پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے، یہ بات نئی نہیں ہے۔ دہائیوں سے دھرائی جا رہی ہے، پاکستان جب 14اگست 1947ءمیں قائم ہوا تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایسا ملک قائم بھی رہ سکے گا کہ نہیں۔ اس کے دو بازوﺅں کے درمیان سینکڑوں میلوں کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ دشمن کی سرزمین پر مشتمل تھا۔ بھارت کی کانگریسی قیادت کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی گروہوں نے تقسیم ہند کو گاﺅ ماتا کی تقسیم قرار دیکر پاکستان کو واپس بھارت دیش میں ضم کرنیکی پالیسی اپنا لی تھی۔ 1971ءمیں کانگریسی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس وقت پاکستان دنیا میں سب سے بڑی مسلم ریاست تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان، اپنا یہ اعزاز برقرار نہ رکھ سکا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بنگالی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے نصف سے زائد تھے۔ ہوتا تو یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت، اکثریتی گروہ سے شکایت کرتی ہے، علیحدگی اختیار کرتی ہے لیکن یہاں تو تاریخ الٹی چال چل گئی۔ اکثریت (بنگالیوں) نے اقلیت (پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان) سے لڑکر علیحدگی اختیار کی اور بنگلہ دیش قائم کر لیا حالانکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان تک بنگالی ہی ہراول کا کردار ادا کرتے رہے تھے لیکن ہم نے پہلے زبان کے مسئلے پر اور پھر وسائل کی تقسیم اور شراکت اقتدار کے مسائل کے حوالے سے ان کی بات نہیں سنی۔ انہیں اپنے حقوق کے حوالے سے شکایات رہیں۔ ایوبی مارشل لاءنے جلتی پر تیل کا کام کیا پھر جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاءکے تحت الیکشنوں کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا، اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا، مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔
1971ءکے بعد بھی ہم نہیں سنبھلے: 1973ءمیں آئین بنا لیا گیا، پاکستان ایک آئینی ریاست بن گئی لیکن اس پر جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے مارشلاﺅں نے حملے کئے۔ ہم سوویت یونین کی افغانستان پر لشکر کشی کیخلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے، افغان مجاہدین کی جدودجہد آزادی کا حصہ ہے، افغانستان آزاد ہوا۔ سوویت لشکر ناکام ہوا لیکن ہمارا کلچر تبدیل ہو گیا۔ کلاشنکوف اور ہیروئن ہمارے کلچر میں داخل ہو گئے۔ ویسے افغان جہاد کے دور میں ہم نے ہیروئن کو ایک تہوار کے طور پر اپنایا۔ اسے مالی وسائل کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ افغانستان میں اشتراکیوں کو شکست دینے کی ہماری یہ حکمت عملی کامیاب رہی لیکن ہم ایک ایسے کلچر کا شکار ہو گئے جو ہمارے لئے نہیں تھا۔ افغان جہاد کے دوران (1980-88)ہم نے جی بھر کر ڈالر بنائے، ہم نے امریکی اسلحہ حاصل کیا۔ اسی دوران ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کیا۔ پاکستان کا دفاع اگر آج ناقابل تسخیر ہے تو یہ اسی دور کی دین ہے پھر جہادی قیادت سانحہ بہاولپور کے نتیجے میں منظر سے غائب ہو گئی، اس کے بعد ہمارے ہاں ایک سیاسی دور کا آغاز ہوا۔ 1988-90، 1990-93، 1993-95 اور 1996-99مختلف ادوار میں پیپلزپارٹی اور ن لیگی حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ درمیانی مدت میں عارضی حکومتیں بھی قائم کی گئیں تاکہ انتخابات کرائے جا سکیں۔ پھر جنرل مشرف کا دور شروع ہو گیا۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف جلاوطن ہوئے۔ جنرل مشرف نے ایک کنگز پارٹی کے ذریعے حکمرانی شروع کی۔ بے نظیر کی سیاست، کامیاب سیاست سے 2008ءمیں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 2013اور 2018ءکے انتخابات ہوئے۔ عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا لیکن یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ 2024ءکے انتخابات عمران خان کو سیاست سے آﺅٹ کرنے کی کاوش جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب ایک ایسی حکومت قائم ہے جسے عمران خان و ہمنوا مانتے ہی نہیں ہیں۔ ویسے یہ حکومت کارکردگی کے اعتبار سے بہت بہتر ہے، ملک کو معاشی استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔
لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال درست نہیں ہے۔ ہم نے 2001ءمیں امریکی اتحادی بن کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننا قبول کیا تھا۔ 20سال تک ہم اس جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کے طور پر شریک رہے۔ ہماری امیدوں اور توقعات کا محور و مرکز طالبان کی فتح اور کابل میں ان کی حکومت تھی پھر 2021ءمیں یہ حکومت قائم ہو گئی۔ ہم نے بھی فتح افغانستان کا جشن منایا لیکن 3سال گزرنے کو ہیں یہی افغانستان ہمارے لئے سردرد بنا ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر خوارج گروہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لئے مصروف عمل ہیں، انہیں صرف انڈین حمایت ہی حاصل نہیں ہے بلکہ ان کے پاس امریکی اتحادی افواج کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار بھی ہیں جن کے باعث اس کی حملہ آور ہونے کی صلاحیت اور نقصان پہنچانے کی قوت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔ ان کا نشانہ پاکستان ہے۔ پاکستان عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے۔ ہماری معیشت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے، ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں براہ راست سرمایہ کاری ہو، پیداواری عمل میں کھلے پن کا اضافہ ہو۔ روزگار کے مواقع بڑھیں، لوگوں کی قابل تصرف شخصی آمدنیوں میں بڑھوتی ہو، خوشحالی آئے لیکن جاری عدم استحکام کے باعث ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ عمران خان فیکٹر بھی ایک بہت بڑا عدم استحکام کا عامل ہے۔ عمران خان فیکٹر مسلسل عدم اطمینان و استحکام کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی چار کمپنیوں پر پابندی لگا دی ہے جو میزائل پروگرام سے متعلق ہیں۔ وہ انتہائی سنجیدگی سے لے جانی چاہئیں کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں مزید عدم استحکام کا شکار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھے ہوئے پرجوش تعلقات امریکہ کو ناپسند ہیں۔ اس حوالے سے امریکی ناخوشی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ افغانستان میں عبرتناک شکست کے حوالے سے بھی امریکہ پاکستان کو الزام دیتا رہا ہے اس لئے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا اور امریکی
چالوں کو بڑی سمجھ داری اور دانائی کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ عمران خان کی تحریک انصاف 20جنوری، ٹرمپ کے حلف وفاداری یعنی اقتدار سنبھالنے کی تاریخ کے ساتھ بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ ٹرمپ کے ایک مشیر/ وزیر تو عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ابھی سے ٹویٹ کرنے لگے ہیں وہ عمران خان کے دوست بھی کہے جاتے ہیں۔ ویسے ان کی حرکات اور کردار کو جان کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی عمران خان کے ساتھ محبت درست ہی ہو گی۔ پاکستان پر پابندیوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیا بلکہ وہ ایسی پابندیوں کے حوالے سے خوشی کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔ پاکستان داخلی طور پر بھی کسی نہ کسی حد تک افتراق و انتشار کا شکار نظر آتا ہے۔ شہبازشریف حکومت پیپلزپارٹی کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی شہبازشریف سے خوش نہیں ہے، ابھی حکومت کو ایک سال بھی نہیں ہوا کہ حکومت کی تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی وقتاً فوقتاً حکومت کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات منواتی نظر آ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی ایسا ہی کچھ کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستانی خوارج کی بے رحم دہشت گردانہ کارروائیوں کا مقابلہ بھی کر رہا ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔ آمین۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.