یہ اس سال کا آخری کالم ہے۔ یہ کالم میں اس امید کیساتھ لکھ رہی ہوں کہ نئے سال میں قومی سیاسی محاذ پر ہمیں کچھ اچھی اور مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
بلا شبہ حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل کا آغاز ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ سیاست، بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے اور مذاکرات کا ہی نام ہے۔ تاہم تحریک انصاف کا معاملہ مختلف ہے۔ پاکستان کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ مل بیٹھنے اور مذاکرات کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ عمران خان کھلم کھلا پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ اور دیگر مخالف جماعتوں کے راہنماوں کیلئے چور، ڈاکو، لٹیرے جیسے القابات استعمال کیا کرتے تھے ۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے حامیوں اور پیروکاروں نے بھی یہی لب و لہجہ اختیار کر لیا۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی انہوں نے حساس قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کیساتھ رابطہ رکھنا یا بیٹھنا پسند نہیں کیا۔ اپوزیشن جماعتوں سے معاملات طے کرنے کی ذمہ داری انہوں نے کسی اور کو سونپ رکھی تھی۔ چند دن پہلے تک تحریک انصاف کا مؤقف تھا کہ اس بے وقعت اور بے اختیارحکومت سے مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ براہ راست اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کریں گے اور اسی کیساتھ اپنے معاملات طے کرینگے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے مؤقف میں واضح تبدیلی کا آنا اور اس کا حکومتی اتحاد کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانا ایک اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ مذاکرات کے نتیجے میں معاملات آگے بڑھیں گے اور سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی کھینچا تانی میں کمی آئے گی۔
اس ضمن میں دونوں اطرف کی کمیٹیاں ایک ملاقات کر چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ملاقات میں یہ بات بھی ہوئی کہ دونوں فریقین انگریزی محاورے(putting youself in someone else’s shoes) کے مطابق خود کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر اپنے مطالبات اور گزارشات پیش کریں گے۔ اس ملاقات کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔ طے ہوا کہ یہ کمیٹیاں اب 2 جنوری کو ملاقات کریں گی ۔ اس دوران تحریک انصاف اپنے مطالبات تحریری شکل میںڈھالے گی اور حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے گی۔ فی الحال کمیٹی کے اراکین کی طرف سے اچھے اور مثبت بیانات سننے کو مل رہے ہیں۔ امید بندھی ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے مابین معاملات عمدگی سے طے پا جائیں گے۔اگلے دن لاہور میں خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر بھی یہ مذاکراتی عمل گفتگو کا موضوع بنا رہا۔ مختلف سیاسی اور صحافتی شخصیات نے مذاکرات کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے راہنما رانا ثناء اللہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بات بھی کہہ ڈالی کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہے کہ میاں نواز شریف ، صدر آصف زدرادی اور عمران خان مل بیٹھیں۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جو عمران خان دور حکومت میں بدترین سیاسی انتقام کا شکار رہا۔ اس پر 15 کلو گرام ہیروئن برآمدگی کا کیس بنایا گیا ۔ اسے طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا۔اچھی بات ہے کہ رانا ثناء اللہ انتقام کے بجائے مذاکرات کے حامی ہیں۔ اگر دونوں طرف یہی جذبہ رہا تو یہ مذاکرات ضرور آگے کی طرف بڑھیں گے اور ان کا اچھا نتیجہ سامنے گا۔
اس ضمن میں میثاق جمہوریت کی مثال دی جا سکتی ہے۔ نوے کی دہائی کی انتقامی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میا ں نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ اگرچہ اس میثاق پر پوری طرح عمل نہیں کیا جا سکا ، ا سکے باوجود اس معاہدے نے ملکی سیاست پر مثبت اثرات مرتب کئے ۔اس وقت پاکستان کو جن حالات کا سامنا ہے وہ قومی یکجہتی اوراتحاد کے متقاضی ہیں۔ اگرچہ اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کے اشاریے مل رہے ہیں۔ سیاسی سطح پر بھی بے یقینی کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کچھ مہینے پہلے تک تھی۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت تن تنہا تمام مسائل حل کرنے کے قابل ہے۔ پاکستان کو جن ان گنت مسائل کا سامنا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے طویل المدت منصوبہ بندی کریں۔ ملک میں سیاسی انتشار اور دنگا فساد کے بجائے عوام النا س کے مسائل کے حل کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔یہ بھی ایک مثبت پہلو ہے کہ اس وقت پاکستان کے مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ جماعتیں سب سے پہلے اپنے اپنے صوبوں کے عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دیں ۔ مرکز میں بھی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے۔ سب مل جل کر آگے بڑھیں گے تو مسائل کے انبوہ کثیر کو کم کیا جا سکے گا۔اچھی بات ہے کہ اب تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہوا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ان کے ساتھ بیٹھ کر ہی معاملات کا حل ممکن ہے۔
تاہم مذاکراتی عمل کے حوالے سے بہت سے خدشات بھی موجود ہیں۔ ایک طرف مذاکراتی عمل جاری ہے تو دوسری طرف حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اندر سے بھی اس مذاکراتی عمل کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ وقتا ًفوقتا ًایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی ہوتی رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی تواتر سے اس مذاکراتی عمل کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے دنگے فساد کا حساب دئیے بغیر اور ماضی کے کردار پر معافی مانگے بغیر یہ مذاکرات بے معنی ہیں۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ ماضی کو مکمل طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آگے بڑھنا ہے تو فریقین کو اپنے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں 9 مئی کے سانحے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کیا بیسیوں قومی املاک اور فوجی تنصیبات پر ہونے والوں حملوں پر آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں؟ کیا 26 نومبر کو اسلام آباد میں رینجر کے جوانوں کی شہادتوں کا بھلایا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی 9 مئی کے فسادات کے مجرموں کو سزا ئیں سنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اگلے دن افوا ج پاکستان کے ترجمان ادارہ آئی۔ایس ۔پی۔آر کے ڈی ۔ جی نے میڈیا بریفنگ میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ 9 مئی کے واقعات کا حساب ضرور ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست کے نام پر انتشار اور دنگے فساد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انصاف کا تقاضاتب تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک 9 مئی سے جڑے کرداروں اور منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا تا۔
سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگے گی؟ وہ تو اسے فاس فلیگ آپریشن کہتی رہی ہے۔ کیا زبانی کلامی معافی سے یہ قصہ ختم ہو جائے گا؟ اہم بات یہ ہے کہ 9 مئی کا فیصلہ کئے بغیر مذاکراتی عمل کیسے آگے بڑھے گے؟ فی الحال انتظار کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کون سے مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھتی ہے۔ تاہم یہ بات تو طے ہے کہ سیاسی سطح پر جو بھی مذاکرات ہوں ، ان مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلے، 9 مئی کے واقعات کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.