افغان حکومت ہوش کے ناخن لے

73

سکیورٹی فورسز نے رواں برس کامیاب آپریشنز کے دوران خارجیوں سمیت 925 دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کیا گیا اور سیکڑوں افراد گرفتار بھی کیے گئے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے، اس جنگ میں افواجِ پاکستان نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق سال2024 کے دوران مجموعی طور پر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں اور اْن کے سہولت کاروں کے خلاف 59 ہزار 775 مختلف نوعیت کے کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے۔ان کامیاب آپریشنز کے دوران 925 دہشت گردوں بشمول خوارج کو واصلِ جہنم کیا گیا اور سیکڑوں گرفتار کئے گئے، گزشتہ 5 سال میں کسی ایک سال میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر169سے زائد آپریشنز افواجِ پاکستان، انٹیلی جنس، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اَنجام دے رہے ہیں۔اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے بروقت اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے کئی منصوبوں کو کامیابی سے ناکام بنایا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دْشمن کے نیٹ ورکس پکڑنے اور دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں بھی اہم کامیابیاں ملیں۔ان کارروائیوں میں دہشت گردوں سے بھاری مقدار میں بیرونی ساختہ اسلحہ وگولہ بارود بھی برآمد کیا گیا، ان آپریشنز کے دوران73 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی میں ملوث 27افغان دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسزنے نشانہ بناتے ہوئے جہنم واصل کیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ افغان سرزمین سے حملوں کی سازش بہت پرانی ہے۔ افغان دہشت گردوں نے ملک کا امن برباد کرنے کے لئے ہمیشہ سے ہی سازش کی ہے اور اس گھنائونے فعل میں بھارت کا بھی واضح ہاتھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں اہم امور پر گفتگو کی ہے، آئی ایس پی آر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے انتہائی مطلوب سرغنہ کو بھی جہنم واصل کیا گیا۔ 2024 میں 383 بہادر آفیسرز اور جوانان نے جام شہادت نوش کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کی یہ جنگ آخری دہشت گرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ فتنہ الخوارج افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان میں موجود دہشت گردوں تک جاتے ہیں۔ پاک فوج نے واضح کیا کہ افغانستان خارجیوں اور دہشت گردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے۔ پاکستان کو شمال مغربی سرحد پر فول پروف انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مالی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اربوں روپے کا غیر قانونی سپیکٹرم موجود ہے، بھتہ خوری،نان کسٹم پیڈ گاڑیاں، سمگلنگ اورغیر قانونی اسلحہ کا ایک غیرقانونی سپیکٹرم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو غیر قانونی سپیکٹرم کے تحفظ میں جگہ جگہ سیاسی پشت پناہی بھی نظر آئے گی، غیر قانونی سپیکٹرم کو توڑنا ہوگا سزائیں سنانا ہوں گی، آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے۔ ادھر وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ اور بھائی ہے جس کے ساتھ تعلقا ت بہتر بنانا ، معاشی تعاون، تجارت کا فروغ اور تعاون کو وسعت دیناہماری خواہش ہے لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ٹی ٹی پی آج بھی وہاں سے سرگرم ہے اور ہمارے بے گناہ لوگوں کو شہید کررہی ہے، یہ دوعملی نہیں چل سکتی، افغان حکومت کو ایک سے زائد مرتبہ اچھے تعلقات قائم کرنے کا پیغام دیا ہے، ٹی ٹی پی کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا ہو گا۔ انھیں کسی صورت پاکستان کے بے گناہ عوام کو شہید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، یہ ہمارے لیے سرخ لکیر ہے، اگر ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے بدستورسرگرم رہے گی تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ انھوں نے افغان حکومت پر زوردیا وہ اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی تیار کرے، ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اگر ایک طرف ہمیں تعلقات بڑھانے کا پیغام ملے اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کو کھلی چھٹی ہوتو یہ دو عملی قابل قبول نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر ہو یا ماضی میں دہشت گردی کی وارداتیں، اس کے تانے بانے شمال مغربی سرحد کے پار جا کر ملتے ہیں۔ افغانستان کے حکمرانوں نے اول روز سے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت ہو، دائود، کمیونسٹوں، کرزئی، عبداللہ عبداللہ، اشرف غنی کی حکومت ہو سب کا وتیرہ یہی رہا ہے۔ نام نہاد مجاہدین کی حکومت نے بھی یہی گل کھلائے ہیں۔ اب طالبان کی حکومت بھی یہی کچھ کر رہی ہے۔ طالبان کی ڈیفکٹو حکومت کا پاکستان سے دشمنی کے حوالے سے رویہ انتہائی جارحانہ ہے منفی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ افغان پالیسی ایک جیسی چلی آ رہی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔جو زبان اشرف غنی حکومت بولتی تھی، ویسی ہی زبان اب طالبان بول رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی وجہ سے پاکستان نے اپنی افغان پالیسی میں لچک رکھی ہے، اس لچک کی وجہ سے پاکستان بے شمار مسائل اور بحرانوں کا شکار ہوا ہے… لیکن یہ بات سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ افغان عوام سے لگائو ایک عام سی بات ہے مگر افغان حکومت کو مناسب جواب دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان مختلف النسل قبائل اور زبانوں کا حامل ملک ہے، اس ملک میں دس بڑی قومیتیں آباد ہیں۔ یہ کسی ایک قومیت کا ملک نہیں ہے۔مگر طالبان کا اقتدار میں آنا کسی المیہ سے کم نہیں۔ ماضی میں سوویت یونین، برطانوی سامراج کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں موجودہ افغانستان کی سرحدوں کا تعین ہوا ہے۔ اس تعین میں سوویت یونین، ایران اور برطانوی ہند کے نمایندوں نے کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے افغانستان کو اپنی حالیہ تاریخ کی مبادیات کی ازسرنو اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ یہ سب حالات مل کر بتا رہے ہیں کہ افغان عوام طالبان کی جاگیر نہیں۔ نیز یہ کہ افغان طالبان کی حکومت پاکستان جیسے محسن کو سمجھے ، دراندازی روکے ، بھارت کا آلہ کار بننے سے گریز کرے ورنہ پاک فوج جواب دینا جانتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.