قرآنِ حکیم ہمیں دِین سے متعلق ہر شعبے کے بارے میں ہدایات دیتا ہے۔ ہم لوگوں نے دِین کا مطلب مذہب لے لیا ہے اَور اِسے چند رسوم اَور عبادات تک محدود کردِیا ہے۔ حالانکہ دِین دراصل اِنسان کی تمام زِندگی کا اِحاطہ کرتا ہے۔ اِس میں معاش اَور معاشرت بھی آتے ہیں۔ معاشرت کے حوالے سے ہم گزشتہ کالموں میں سے اکثر میں گفتگو کرتے رہے ہیں۔ آج ہم معاش کے بارے میں بات کریں گے۔ قرآنِ حکیم کے آغاز میں ہی اللہ تعالیٰ نے معاشیات کا بنیادی اْصول سکھا دِیا ہے۔ اگر ہم اْسے سمجھ لیں تو ملک اَور قوم کی معاشی حالت بہت بہتر ہوسکتی ہے۔
سْورۃ البقرہ اِس طرح شروع ہوتی ہے۔ ’’ الف۔ لام۔میم۔ یہ وہ (بلند مرتبہ) کتاب ہے جس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اِس میں ہدایت ہے پرہیزگاروں لوگوں کے لیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں اَورنماز قائم کرتے ہیں اَور جو رِزق ہم نے اْنہیں دِیا ہے اْس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘(آیات ۱۔۳)۔ آخری جملے میں اللہ تعالیٰ نے معاشیات کا بنیادی اْصول سمجھا دِیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو رِزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو اْسے خرچ کیا جائے۔ اْسے سینت سینت کر نہ رکھا جائے۔ اْسے معاشرے میں گردِش کرتے رہنا چاہیے۔ جو دولت معاشرے میں گردش کرتی ہے وہی ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ جو دولت تجوریوں یا بینک میں جمع رہے، اْ س کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ محض اِنسان کی ذہنی و قلبی تسلی کے لیے ہوتی ہے جو اْسے دیکھ دیکھ کر مطمئن ہوتا رہتا ہے کہ میرے پاس اِتنی دولت ہے۔ اگر مجھ پر کوئی برا وقت آیا تو یہ دولت میرے کام آئے گی۔ یوں اِنسان نہ چاہتے اَور نہ سوچتے ہوئے بھی دراصل برے وقت کا اِنتظار کررہا ہوتا ہے۔
دولت خرچ کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ دولت کی افادیت ہی اْسے خرچ کرنے میں ہے۔ اگر وہ خرچ نہ کی جائے تو وہ محض کاغذ کے ٹکڑے، نمبر یا سونے کی ڈلیاں ہیں۔ اْن کے مالک کو اْن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اِسی طرح معاشرے کو بھی اْس دولت کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ دولت کو خرچ کرو تاکہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو۔ جب یہ بہتر ہوگی تو تمہاری حالت بھی خودبخود بہتر ہوجائے گی۔ اگر صرف اَپنے بارے میں سوچو گے اَور دولت کو چھپا چھپا کر رکھو گے اَور گنتے رہو گے تو تمہاری نہ صرف دْنیا برباد ہوگی بلکہ آخرت میں بھی اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ قْرآنِ حکیم میں دولت کو سینت سینت کررکھنے اَور گنتے رہنے والے کی بہت مذمت آئی ہے۔ اِرشاد فرمایا ’’تباہی ہے ہر اْس شخص کے لیے جو لوگوں پر(منہ در منہ) طعن اَور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرتا ہے۔ جس نے مال جمع کیا اَور اْسے گن گن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اْ س کا مال ہمیشہ اْس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں۔ وہ شخص تو چکناچور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اَور تم کیا جانو کہ وہ چکنا چور کردینے والی جگہ کیا ہے؟ اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی جو دِلوں تک پہنچے گی۔ وہ اْن پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی اْونچے اْونچے ستونوں میں‘‘۔ (سْورہ الھمزہ)۔
