پاکستان، دنیا میں اٹھتے انقلابوں کے بیچ، یہ ہوا کہ مزید انتشار انگیز تحریک چلانے کی بجائے پی ٹی آئی، حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی۔ اللہ خیر کرے! بنگلہ دیش ، شامی انقلابوں میں نوجوانوں کا بھرپور کردار دیکھتے ہوئے عالمی خبروں کے بیچ ہمارے ایک نوجوان( اداکار) کی بڑی خبر لگی۔ ’دورانِ پرواز کھوئی ہوئی محبوبہ مل گئی‘۔ اس نے لمحہ ضائع کیے بغیر وہیں اسے انگوٹھی پہنا کر فتح کر لیا۔ ادھر HTS، شام کی آزادی کی تحریک نے 11دن کے اندر 13سال سے کھوئے شام کو ظلم کے پنجوں سے آزاد کرکے ایک پوری قوم کی غلامی کی زنجیریں کاٹیں۔ یہاں … ؟ فکر ہرکس بقدر ہمت اوست! جن اہداف پر ماں، تعلیمی ادارے، معاشرہ تربیت کر دے، قوم انہی راہوں پر چلتی ہے۔ پے در پے فکری، قومی انقلابات ہم نے دیکھے۔ افغانستان، بنگلہ دیش اور اب شام! شام کا نوجوان عبداللہ ابو جراح، 13سال کا تھا جب اس کا شہر حلب شامی بشار الاسد کی ا فواج ، ایران، روس، حزب اللہ کی مدد سے محصور شہر پر ہر طرف سے بمباری، تشدد، قتل و غارت گری تھی۔عمارات، ہسپتال ، بیکریاں (غزہ کی طرح) تباہ کر دی گئی تھیں۔ اسد نے ممنوعہ کلورین بم مار کرسینکڑوں کو موت دی۔ شدید جنگ میں 35ہزار شہید ہوئے اور شہر آج 8 سال بعد بھی کھنڈر ہے ! 18فی صد مرنے والے بچے تھے۔ حلب 2011ء میں دونوں اسدی حکومتوں کے ظلم کے خلاف تحریک کا مرکز تھا۔ 2016ء میں حلب پر اسد کا قبضہ تحریک کے تابوت کی آخری کیل تھی۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ ادلب چلے جانے والا عبداللہ اب مجاہد بن کر اپنا شہر آزاد کروانے آیا۔ 30نومبر 2024ء کو 8 سال بعد حلب فتح ہو گیا، فوجی وردی پہنے رائفل اٹھائے عبداللہ اور ابو عبدالعزیز (24سالہ) دمکتے روشن چہروں کے ساتھ اس اچانک غیر متوقع فتح پر کھوئی محبوبہ مل جانے سے زیادہ مسرور تھے۔ اگرچہ عبدالعزیز بڑی بھاری قیمت ادا کر چکا، اس کا خاندان شہید اور گھر تباہ ہو چکا تھا۔ مگر وہ کھنڈروں میں بھی رہنے پر بخوشی تیار تھا کہ ’میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم کا خواب پورا کر سکوں‘! ہمیں آزادی ہمارے بڑوں کی قربانیوں سے ملی۔ محمد علی جناح نے تپ دق سے پنجر بنے وجود کے عوض آزاد ملک ہمیں لے دیا۔ ہم اب صرف رئیل اسٹیٹ، بڑی گاڑیوں، گھروں، ڈراموں ، کھیلوں کو مقصدِ زندگی بنائے ناچ گا بجا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی رائفلیں شادی بیاہوں، ہولی، دیوالی، نیو ایئر، ہیلووین میں ہوائی فائرنگ، آتش بازی میں کام آتی ہیں۔ یا یونیورسٹیوں میں عصبیتی دھڑے بندیوں پر ایک دوسرے کے خلاف چلتی ہیں۔ تاریخ ہمارے جوانوں نے پڑھی نہیں۔ دنیا نے اسلام کی شناخت پردہشت گردی، انتہا پسندی، ریڈکل ازم، ملائیت چسپاں کرکے اسے ممنوعہ بارودی تابکاری مواد جیسا قرار دے دیا ہے۔ حتیٰ کہ احمد الشرع جولانی کو بھی ٹائی لگا کر بہ زبان حال کہنا پڑا: مجھے للہ جینے دو کہ میں لبرل مسلمان ہوں! اسرائیل چار مسلم ممالک پر حملہ آور ہے مگر ہمارے جوانوں کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
