حلقے مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لیے اس امر پر بھی زور دے رہے ہیں کہ اگر عمران خان سیاسی شورش ختم کرنے کی یقین دہانی کرا دیں اور اس امر پر راضی ہو جائیں کہ وہ پانچ سال حکومت کو چلنے دیں گے تو انہیں بنی گالہ شفٹ کیا جا سکتا ہے ۔

سیاسی رسہ کشی کے اس ماحول میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاہے حکومت ہو یا پھر اپوزیشن دونوں عوام کو گویا بھلا چکے ہیں ان کے کیا مسائل ہیں ؟ ان کی کیا مشکلات ہیں؟ اور زندگی ان پر کس قدر تنگ ہو چکی ہے حکومت ہو یا پھر اپوزیشن کسی کا یہ ایجنڈا نظر نہیں آتا کہ وہ اس حوالے سے کچھ سوچے یا پھر انہیں ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات اٹھائے۔

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران 11 کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبے میں اپنی دس ماہ میں حکومت کی کارکردگی کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالی۔ تاہم اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ امر طشت ازبام ہوتا ہے کہ اگر مجموعی طور پر بات کی جائے پنجاب حکومت ایسا کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکی جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ صوبے کے عوام کو ابتک کوئی قابل ذکر ریلیف ملا ہو۔ پنجاب حکومت کے اعلان کردہ بیشتر منصوبے یا تو ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئے اور اگر کچھ شروع بھی ہوئے ہیں تو ان پر ابھی بہت تھوڑا کام ہوا ہے تعلیم ہو یا صحت اور یا پھر عوام کو انصاف کی فراہمی یہ ہنوز ایک خواب ہی نظر آتے ہیں۔

ہر شعبہ ہائے زندگی میں اچھے سرکاری افسران کی تعیناتی سے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے لاہور میں ڈی آئی جی عطر وحید کی بطور سی ٹی او لاہور سینئر پولیس آفسر محمد نوید کی بطور ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور تعیناتی ایک خوش آئند امر ہے۔ دونوں افسران اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ ڈی آئی جی ا شفاق خان ، ڈی آئی جی انعام وحید ، ڈی آئی جی احمد جمال ، ڈی آئی جی افضال کوثر ، طارق عباس قریشی اور ڈی آئی جی ساجد کیانی کا شمار بھی ایسے پولیس افسران میں ہوتا ہے جو نہ صرف اچھی شہرت کے حامل ہیں بلکہ انتظامی امور اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے نیک نامی رکھتے ہیں ۔

وفاق یا پنجاب حکومت کو بھی ان افسران کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی اچھے افسران کی تعیناتی اس شعبے میں بہتری کا باعث بنے گی۔ صحت کے شعبے میں ایم ایس گنگا رام ہسپتال ڈاکٹر عارف افتخار جیسے قابل اور ایڈمنسٹریشن پر مضبوط گرفت رکھنے والے افسران کا تعینات کیا جانا ناگزیر ہے۔

تبصرے بند ہیں.