ایک مثال کے ذریعے ہم یہ سمجھیں کہ دولت خرچ کرنے سے کیسے معاشرے میں پھیلتی ہے اَور اْس کا کیا فائدہ پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔ اگر میں ایک بیکری سے ایک سو روپے کی ایک چکن پیٹیز خریدوں تو میرا ایک سوروپیہ مندرجہ ذیل لوگوں میں تقسیم ہوگا۔ بیکری کا مالک، بیکری کے ملازم، مرغی کا گوشت فروخت کرنے والا، آٹا اَور مصالحے بیچنے والا، بجلی، پانی اَور گیس کے محکمے، اْن کے ملازم (کہ اْن کی تنخواہوں کا دارومدار بلوں پر ہے)، گتے کا ڈبہ بنانے والا جس میں رکھ کر وہ پیٹیز مجھے دی جائے گی، گتا بنانے کی فیکٹری کا مالک اَور اْس کے ملازمین، گتے پر چھپائی کرنے والا وغیرہ۔ یوں وہ ایک سو روپیہ پورے معاشرے میں پھیلے گا۔ جس جس کو یہ ملے گا وہ بھی اْسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آگے خرچ کرے گا۔ اگر میں پیٹیز نہ خریدوں تو دولت کی یہ تقسیم رْک جائے گی۔ جب ہر ایک کو دولت مل رہی ہو، اْس کا کاروبار چل رہا ہو تو ملک میں نہ صرف معاشی خوش حالی آتی ہے بلکہ امن و امان ہوتا ہے اَور جرائم میں کمی بھی ہوتی ہے۔ لوگ اِطمینان میں رہتے ہیں اَور اْن کاچڑچڑا پن ختم ہوجاتا ہے۔ لوگوں میں دوسرے ضرورت مندوں پر مال خرچ کی صلاحیت میں اِضافہ ہوجاتا ہے اَور یوں ضرورت مندوں کی تعداد گھٹنے لگتی ہے۔ چنانچہ دولت خرچ کرنے سے پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں جس کے پاس کچھ رقم آجائے وہ اْس سے سونا خرید لیتا ہے یا اْسے پراپرٹی خریدنے میں صرف کردیتا ہے۔ وہ سونا یا پلاٹ یا مکان ملک کی معاشی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ وہ دراصل دفن کی گئی رقم ہے جو اِنسان اِس لیے کرتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد جب سونے یا پراپرٹی کے نرخ بہتر ہوں گے تو میں اْنھیں بیچ کر منافع کمالوں گا۔ سونے یا پراپرٹی میں دفن کی گئی رقم سے اْس اِنسان کو تو فائدہ ہوسکتا ہے جس نے اْسے دفن کیا ہے لیکن پورے معاشرے کو اْس کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ ایک مردہ سرمایہ کاری (dead investment) ہے۔ اِس کے مقابلے میں خرچ کی ہوئی رقم، خواہ وہ کسی کاروبار میں لگائی جائے یا حکومت کی قومی بچت کی اسکیموں میں صرف کی جائے، ملک کے مفاد میں ہے۔ وہ رقم جو لوگ کاروبار میں لگاتے ہیں وہ پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ اگرمیں چاولوں کا کاروبار شروع کردوں تو میں چاولوں کی جو بوریاں آگے بیچنے کے لیے خریدوں گا اْس کی رقم آڑھتی، کسان، بوریاں بنانے والے، ٹرکوں کے مالک اَور اْس کے ملازمین میں تقسیم ہوجائے گی۔ اِسی طرح قومی بچت کی اسکیموں میں دی گئی رقم سے ملک میں سڑکیں بنتی ہیں، ہسپتال قائم ہوتے ہیں، تعلیمی اِدارے بنائے جاتے ہیں، اِن پروجیکٹ پر کام کرنے والوں کی تنخواہیں نکلتی ہیں۔ گویا وہ پیسہ ملک کے معاش میں داخل ہوجاتا ہے۔ تجوریوں، بینکوں، پلاٹوں اَور سونے کی اِینٹوں میں رکھاگیا پیسہ کسی کے کام نہیں آتا۔
ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی رِزق کو خرچ کرنے کی بات آئی ہے وہاں مقصد صدقہ وخیرات اَور زکوٰۃ دینا ہے۔ یہ بات بالکل دْرست نہیں ہے۔ قرآنِ حکیم اِن دونوں اقسام کے خرچ کو الگ الگ بیان فرماتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر آئے وہاں اللہ تعالیٰ صاف بتا دیتا ہے کہ یہاں بات صدقہ و خیرات وغیرہ کی ہورہی ہے۔ مثلاً سورہ البقرہ کی آیت نمبر 194میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اَور اَپنے ہاتھوں اَپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘اِسی طرح اِسی سورہ کی آیت نمبر 215میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں۔ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اَپنے والدین پر، رِشتے داروں پر، یتیموں، مسکینوں اَور مسافروں پر خرچ کرو۔‘‘ اِن آیات کو پڑھ کر پتا چل جاتا ہے کہ بات صدقہ و خیرات کی ہورہی ہے۔ جن جگہوں پر صرف رِزق کو خرچ کرنے کا مطالبہ وہاں بات یہ کی جارہی ہے کہ مال کو چھپا چھپا کر، سینت سینت کر نہ رکھو۔ اِسے گنتے نہ رہو بلکہ اِسے معاشرے میں پھیلاؤ تاکہ پورے ملک کی معاشی حالت بہتر ہو۔ جن ممالک کے لوگوں نے یہ بات سمجھ لی، اْن کی معاشی حالت دیکھ لیں اَور ہم نے جب سے پلاٹوں اَور پراپرٹی میں رقم دفن کرنے کا وتیرہ اِختیار کیا، اْس کے بعدہماری معاشی حالت کی زبوں حالی بھی سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ قرآن سے سبق سیکھیں اَور اِسے اَپنی مجموعی زِندگی میں اِختیار کریں تاکہ سب کا فائدہ ہو اَور نتیجے میں ہمارا بھی فائدہ ہو۔
تبصرے بند ہیں.