عمومی طور پر دسمبر کا مہینہ شاعروں کو بے حد پسند ہے۔یہی وجہ ہے کہ شعر و شاعری میں دسمبر کا خصوصی ذکر ملتا ہے۔اس مہینے میں کسی شاعر کو اپنے محبوب کی یاد ستاتی ہے اور کسی کو محبوب کیساتھ گزرے وقت کی۔سال کا یہ آخری مہینہ یقینا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ہم میں سے بیشتر، سال کے اس آخری مہینے میں کچھ نہ کچھ حساب کتاب ضرور کرتے ہیں۔ گزرے برس پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ اس برس ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔دنیا بھر میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ لوگ نئے سال کے حوالے سے New year resolution(s) کے نام پر کچھ ارادے باندھتے ہیں، کچھ ٹارگٹ سیٹ کرتے ہیںاور پھر سارا سال ان مقاصد کے حصول کے لئے مقدور بھر محنت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رواج موجود ہے۔
ہمارے لئے تو خیر دسمبر کا مہینہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے میں ہم بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔قائداعظم نے سخت محنت اور جدوجہد کے بعد ہمیں غلامی سے نجات دلائی ۔ ہمیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ ہمیں پاکستان جیسا پیارا وطن دیا جو ہر طرح کی نعمتوںسے مالا مال ہے۔ہماری خوش بختی کہ قائداعظم کے فرمودات ہر شعبہ زندگی میں ہماری راہنمائی کیلئے موجود ہیں۔ تاہم ہماری بد قسمتی کہ ہم نے قائد کے پاکستان کی قدر کی اور نہ ہی قائد اعظم کے فرمودات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش ۔مثال کے طور پر قائد اعظم آئین و قانون کے علمبردار تھے۔لیکن ہم نے پاکستان بننے کے نو برس تک آئین بنانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ آئین بنایا بھی تو اسے چلنے نہیں دیا۔ 1973کا آئین بنانا لیکن وہ بار بار معطل ہوتا رہا۔ قائد اعظم جمہوریت کے حامی تھے۔ تاہم ہمارے ہاں مارشل لاوں اور آمرانہ ادوار کا تانتا بندھا رہا۔قائد اعظم کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے اصول کو بھی ہم نے پس پشت ڈالے رکھا۔ خیال آتا ہے کہ کاش قائد اعظم اتنی جلدی رخصت نہ ہوتے تو شاید پاکستان کے حالات مختلف ہوتے اور ہمارا شمار بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔
دسمبر کا مہینہ ہمیں سقوط ڈھاکہ کی بھی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا یہ زخم تازہ ہو جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے محض 24 برس کے بعد یعنی 16 دسمبر 1971 کو قائد کا پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ ہمارے 90 ہزار فوجی دشمن کے قیدی ہو گئے تھے۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا اتنا المناک سانحہ ہے جسے سارا سال یاد رکھنا چاہیے۔ لیکن ہم نے اس کی یاد کو 16 دسمبر تک محدود کر رکھا ہے۔ کسی زمانے میں قومی سطح پر اس دن کو منانے کا اہتمام ہوتا تھا۔تاہم کچھ برس سے یہ روایت بھی معدوم ہو گئی ہے۔ اس سال بھی یہ دن خاموشی سے گزر گیا۔ حکومتی سطح پر کسی بڑی تقریب کی اطلاع یا خبر کم ازکم میری نگاہ سے تو نہیں گزری۔پہلے بھی ہم نے سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے بھلا کون سا سبق سیکھاتھا؟ یہ بات بذات خود ایک سانحہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا اتنا بڑا حادثہ ہو گیا۔ لیکن کسی سے جواب طلبی ہوئی ، کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا،اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔کیا زندہ قوموں کا یہ طرز عمل ہوتا ہے؟
