شہید بینظیر بھٹو

40

عرصہ ہوا وطن عزیز قحط الرجال ایسی صورت حال سے دو چار تھا عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھیں۔ کوئی ایسا مسیحا نظر نہیں آتارہا تھاجو ملک کو در پیش مسائل کی گہری دلدل سے نکال سکے ۔پیٹرول سستا ہونے کے باوجود مہنگائی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا تھا ۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے سخت سردی کے موسم میں بھی عوام کو بجلی دینے سے قاصر تھے اور اب تو گیس بھی کم کم ہی آتی تھی اور ان سب سے بڑھ کر دہشت گردی تھی کہ جس سے اب معصوم بچے بھی محفوظ نہیں تھے اور ہماری قیادت اس قابل بھی نہیں تھی لیکن اس میں قصور کسی اور کا نہیں خود ہمارا تھا اس لئے کہ آج میرے چمن کی جو حالت ہے اسے بگاڑنے میں دوسروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ ہے اس وقت جن حالات سے ہمارا سامنا تھا اس میں ضرورت تھی کسی ایسی لیڈر شپ کی جو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اپنی جان کی پرواہ کئے بنا ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلے کرتی اور پھر 17سال قبل ایک شخصیت نے فیصلہ کیا تھاکہ جان جاتی ہے تو جائے لیکن وہ اپنے وطن ضرور جائیں گی ملک میں ان کی جان کو خطرہ تھا لیکن اس عظیم شخصیت نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر حال میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا کیونکہ آمریت کی سیاہ رات طویل سے طویل تر ہوتی جارہی تھی ۔ آمر اپنے مکمل اختیارات کے ساتھ مسند اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا ۔ حسب روایت اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آئین پامال کرکے ہر قسم کی ترامیم کی اجازت بہت پہلے ہی مل چکی تھی۔ جس کا اس نے بھر پور فائدہ بھی اٹھایا تھا اور جمہوری ادوار کے برعکس آئین کا حلیہ بگاڑنے والی ان ترامیم کے خلاف نہ تو کسی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور نہ ہی جمہوری دور میں ہر روز ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لینے والے کسی منصف کی آنکھ خواب غفلت سے کھلی تھی ۔ آمریت کے بھیانک سیاہ سائے گذشتہ آٹھ سالوں میں وطن عزیز کے ہر ادارے پر اپنا قبضہ مستحکم کر چکے تھے ۔ قومیتوں کے مسائل پیچیدہ ہو چکے تھے پاکستان کی وحدت کی امین لسانی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ خطرناک حد تک صاف الجھتی نظر آرہی تھی ۔ مسلکی اختلافات کی چنگاری فرقہ پرستی کے ہولناک الاﺅ کی شکل میں معصوم انسانی جانوں کو نگل رہی تھی ،دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آکر کشت و خون کی ہولی کھیل رہا تھا، توانائی ، بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان اپنی ابتدائی شکل میں ہی اتنا بھیانک روپ دھار چکا تھا کہ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ مستقبل قریب میںیہ طوفان اتنا شدید ہو جائے گا کہ اس طوفان پر قابو پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا ۔
ان معروضی حالات کی روشنی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی غیور اور بہادر بیٹی نے طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپسی کافیصلہ کیا دخترِ مشرق، پاکستان کے چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ شہید بینظیر بھٹونے 18 اکتوبر کو دوپہر دو بج کر گیارہ منٹ پر طیارے سے باہر آ کر ایک طویل عرصے کے بعد وطن کی مٹی کو دیکھا تو فرطِ جذبات سے آنکھیں نم ہو گئیں ۔ربِ کریم کا شکر ادا کیا ۔داہنے بازو پر بندھے امام ضامن پر نظر پڑی تو اطمنان اور شکر کے جذبات آنسوﺅں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلے۔ ممکن ہے یہ کیفیت زیادہ دیر قائم رہتی مگر فضا میں گونجنے والی جئے بھٹو کی صدائیں جب کانوں تک پہنچی تو یکلخت نظروں نے ان صداﺅں کا تعاقب کرتے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ تا حدِ نگاہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنی قائد کے استقبال کے لئے موجود ہے۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹولاکھوں کارکنوں کے ہمراہ جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئیں، جو کہ شاہراہِ قائدین پر مزارِ قائد کے ساتھ بنائی گئی تھی۔بے پناہ ہجوم کی وجہ سے محترمہ شہید بینظیر بھٹوکا جلسہ گاہ کی طرف سفر انتہائی سست رفتاری سے جاری تھا ہر کارکن کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی قائد محترمہ شہید بینظیر بھٹوکی نزدیک سے ایک جھلک دیکھ لے۔ BBCکی رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی قطاریں دس کلو میٹر لمبی تھیں۔
مگر پھر وہی ہوا کہ جس کا اظہار محترمہ شہید بینظیر بھٹو سمیت اکثر لوگ کر رہے تھے ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹوکا استقبالی قافلہ جب شارع فیصل پر کار ساز کے قریب پہنچا تو ملک دشمن طا غوتی طا قتیں جو کسی موقع کے انتظار میں تھیں انھوں نے جب دیکھا کہ اب تو محترمہ شہید بینظیر بھٹوجلسہ گاہ سے کافی قریب آ چکی ہیں اور ہمارا بس نہیں چل رہا تو انھوں نے بوکھلا کر یکے بعد دیگرے دو خودکش حملے کر دیئے ۔اس وقت آسمان نے جو منظر دیکھا ، تاریخ ِانسانی میں شائد آسمان نے ایسے منا ظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ لوگ دھماکے کی جگہ سے جان بچانے کے لئے دور جانے کی بجائے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی قائد کی حفاظت کے لئے محترمہ شہید بینظیر بھٹوکے استقبالی ٹرک کی طرف دیوانہ وار دوڑ رہے تھے ۔ ہر طرف کارکنوں کی نعشیں بکھری پڑی تھیں اور دہشت گردوں کی بر بریت کی گواہی دے رہے تھے ۔ دہشت گردوں کی اس بہیمانہ کاروائی میں 135افراد شہید ہوئے اور پانچ سو پچاس سے زائد زخمی ہوئے مگر یہ اطمنان تھا کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو ہمارے درمیان موجود ہیں مگر شائد تقدیر نے مزید آزمانا تھا، شائد قسمت میں کچھ اورامتحاں دینے باقی تھے اور شائد وطن کی مٹی کچھ مزید خراج کی طلب گارتھی ۔
27۔دسمبر کو راولپنڈی میں جلسہ گاہ سے واپسی پر محترمہ شہید بینظیر بھٹوجب کارکنوں کے والہانہ جذبات کو دیکھ کر ان کا جواب دینے کے لئے اپنی گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں تو ملک دشمن قوتوں کو موقعہ مل گیا اور پاکستان کے عوام پر ایک قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی ۔عوام کی محبوب رہنما اور وفاقِ پاکستان کی زنجیر کو توڑ دیا گیا ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے شہید ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ استعماری قوتوں کے ہاتھوں سر کٹا تو سکتیں ہیں مگر سر جھکا نہیں سکتیں۔
اب ڈھونڈاس گوہرِ نایاب کو کہ جسے
اپنے ہاتھوں سے خاک کیا تو نے

تبصرے بند ہیں.