میری اکثر یہ کوشش ہوتی ہے میں اپنے کالموں کو سیاست کی گندگی سے پرے رکھوں، حالانکہ میں جانتا ہوں’’ہجوم پاکستان‘‘ اتنا غلاظت پسند ہے آپ کسی محفل میں کوئی اچھی کوئی صاف سْتھری بات شروع کر دیں لوگ اْٹھ کر جانا شروع کر دیں گے یا جمائیاں لینا شروع کر دیں گے، کل مجھے بزرگوں یعنی بابوں کی ایک محفل میں بیٹھنے کا موقع ملا، میں نے وہاں ایک دینی موضوع پر بات ابھی شروع ہی کی تھی محفل میں موجود پچاسی سالہ ایک بابے نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’بٹ صاحب اک بڑی پٹولی جئی ایکٹریس ہوندی سی شکیلہ قریشی اوہ اج کل کتھے وے ؟‘‘، میں نے عرض کیا ’’بابا جی اوہدا تے مینوں پتہ نئیں، تہاڈیاں لتاں دا پتہ اے جیڑیاں اج کل قبر وچ نے‘‘، کچھ ایسے ہی حالات ہماری تحریروں کے بھی ہیں، آپ کسی بہت صاف سْتھرے موضوع پر کوئی کالم کوئی مضمون لکھیں اور اْسے اپنی فیس بْک وال یا ٹوئیٹر وغیرہ پر شیئر کریں بس چند لائیکس اور کمینٹس اْس پر آئیں گے وہ بھی اس طرح کے جیسے مجبوری میں کوئی کرتا ہے، اس کے برعکس آپ کوئی گندا لطیفہ کوئی غیر اخلاقی بات کوئی واقعہ، کوئی تصویر یا وڈیو شیئر کر دیں لاکھوں لوگ اْس پر لائیکس اور کمینٹس کر کے مزے اور چسکے لیں گے، پاکستان میں اب صرف گند بکتاہے چاہے وہ کسی کے گھر کا ہی کیوں نہ ہو، پہلے لوگ اپنے گھر کی گندی باتیں چْھپاتے تھے، اب اس سے کماتے ہیں، میں اکثر یہ لکھتا اور کہتا ہوں’’بجائے اس کے ہم پاکستان جیسے خوبصورت بنتے ہم نے پاکستان کو اپنے جیسا بدصورت بنا دیا‘‘، مگر اس فضا اور اس ماحول میں بھی کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں جو پاکستان کی خوبصورتی کو قائم رکھنے یا اْسے واپس لانے کے لئے کوشاں ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا اس کے لئے باقاعدہ جنگ کر رہے ہیں، والڈ سٹی اتھارٹی آف لاہور کے سربراہ کامران لاشاری بھی اْن میں شامل ہیں، وہ جس عہدے جس مقام پر رہے نہ صرف یہ کہ اْسے وقار بخشا، حْسن بھی اس انداز میں بخشا پھر اْس عہدے پر کوئی بھی آیا اْس عہدے کو دوبارہ بگاڑ کی سطح پر لانے کے لئے اْسے بہت محنت کرنا پڑی، وہ ڈپٹی کمشنر لاہور تھے اْن کے بعد اْن جیسا محنتی اور وژن والا کوئی ڈپٹی کمشنر لاہور کم از کم میں نے نہیں دیکھا، وہ چیئرمین یا شاید ڈی جی پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی تھے، اس حیثیت میں اْنہوں نے لاہور کو اتنا خوبصورت اور خوشبودار بنا دیا تھا پہلی بار ہمیں لگا کسی نے درست کہا ہے’’جنہیں لاہور نئیں تکیا اوہ جمیا ای نئیں‘‘، وہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب تھے اْن کے بعد اْن جیسا ایک افسراس عہدے پر میں نے ایسا نہیں دیکھا جو صحافیوں قلم کاروں اور فنکاروں کے ساتھ ذاتی روابط رکھتا ہو، میں نے شاید اپنے گزشتہ کسی کالم میں بھی ایک واقعہ لکھا تھا، کچھ عرصہ پہلے مجھ سے پنجاب کے ایک سیکرٹری اطلاعات و ثقافت نے رابطہ کیا، کہنے لگے ’’ سی ایم پنجاب کی خواہش پر ہم نے آپ کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لئے وفاقی حکومت کو بھیجنا ہے، آپ ذرا اپنی ادبی صحافتی و علمی خدمات کی تفصیلات ہمیں فراہم کر دیں‘‘، میں اْن کی بات سْن کر ہنس پڑا، میں نے اْن سے کہا ’’اگر پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات و ثقافت یعنی آپ کو میری علمی ادبی و صحافتی خدمات کے بارے میں معلوم ہی نہیں پھر میرا ہرگز یہ حق نہیں بنتا آپ میرے نام کی سفارش کریں‘‘، کامران لاشاری چیئرمین سی ڈی اے تھے اْن کے بعد ایک ایسا چیئرمین نہیں آیا جس نے اسلام آباد کی اْن خوبصورتیوں کو بحال رکھنے کی ہلکی سی کوشش بھی کی ہو جو کامران لاشاری ہی کی قائم کردہ تھیں، اب وہ چیئرمین والڈ سٹی اتھارٹی آف لاہور ہیں، کام کام اور صرف کام کرنے کی اپنی ساکھ کو اس عہدے پر بھی اْنہوں نے برقرار رکھا ہوا ہے، لاہور کے کچھ تاریخی دروازوں کو اس خوبصورت انداز میں اْنہوں نے بحال کیا وہ پوری دْنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے، تاریخی مسجد وزیر خان کے ساتھ بھی یہی ’’حْسن سلوک‘‘ اْنہوں نے فرمایا، سْناہے اب شالیمار باغ کی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے، گزشتہ روز مجھے اس کی تفصیلات والڈ سٹی اتھارٹی آف لاہور کی ڈائریکٹر ٹورزم تانیہ قریشی نے بتائیں، وہ ایک بہت ہی عظیم انسان ڈاکٹر عابد حسین قریشی مرحوم کی صاحبزادی ہیں، 1993 ء میں جب میں نے گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور میں بطور لیکچرار جائن کیا تھا ڈاکٹر عابد حسین قریشی صاحب وہاں پرنسپل تھے، وہ بہت خوش لباس خوش گفتار شخص تھے، میں نے اْن سے بہت کچھ سیکھا، اْن کی یہ صاحبزادی اْن کی اعلیٰ تربیت کا جیتا جاگتا شاہکار ہیں، اْن کی خوش قسمتی ہے اب اپنے والد جیسے نفیس انسان کامران لاشاری کی سرپرستی اْنہیں میسر ہے، سو کچھ ہی دنوں بعد ہم شالیمار باغ کو بھی اْس کی تاریخی حیثیت کے مطابق اْتنا ہی خوبصورت دیکھیں گے جتنا اب شاہی قلعہ لاہور ہے، جتنا حضوری باغ ہے، جتنی مسجد وزیر خان ہے، جتنے لاہور کے تاریخ دروازے یا دیگر کچھ مقامات ہیں، اندرون شہر خصوصا تاریخی دروازوں کے ارد گرد واقع کچھ علاقوں اور گھروں کو بھی خوبصورت رنگوں اور روشنیوں سے اس قدر مزین کر دیا گیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے یہ اٹلی یا سپین کے کچھ علاقے یا محلے ہیں، ہر رنگ کامران لاشاری کا ہے ہر روشنی اْن کی ہے، پاکستان خصوصاً لاہور میں آلودگی اس قدر بڑھ گئی ہے کوئی تتلی کوئی جگنو کوئی فاختہ کوئی بلبل ہمیں کہیں دکھائی یا سْنائی نہیں دیتے، ہم ان پرندوں ان نعمتوں کو بہت مس کرتے ہیں، پچھلے دنوں والڈ سٹی اتھارٹی آف لاہور نے میری فیملی کے لئے اپنے ہفتہ وار انتہائی خوبصورت پروگرام ہسٹری بائی نائٹ کا اہتمام کیا اس دوران شاہی قلعہ میں کچھ تتلیاں کچھ جگنو دیکھ کر ہماری جی خوش ہو گئے، میں سوچ رہا تھا یہاں اگر خوبصورت رنگوں اور روشنیوں کا اہتمام نہ بھی ہوتا یہ جگنو اور تتلیاں ہی کافی تھے، ایک خوبصورت تتلی میرے کاندھے پر آکر بیٹھ گئی، مجھے لگا جیسے میری بیٹی میرے کاندھے پر چڑھ گئی ہو، آسمان کی طرف دیکھا وہ اتنا صاف تھا کاش ہمارے دل اتنے صاف ہوتے، ستارے ایسے چمک رہے تھے کاش ہمارے مقدر اتنے چمک رہے ہوتے، کلاسیکل رقص بھی کلاس کا تھا، ڈھولچیوں نے اپنا الگ ایک رنگ جمایا ہوا تھا، ہمارے کچھ شمالی علاقہ جات بہت خوبصورت ہیں، اگر کوئی کسی وجہ سے ان علاقوں میں نہیں جاسکتا اْسے چاہئے وہ والڈ سٹی اتھارٹی کے ہفتہ وار پروگرام ہسٹری بائی نائٹ سے لطف اندوز ہو، والڈ سٹی آف اتھارٹی کا سٹاف اس پروگرام کے مہمانوں کی بہت قدر کرتا ہے، میں کامران لاشاری اور اْن کی ٹیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتا ہوں جو ایسے مزید کئی خوبصورت پروگرام شروع کرنے کی مزید پلاننگ کر رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.