2024ءکا سال پاکستان کی سیاست میں جنگ و جدل کا سال تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کا خاتمہ کرنے کے درپے رہے حالانکہ دونوں فریق جو مرضی کر لیں ۔وہ ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکتے۔ اس طرح کی صورتحال میں عام طور پر حکومت کا پلہ جتنا بھاری ہوتا ہے دوسری طرف وہ اتنی ہی کمزور پوزیشن میں ہوتی ہے کیونکہ ہر اقتدار فانی ہے۔ حکومت اور بادشاہی سدا رہنے والی چیز ہی نہیں ہے اس نے جانا ہی جانا ہے آج آپ ہیں کل کوئی اور ہوگا۔
اسی Duel میں حکومت اب تک فاتح نظر آتی ہے پی ٹی آئی تتر بتر کر دی گئی ہے۔ جو بچ گئے ہیں انہیں درجنوں مقدمات کا سامنا ہے۔ کسی ایک بندے پر اگر 200 سے زیادہ مقدمات ہیں واقعاً ملوث ہونا ممکن ہو تو اس کو عدالتی طور پر ثابت کرنا اتنا آسان کام نہیں بہر حال گیم آن ہے جس میں اب ایک نیا موڑ آگیا ہے۔
26 نومبر کے دھرنے کی بری طرح ناکامی کے موقع پر امریکہ سے ایک ٹویٹ ہوئی جس میں ٹویٹ کرنے والے شخص کو پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھا مگر اس وقت اس کا نام ہر چینل پر گونج رہا ہے اس نے اتنا لکھا :Free Imran Khan۔ یہ شخص رچرڈ گرینیل ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں جرمنی میں امریکہ کا سفیر تھا۔ لیکن اس کی مذکورہ ٹویٹ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ کسی نے اس پر تبصرہ بھی نہیں کیا۔ اس نے پی ٹی آئی کے حق میں سوشل میڈیا حمایت جاری رکھی۔ کہانی میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب نامزد صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے رچرڈ گرینیل کو اپنا خصوصی ایلچی برائے گلوبل مشن نامرد کر دیا۔ امریکی وزارت خارجہ میں یہ بہت بڑا عہدہ ہے جب اعلان ہوا تو پی ٹی آئی نے اس کی 26 نومبر والی ٹویٹ کو پھیلانا شروع کر دیا۔
کسی سینئر امریکی عہدیدار کا کسی دوسرے ملک کی سیاست میں اتنی گہری دلچسپی کا اظہار کرنا کیا معنی رکھتا ہے ایک پہلو تو یہ ہے کہ امریکا میں موجود پی ٹی آئی کے انویسٹر بہت مضبوط ہیں جو لا بنگ پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں آپ یہ سمجھیں کہ پی ٹی آئی کے حمایتوں کا لمبا ہاتھ رچرڈ گرینیل پر پڑ گیا ہے۔لیکن اس کا ریاستی پہلو یہ ہے کہ رچرڈ گرینیل جب اپنا عہدہ سنبھالے گا تو وہ پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے سیرئس مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ ن لیگ کی حکومت کی اور یکہ میں لابنگ کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور رچرڈ کے حالیہ بیانات نے ن لیگ کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کے جواب میں رچرڈ نے آئی ایم ایف اور یو ایس ایڈ جیسے اداروں سے بھی رابطے شروع کر دیئے ہیں اور اپنی ٹویٹ ان اداروں کو بھیTag کررہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا سیاسی قیدیوں کی رہنمائی میں مداخلت کر سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ پرویز مشرف کے عہد میں نواز شریف کی رہائی کے پیچھے بھی امریکی صدر بل کلنٹن تھے مگر انہوں نے یہ کام سعودی عرب کے ذریعے کروایا تھا اس کو کہتے ہیں ڈپلومیسی ۔
لیکن فرق صرف یہ ہے کہ اس دفعہ امریکہ کھل کر سامنے آگیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم یہ لوگ روایتی سیاستدان نہیں ہیں یہ معاملات کو اپنے طریقے سے ہینڈل کرتے ہیں۔ اب یہ ہوگا کہ رچرڈ کو وقتی طور پر خاموش کروا کر معاملہ ٹھنڈا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر امریکہ بانی پی ٹی آئی کو چھڑوانا چاہے تو اس کیلئے لمبی چوڑی سفارت کاری کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف بظاہر تو ایک آزاد عالمی ادارہ ہے مگر اس کو 60 فیصد ڈونیشن امریکی حکومت دیتی ہے جس کی وجہ سے یہ امریکی صدر کے زیر اثر رہتا ہے۔ اگر اس مرحلے پر آئی ایم ایف پاکستان کی روکنے کا فیصلہ کرلے تو ہمارے پاس کتنی Space بچے گی۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے چٹکی بجانے کا کھیل ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کی 2022ءمیں پی ڈی ایم کی حکومت کو آئی ایم ایف نے انکار کر دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے خصوصی طور پر امریکی حکام کو مداخلت پر مجبور کیا اور ہمیں قرضہ ملا تھا یہ وہی قرضہ تھا جس کے بارے میں ن لیگ آج بھی کہتی ہے کہ ہم نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔
لیکن عملی طور پر اتنے انتہائی اقدام کی نوبت نہیں آئے گی پاکستان کو بخوبی علم ہے کہ اس کھیل میں کسی کے پاس کون کون سے کارڈ میں لہٰذا اس سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ کی سطح پر جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے اس کے پیچھے بیک چینل معاملات بھی خود کار سسٹم کے تحت متحرک ہیں۔ ن لیگ کیلئے ایک اور مشکل یہ ہے کہ یورپی یونین نے پاکستان کے GSP Status کو معطل کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ یہ وہ سہولت سے جس کے حصول کیلئے نواز شریف حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ مقام حاصل کیا تھا جس میں اس وقت کے ن لیگی گورنر چوہدری سرور نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ اگر وہ سہولت چھن گئی تو ہماری ایکسپورٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ اب آپ کس کس کے دم پر دشمنی مول لیں گے۔ اس سے بہتر ہے کہ مذاکرات کے ذریعے براہ راست اور ان ہاو¿س ہی اپنے معاملات کی رفو گری کیوں نہ کرلی جائے۔
تبصرے بند ہیں.