ملٹری کورٹس سے سزائیں! عالمی برادری قبول کریگی؟

46

چند روز قبل امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد ایلچی رچرڈ گرینیل نے نجی امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو پاکستان کی سیاسی صورتحال اور حالیہ نیوکلیئر پابندیوں کے حوالے سے بہت اہم تھا۔ انٹرویو سے آئندہ پاک/ امریکا تعلقات اور فارن پالیسی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ نیوکلیئر میزائل پروگرام سے متعلق بھی ان کا بیان بہت معنی خیز ہے۔ ٹرمپ کا سیکرٹری آف سٹیٹ کے لیے فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو کا انتخاب بھی پاکستان کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں۔ روبیو ماضی میں چین، ایران اور کیوبا سمیت دیگر دشمنوں کے حوالے سے ایک مضبوط اور سخت خارجہ پالیسی کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں روبیو نے پاکستان مخالف اور بھارت دوست بل متعارف کرایا۔ اس کے علاہ روبیو نے پاکستان پر بھارت میں دہشتگردی کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کو ملٹری امداد نہ دینے کی تجویز دی تھی۔ روبیو کے ماضی کے بیانات اور طرز عمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دے گا جبکہ خطے میں پاکستان، چین اور ایران کے حوالے سے سخت موقف اپنائے جائیں گے۔ گرینیل کے حالیہ بیان نے بھی اس اندیشے کا اظہار کر دیا ہے کہ روبیو پاکستان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ہوم ورک کر رہے ہیں۔ دوسری جانب گذشہ چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر رچرڈ گرینیل کے تہلکہ خیز بیانات نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار ہے اور عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے پر ہو گی۔ اس بات کو رچرڈ کے بیانات سے تقویت ملتی ہے۔ رچرڈ گرینیل سوشل میڈیا کے بعد ٹی وی پروگرام میں بھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ زور پکڑتا نظر آ رہا ہے۔ رچرڈ گرینئیل شہباز حکومت کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے پاکستانی صحافیوں کی جانب سے خود پر تنقید کا جس طریقے سے ایکس/ ٹویٹر پر جواب دے رہے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا پر بھی ان کی مکمل توجہ ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں اس وقت عالمی برادری کے ریڈار پر ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستانی حکام کو آئین پاکستان میں درج منصفانہ ٹرائل اور انسانی حقوق بارے یاد دہانی کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عدالتی آزادی، شفافیت اور انصاف کی ضمانتوں کا فقدان ہے۔ پاکستانی حکمران ضوابط کے مطابق آئین میں درج منصفانہ انصاف کا احترام کریں۔ انہوں نے پاکستانی حکام سے فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کا ردعمل حکومت کیلئے یقینا پریشان کن صورتحال ہے اور یہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مشکلات سے دو چار کر سکتا ہے۔ یورپی یونین نے فوجی عدالت کی جانب سے 25 شہریوں کو دی جانے والی حالیہ سزاؤں پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ آئی سی پی آر معاہدے کی یاد دہانی بھی کرائی ہے۔ ترجمان یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ملٹری کورٹس سے سزاؤں کے فیصلے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے آئی سی سی پی آر کے متصادم ہیں۔ پاکستان آئی سی سی پی آر معاہدے کا پابند ہے، بظاہر پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دباؤ لینے سے انکاری ہے مگر بین الاقوامی سطح پر اٹھتی آوازوں اور اہم ممالک کی تشویش کو نظرانداز کرنے سے پاکستان کو مزید معاشی اور نیوکلیئر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت جی ایس پی پلس سٹیٹس پر بھی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ گیس، بجلی اور روز مرہ کی اشیا ضرورت کی قیمتیں عوام کی برداشت سے باہر ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری 5 ارب ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ اسے مہنگی بجلی کے باعث پیداواری لاگت میں اضافے کا سامنا ہے۔ ان حالات میں اگر جی ایس پی پلس سٹیٹس واپس لے لیا گیا تو یہ صنعت بھی مکمل طور پر بند ہو جائے گی۔ ہمیں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کی تشویش کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے گھر کو درست کرنے کیلئے ذاتی انا اور مفاد سے بلند ہو کر ایک ہونا ہو گا وگرنہ معاملات اگے چل کر معاشی پابندیوں کی صورت میں بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ رچرڈ گرینیل عمران کو ٹرمپ جیسا لیڈر سمجھتے ہیں جس کا وہ اظہار بھی کر چکے ہیں۔ گرینیل نے بار بار عمران خان پر کرپشن کے کیسز کو ٹرمپ پر الزامات کی طرح جھوٹا قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک عمران خان اور ٹرمپ کے دور حکومت میں پاک امریکا تعلقات بہترین تھے۔ گرینیل کا شمار ٹرمپ کے قریبی اور با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ان حالات میں گرینیل کی جانب سے کھلے عام عمران خان کی حمایت کرنا مستقبل میں پاکستان بارے ٹرمپ انتظامیہ کی فارن پالیسی کا پتہ دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ نئی امریکی حکومت کس حد تک دباؤ ڈالے گی اور کیا یہ دباؤ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا پروانہ بن پائے گا یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے سے قبل ہی عمران کے ساتھ معاملات طے کرتی ہے۔ تحریک انصاف نے ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینیل کے بیانات کا خیر مقدم کیا ہے۔ تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے اس لیے انہیں ٹرمپ انتظامیہ سے پوری امید ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ عام شہریوں کے ٹرائل پر عالمی طاقتوں کے سخت ردعمل کے بعد بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کا امکان معدوم ہونے لگا ہے مگر رہائی ہو گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

تبصرے بند ہیں.