طبی مسائل کا معاشی مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ انسان بیمار ہو اور اِس دور میں بیماری کا علاج ایک سفید پوش شخص کی رسائی میں ہو، ایسا ممکن ہی نہیں۔ مہنگائی اور طبی اخراجات کی بڑھتی شرح نے صحت کو ایک مہنگی اور دسترس سے دور نعمت بنا دیا ہے ۔ میں نے بے شمار لوگوں کو طبی اور معاشی مسائل سے بیک وقت لڑتے دیکھا ہے ۔ میں نے اسی تناظر میں مالی اذیت میں مبتلا ہو کر کتنے ہی لوگوں کو ہمت ہارتے بھی دیکھا ہے ۔ مہنگی ادویات، ٹیسٹوں کی ہوشربا قیمتوں، ڈاکٹرز اور علاج معالجے کی بھاری فیسوں کی وجہ سے کتنے ہی لوگ بے بسی کی تصویر بنے دیکھے ۔ میں نے بالخصوص کینسر کے مریضوں کی امید بھری نظروں سے، ان کے اپنوں کو نگاہیں چراتے بھی دیکھا ہے ۔ مہنگے ترین ٹیسٹوں کی ادائیگی کرتے ہوئے ان کے چہروں پر بے بسی کے واضح آثار بھی دیکھے ہیں ۔ یہ صرف کہانیاں یا جذباتی جملے نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں میں نے گذشتہ کچھ عرصہ میں بہت قریب سے محسوس کیا ہے ۔ میں نے کینسر کا شکار چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوان اولاد تک کو دھکیلتے والدین کے چہروں پر تھکاوٹ کے آثار بھی دیکھے ہیں ۔ کینسر کے طویل اور صبر آزما علاج کیلئے اپنی جمع پونجی لٹانے اور قرض لیتے لیتے تھک جانے پر ان کا حوصلہ ٹوٹتے ، چھپ چھپ کر رونے اور مریض کے سامنے اپنے آنسو پینے کی ناکام کوشش کرتے بھی دیکھا ہے ۔
اس تمام مشاہدے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر کینسر کا علاج اس قدر مہنگا کیوں ہے کہ ایک اچھے خاصے گھرانے کیلئے بھی اسے اٹھانا ناممکن بن جاتا ہے …. اور آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس علاج کو سستا نہیں بنا پا رہے ؟ ۔ اس کے پیچھے جو وجوہات ہیں وہ یہی بتاتی ہیں کہ کینسر ٹریٹمنٹ کیلئے جو مشینری اور ادویات درآمد کی جاتی ہیں، ان کی تیاری پر اچھی خاصی لاگت آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کینسر ٹریٹمنٹ کے تمام عناصر مہنگے اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں ۔ علاج کے ہر عنصر کے ایک ایک سیشن کی قیمت لاکھوں روپے کو چھو رہی ہوتی ہے ۔ دوسری جانب کینسر ادویات کا شمار بھی امپورٹڈ ہونے کی وجہ سے مہنگی ترین طبی آئٹمز میں ہوتا ہے۔ ان ادویات کا مریض کے روزمرہ استعمال میں شامل ہونا بھی ضروری ہے ۔ ادویات کی درآمد ان کی قیمتوں کو مزید
بڑھا نے کا سبب بنتی ہے ۔ جبکہ مذکورہ سیشنز بھی ہر کچھ عرصہ بعد کرواتے رہنا مریض کیلئے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان امور کی وجہ سے انسان کا ماہانہ بجٹ آﺅٹ ہونا اور ایک نہ ختم ہونے والی اذیت کا شکار ہوکر، ہر دن اک نئی آزمائش میں مبتلا ہونا یقینی امر ہے ۔
یہ اذیت کیسے کم ہوگی ، اس پر نہ تو کبھی حکومت نے کچھ سوچا اور نہ ہی ہماری فارما سیوٹیکل انڈسٹری نے ورکنگ کرنے کی کوشش کی ۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری میڈیسن انڈسٹری میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ امپورٹڈ ادویات اور تشخیصی ٹیسٹوں سے لے کر علاج کے دیگر پراسیس میں استعمال ہونے والے امپورٹڈ کیمیکلز کے مقابلے میں مقامی سطح پر کچھ متبادل بنا سکیں ۔
پاکستان میں بہت کم صحت کے ادارے کینسر کا علاج کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو چند کینسر ہسپتال موجود ہیں وہاں پاکستان بھر سے مریضوں کا رش ہوتا ہے ۔ پاکستان میں چھوٹے ، بڑے پیمانے پر جتنے بھی ہسپتال کینسر کو ٹریٹ کر رہے ہیں ، ان میں سے گنتی کے ہسپتال اس علاج کی مکمل سہولیات فراہم کر رہے ہیں جبکہ دیگر ہسپتال صرف ابتدائی علاج کی غرض میں معاون ہیں ۔ اور وہاں علاج کی قیمت بھی آسمانوں کو چھو رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر کے مریضوں کا بوجھ صرف گنتی کے چند ہسپتالوں پر پڑ رہا ہے ، جس کی وجہ سے علاج تاخیر کا شکار بھی ہوتا ہے ۔ دوسری جانب کینسر کے مریضوں کی تعداد سالانہ بنیادوں پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان بڑھ رہی ہے ۔ ایسے میں یہ ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت نہ صرف خود اپنے پیمانے پر کینسر کے علاج کی سہولیات بڑھانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے بلکہ میڈیسن مافیا کو بھی لگام ڈالتے ہوئے ان ادویات کی قیمتوں کے مناسب تعین اور غیر ضروری منافع خوری سے روکنے کیلئے سخت پالیسی وضع کرے ۔ نہ صرف یہ ، بلکہ کینسر کی دوائیوں کی قیمت کو کم کرنے کے لئے مقامی سطح پر دوا سازی کو بھی فی الفور فروغ دینا ہوگا۔ اگر یہ ادویات مقامی طور پر تیار کی جائیں گی تو ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی اور ملک کا درآمد پر انحصار بھی کم ہوگا۔ سائنسی تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری اور بائیو ٹیکنالوجی کے فروغ پر توجہ دینے سے پاکستان میں بھی جدید ادویات کم لاگت پر تیار کر کے صحت کے شعبہ میں انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔
صحت کے شعبہ میں جب انقلاب کی بات آتی ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی اس پر توجہ اور اقدامات کا ذکر بھی لازمی آتا ہے ۔ ہسپتالوں کو سہولیات سے آراستہ کرنا، قطار و انتظار کے نظام سے مریضوں کو نجات دلانا اور علاج کی بروقت سہولیات مہیا کرنا مریم نواز کا ویژن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی سہولیات کا فقدان دور کرنے کیلئے وہ دن رات کام کر رہی ہیں۔ چین کے حالیہ سرکاری دورہ میں انہوں نے کینسر کے علاج کی جدید ٹیکنالوجی پاکستان میں لانے کا معاہدہ بھی کیا ۔ مریم نواز کے توسط سے ہائی جیا میڈیکل ٹیکنالوجی پنجاب آئے گی تو ان لاکھوں مریضوں کا بھلا ہوگا جو کیمو تھراپی، سرجری اور دیگر تکلیف دہ مراحل سے گزرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کم تکلیف دہ علاج ہوگا ۔ یہ نیا طریقہ علاج جدید ترین مشینری کے ساتھ بہت جلد نواز شریف کینسر ہسپتال میں متعارف ہوگا۔ یہ ٹیکنالوجی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی اجاہ داری کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگی ۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کینسر کے دیگر طبی مراکز بھی ہائی جیا ٹیکنالوجی اڈاپٹ کریں گے ۔ گو کہ یہ جدید ٹیکنالوجی پاکستان میں بہت پہلے آ جانی تھی، لیکن نجانے کیوں گذشتہ حکومتوں نے اس اہم ترین معاملے پر توجہ نہیں دی۔ یہ ٹیکنالوجی آنے اور اس سے استفادہ کے بعد علاج معالجے اور اخراجات کی تھکاوٹ کا شکار مریضوں اور ان کے لواحقین کے دلوں سے یہ دعا ضرور نکلے گی کہ ”لانگ لیو مریم نواز“ ۔
کینسر سے جنگ جیتنے میں سب سے بڑی رکاوٹ علاج کی قیمت ہے۔ انسان کے صبر اور حوصلہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز غیر ضروری منافع خوری ترک کریں ، لیب ٹیسٹ، ادویات ، ہسپتال چارجز اور علاج کے دیگر مراحل کی قیمتوں کو مل کر ریگولیٹ کریں ، تو یہ ٹریٹمنٹ عام آدمی کی پہنچ میں لایا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جس طرح ماہِ اکتوبر کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے ، ایسے ہی ایک مہینہ ایسا بھی ہونا چاہیے جس میں بھرپور مہم کے ذریعے کینسر کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مذکورہ امور کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ”غیرت“ دلائی جائے ۔ شاید کہ ان کے کان پر جوں رینگ جائے …. اگرچہ کینسر کے علاج کے اخراجات کو فوری طور پر کم کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ اقدامات کے ذریعے تو اسے ممکن بنایا ہی جا سکتا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.