2014 میں دسمبر کی 16 تاریخ کو ہی پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا ۔ اس واقعے میں کم و بیش ڈیڑھ سو معصوم بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ہماری قومی قیادت کی حکمت و دانشمندی کا نتیجہ بیس نکاتی قومی ایکشن پلان کی صورت میں سامنے آیا۔ تاہم حمود الرحمن رپورٹ ہی کی طرح نیشنل ایکشن پلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس کی بہت سی شقیں آج تک عمل درآمد کی منتظر ہیں۔افسوس کہ سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی وہی ہیں جو 2014 میں تھے۔ تب بھی اسلام آباد کے ڈی چوک پر ایک سرکس لگا ہوا تھا۔ آج بھی وقتا فوقتا یہ سرکس لگایا جاتا ہے۔ پہلے بھی جلاو ، گھیراو ، مارو یا مر جاو کی سیاست ہو رہی تھی۔ اب بھی یہ ترغیب دینے والے موجود ہیں۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں جذبہ حب الوطنی عطا فرمائے۔ آمین۔
سال کے اس آخری مہینے میں ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد بھی آتی ہے۔ محترمہ کی شہادت ایک قومی سانحہ ہے۔ ان کے طرز سیاست سے قطع نظر، وہ ہماری سیاست کا بڑا نام تھیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزا ز حاصل ہے۔ وہ 35 برس کی عمر میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ اس زمانے میں وہ دنیا کی کم عمر ترین وزیر اعظم تھیں۔بے نظیر بھٹو کی شکل میں پاکستان کا ایک روشن چہرہ دنیا کے سامنے آیا۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی انتخابی ریلی کی قیادت کر رہی تھیں کہ بدبخت دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز رکھنے والی بے نظیر بھٹو ہم سے جدا ہو گئیں۔ تاریخ کا ستم دیکھیے کہ برسوں پہلے 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی راولپنڈی کے اسی کمپنی باغ میں گولی کا نشانہ بنے اور شہید ہو گئے تھے۔اسے نالائقی اور نااہلی ہی کہنا چاہیے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قاتلوں کی نشاندہی ہو سکی اور نہ ہی پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے قاتلوں کا سراغ مل سکا۔ دونوں کے خون ہوا کا رزق ہو گئے۔ آج بے نظیر کا بیٹا بلاول سیاست کے میدان میں متحرک دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بے نظیر بھٹو کی بات مختلف تھی۔ آج ہمیں ایک خاتون مریم نوا ز شریف بھی سیاست کے افق پر جگمگاتی دکھائی دیتی ہیں ، لیکن انہیں بھی ابھی مزید آگے جانا ہے۔ خیال آتا ہے کہ کاش محترمہ زندہ ہوتیں تو شاید ہماری سیاست کا رخ مختلف ہوتا۔ افسوس کہ اس مہینے میں ہم نے سیاست کا ایک بھاری بھرکم نام کھو دیا۔
مجھ سمیت شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کو ماہ دسمبر میں پروین شاکر کی یاد بھی آتی ہے۔ پروین شاکر اپنے وقت کی مقبول ترین شاعرہ تھیں۔ آپ ایک قابل کسٹم آفیسر تھیں۔ سرکاری افسر تو وہ بعد میں بنیں ، ان کی شاعری کی پہلی کتاب ” خوشبو” کے چرچے پہلے سے موجود تھے۔ان کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ مقابلے یعنی سی۔ ایس ۔ایس کا امتحان دے رہی تھیں تواردو کے پرچے میں خود ان کی شاعری پر مضمون کا سوال شامل تھا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد اعزاز ہے جو پروین شاکر کے حصے میں آیا۔ 26 دسمبر 1994 میں ان کی گاڑی اسلام آباد کی ایک سڑک پر ایک تیز رفتار بس کی زد میں آ گئی۔ اس حادثے میں محبت کی شاعری کرنے والی پروین شاکر جاں بحق ہو گئیں۔ ان کی عمر محض 42 سال تھی۔ ان کی وفات کو عشرے بیت چکے ہیں، تاہم آج بھی ان کی شاعری کے چرچے ہیں۔ ان کی کتابوں کے تازہ ایڈیشن تواتر سے چھپتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ پروین شاکر جیسی شاعرہ کا ہم سے رخصت ہو جانا ادب کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ برسوں گزرنے کے بعد بھی پروین شاکر جیسی شاعرہ سامنے نہیں آ سکی ہے۔ اگرچہ وہ ہم میں موجود نہیں ہیں ، تاہم ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔ پروین شاکر نے بجا طور پر کہا تھا کہ
مر بھی جاﺅں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
Prev Post
تبصرے بند ہیں.