ہم مغرب کے غلام ہیں، جو مسلم ممالک کی بے رحمانہ تباہی کے درپے ہیں۔ اسرائیل ہو، بشارالاسد یا مودی ہر جگہ مغربی حکومتوں کی سرپرستی نمایاں ہے۔ اسرائیل صرف امریکہ، برطانیہ نہیں یورپی یونین سے بھرپور مدد پا رہا ہے۔ غزہ پر خوفناک حملوں کے باوجود اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیاں ملٹری گرانٹ یورپی یونین سے حاصل کرتی ہیں۔ ان کی دفاعی صنعت میں ان کا بھرپور حصہ ہے۔اسرائیل کو مکمل مغربی امداد کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔مغربی تعلیمی دنیا سے وابستہ افراد نے شدت سے اسرائیل کی امداد بند کرنے کا تقاضا کیا تھا۔ اسرائیل نے ممنوعہ سفید فاسفورس جو ہڈیوں تک انسان کو جلا دیتا ہے، جا بجا لبنان میں استعمال کیا۔
اب اسرائیل نے شام کی پوری فوجی قوت مکمل تباہ کر دی ہے۔ امریکہ، مغرب نے اس کی بھرپور تائید کی۔ بین الاقوامی غنڈہ گر دی ہر انتہا سے گزر گئی۔ مسلم آبادیاں مشترکہ ہدف ہیں جسے یہ عین برحق گردانتے ہیں۔ 2011ء سے شام میں جو کچھ ہوا یہ سب بخوبی نہ صرف واقف بلکہ شریک بھی رہے ۔ ستمبر2014ء میں برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا نے النصرہ فرنٹ اور اسلامک اسٹیٹ کے نام پر بمباریوں کے سارے تجربے کیے۔ پھر روس نے جب 2015ء میں شام پر بم برسائے تو امریکہ کیونکر پیچھے رہتا، وقتاً فوقتاً حملے (8ـحملے مشرقی شام میں) کرتا رہا۔ کرد علاقے میں چونکہ تیل ہے لہٰذا حق تو امریکہ ہی کا ہے کہ وہ حاصل کرے۔ چنانچہ وہاں 2ہزار امریکی فوج آج بھی ہیں۔ کردوں کی پشت پناہی بھی بھرپور ہے۔ ادلب میں چونکہ القاعدہ، النصرہ فرنٹ کی موجودگی تھی لہٰذا حملے ہوتے رہے۔
اگر آپ ان قوموں کاازلی ابدی حق زمینوں اور دنیا بھر کے وسائل پر دیکھنا چاہیں تو لگتا ہے کہ اقبال نے ہر ملک ، ملکِ ماست شاید انہی کے لیے کہا تھا۔ مثلاً اب ایک نہایت شدید سائیکلون بحر ہند میں ’مے اوٹی‘ (Mayotte) جزیرے پر آیا۔ پتہ چلا یہ یورپی یونین کا آخری سرا ہے اور فرانسیسی جزیرہ ہے! آبادی 97 فیصد مسلمان ہے۔ یورپی یونین، فرانس کے تصور سے لگتا ہے نہایت خوشحال ، امیر کبیر جزیرہ ہو گا۔ مگر نہیں جناب، آخر مسلمان ہے! سو 84فی صد آبادی خط ِ غربت سے نیچے رہتی ہے۔ (خط ِ غربت کے اوپر گوروں کی سر بفلک عمارات تعمیر ہوتی ہیں ! ) مے اوٹی، فرانس سے کیونکر جا ملا افریقہ میں ہوتے ہوئے؟ اس لیے کہ یہ جزیرہ زبردست حیاتی تنوع کی سرزمین، سیاحوں کے لیے پرکشش، خوشبودار پودوں کی غیر معمولی زراعت ، ڈولفن اور وہیل مچھلیوں کے لیے معروف ہے۔ گویا وہیل سے عنبر اور پودوں سے ہمہ نوع خوشبویات کا حصول فرانسیسی عطاروں ہی کے لیے خالق نے یہ سرزمین بنائی تو حق فرانس ہی کا بنتا ہے! گندمی ، کالے مسلمانوںکا نہیں۔ گوروں کے ذمے تو صرف انھیں’ سلولائز‘(مہذب) کرنا ہے! اب ان کا (مہذب ترین )صدر میکرون، اپنی رعایا پر قیامت ٹوٹی تو حال پوچھنے مے اوٹی پہنچا۔ جب عوام نے ضروریات، سہولیات اور فوری طبی امداد کی کمی کی شکایت کی تو اس مسئلے کی وجہ کیمرون نے یہ بتائی کہ یہاں ’Mamadou‘ (محمدیؐ)، بہت ہیں۔ یہ مغربی افریقہ میں مسلمانوں کے لیے اصطلاح ہے ۔پھر کیمرون نے فرمایا۔۔۔ اگر یہ فرانس کا حصہ نہ ہوتا تو تم لوگ 10ہزار گنا غلاظت (’’shit ‘‘)میں دھنسے ہوتے! (جیسے تمھارے یورپی اجداد دورِ مظلمہ (Dark Ages) میں تھے، جب سپین مسلمانوں کی حکمرانی میں جگمگا رہا تھا؟) بہرطور میکرون کی اس گفتگو پر فرانسیسی سیاست دانوں نے بھی اسے مظلوم عوام پر اپنا تکبر جھاڑنے پر نشانہ تنقید بنایا۔ یوں بھی وہ پہلے ہی شدید بد زبانی کا بارہا مرتکب ہونے پر مذمت سہہ چکا ہے!
یہود کے ہاں غیر یہودی کے لیے تحریف شدہ آسمانی کتب کے حوالہ جات ملتے ہیں، جو مسلمانوں کو جنگلی جانوروں سے بدتر قرار دیتے ہیں۔ اس کا اثر مغرب نے بھی قبول کیا ہے۔ شیطانی تہذیب کے ہاتھوں ’انا خیر منہ‘ (میں آدم ؑ سے بہتر ہوں) کا ابلیسی تفاخر، ان کے ذریعے اسلام اور مسلم دشمنوں میں چھوت کی مرض کی طرح سرایت کیا ہے۔ غزہ کی ایک سالہ جنگ، شام کی 13سالہ جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ، یا قبل ازیں سیاہ فام غلاموں؍ اقوام کے ساتھ، جو کچھ گوروں کے ہاں ہوا، اب کھل کر دنیا کے سامنے آگیا۔ یہ اخلاقی، تہذیبی سڑاند، مغرب کے بھی با ضمیر مہذب انسانوں کو ان سے علیحدہ موقف اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ مسلمانوں کا غیر معمولی صبر و ثبات، اخلاق و کردار، اس پر جا بجا مقالے، مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک برازیلی ہواباز نے 18ہزار فٹ کی بلندی پر ، سعودی عرب کے اوپر پرواز اڑاتے ہوئے ہوائی جہاز میں، تبوک جاتے ہوئے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ عین اس وقت شام ، روم، تبوک کی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوئہ تبوک میں فتح روم!) راہ پر اس کا اسلام قبول کرنا خوش آئند ہے۔ یہ اگرچہ ’ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا‘ کے مترادف ہے۔ ہمارے مسلمان ممالک میں اسرائیل پسندی؍ پرستی کی وبا پھیلی ہے۔ ناچ، گانا،فیسٹول کے غل غپاڑے میں اہل غزہ کی چیخیں اور غم بھلا دینا چاہتے ہیں۔ کویت کا مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازنا بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے تمام تر مظالم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اللہ اہل ایمان کو ہدایت سے نوازے اور دنیا کے با ضمیر کافروں کو ایمان عطا فرمائے۔ (آمین)
ہزار سازشیں ہیں دوستی کے عنواں سے
ہزار جنگیں ہیں، لیکن بہ نامِ امن و اماں
تبصرے بند ہیں.