شْکر ہے اپنی آنے والی تھاں پر واپس آ کر خان صاحب نے اپنی جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی حکمرانوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ بضد تھے وہ صرف موجودہ سیاسی حکمرانوں کے اصل مالکوں یا آقاؤں سے ہی بات کریں گے ، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے ، خصوصاً جب سے عمران خان جیل میں ہیں میری ہر ممکن یہ کوشش رہی ہے اْن کی کسی غلط پالیسی پر تنقید نہ کروں، کیونکہ یہ شوق میں نے اْن کے اقتدار میں پْورا کر لیا ہوا ہے ، میرے قارئین جانتے ہیں خان صاحب سے میرا ذاتی تعلق تھا ، اس کے باوجود اقتدار میں اْن کی ناقص پالیسیوں کو جتنا رگڑا میں نے لگایا شایدہی اور کسی نے لگایا ہوگا ، وہ اخبارات وغیرہ نہیں پڑھتے تھے ، مگر اْن کی ناقص پالیسیوں کے خلاف لکھے جانے والے میرے کچھ کالم پی ٹی آئی کے کچھ دوست اْنہیں واٹس ایپ پر بھیجتے ، وہ پڑھ کے مجھ سے کہتے’’جب تم مجھ سے بات کر سکتے ہو تو لکھتے کیوںہو ؟‘‘ ، میں عرض کرتا’’میں اْس وقت لکھتا ہوں جب آپ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور آپ اپنی اس ضد پر اڑے رہتے ہیں آپ کا ہر غلط عمل بالکل درست ہے‘‘ ، وہ صرف سوشل میڈیا کے رسیا تھے ، وہ ایمان بلکہ’’ایمان علی‘‘ کی حد تک اس یقین میں مبتلا تھے اْنہیں وزیراعظم سوشل میڈیا نے بنایا ہے، اْن کا یہ یقین اس لئے درست نہیں تھا دْنیا بھر میں خصوصاً پاکستان میں بیشمار لوگ جانتے ہیں اْنہیں وزیراعظم بنوانے میں اصل کردار اسٹیبلشمینٹ کا تھا ، اس حقیقت کو ظاہر ہے اْنہوں نے کبھی سرعام تسلیم کیا نہ کریں گے ، یہ صرف عمران خان کا نہیں ، ہر وزیراعظم کا یہی مسئلہ رہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آتا ہے اور پھر اْسی اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتا ہے ، سیاسی طور پر تو پتہ نہیں اس عمل کو بْرا سمجھا جاتا ہے یا نہیں اخلاقی طور پر کم از کم میں اسے مناسب نہیں سمجھتا کہ جس گھوڑے یا ’’ہوا کے گھوڑے‘‘ پر کوئی سوار ہو کر اقتدار کے محلات میں داخل ہو بعد میں اْسی گھوڑے کو وہ چابک دکھانا بلکہ مارنا شروع کر دے ، جواباً وہ گھوڑا اگر آپ کو دولتیاں مارے اْسے برداشت کر لینا چاہئے یا زمینی حقائق کی طرف واپس لوٹ آنا چاہئے جیسے نواز شریف بار بار لوٹ آتے ہیں ، اور زرداری تو اب شاید مستقل طور پر لوٹ آئے ہیں، یہ درست ہے پاکستان میں کچھ اداروں کو اصلاح کی ضرورت ہے ، دوسری طرف یہ بھی درست ہے یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں،ہم اگر کسی خاص پلاننگ یا خاص ذہنیت کے مطابق اپنے ان اداروں کو نشانہ بنائیں گے اس کا نقصان مْلک کو ہوگا ، خان صاحب کا المیہ یہ تھا وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ، وہ اپنے قومی اداروں کو اس انداز میں ٹارگٹ کرتے تھے جیسے کسی نے اْنہیں باقاعدہ یہ ’’مشن‘‘ سونپا ہو ، اْنہوں نے فوج ، آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر پر جو جارحانہ اور مضحکہ خیز تنقید کی اْسے بہت عرصے تک برداشت کیا جاتا رہا ، ظاہر ہے برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے ، اگر خان صاحب ساری حدیں پار کر رہے تھے پھر ان اداروں سے وہ یہ کیسے توقع کر سکتے تھے وہ ساری حدیں پار نہ کریں اور کسی کو اپنا تمسخر اْڑانے کی مسلسل اجازت دئیے رکھیں ؟ اپنی بچی کھچی ساکھ یا عزت آبرو پر کتنی دیر تک کوئی کمپرومائز کر سکتا ہے ؟ خان صاحب کو میں جب ٹکڑاؤ کی پالیسی سے گریز کرنے کی گزارش کرتا ، وہ مجھ سے کہتے ’’ تم پاکستان میں رہتے کب ہو ؟ سال میں آٹھ مہینے تو تم باہرہوتے ہو ، تمہیں کیا پتہ پاکستان اب تبدیل ہوچکا ہے ، پاکستان کا ہر ادارہ بشمول فوج اور عدلیہ اب پی ٹی آئی کے تابع ہے‘‘ ، اْس وقت پی ٹی آئی کے ایک راہنما خان صاحب کے بہت قریب تھے ، اْن کی خدمت میں باقاعدہ حاضر ہو کر میں نے یہ گزارش کی ’’وہ خان صاحب کو سمجھائیں ‘‘اپنے اداروں کو مسلسل ٹارگٹ کرنا چھوڑ دیں‘‘ ، وہ بولے’’جس تبدیلی کے لئے خان صاحب نے جدوجہد کی وہ آگئی ہے ، اْس تبدیلی کے مطابق پاکستان کا نیا جی ایچ کیو اب بنی گالہ اور آئی ایس آئی کا نیا ہیڈ کواٹر زمان پارک ہے‘‘ ، مجھے یہ باتیں سْن کر دْکھ ہوتا تھا ، میں سمجھتا تھا بڑی مشکل سے مْلک کو ٹْو پارٹی سسٹم سے نجات ملی ہے ، ایک تیسری پارٹی ( پی ٹی آئی ) اقتدار میں آئی ہے اْس کی سوچ ہر گز اپنے ہی اداروں کا تمسخر اْڑانے یا اْنہیں ننگا کرنے کی نہیں ہونی چاہئے ، اس جماعت نے لوگوں کو تبدیلی کے جو خواب دکھائے تھے ، وہ ’’تبدیلی‘‘ صرف یہ تھی اپنے ہر مخالف کو وہ دولتیاں مارنا شروع کر دیں ؟ اب جبکہ اْن کے مخالفوں نے آگے سے اْنہیں ’’چار لتیاں‘‘ مارنا شروع کر دی ہیں وہ اپنی’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آ کر سیاسی حکمرانوں سے مذاکرات کے لئے رضا مند ہوگئے ہیں ، پہلے وہ بضد تھے ’’ہم سیاست دانوں سے بات نہیں کریں گے ، ہم وہاں بات کریں گے جہاں طاقت موجود ہے‘‘ ، عرض یہ ہے اگر آپ نے نیلسن مینڈیلا ہی بننا ہے پھر کسی سے بات کرنے کی آپ کو ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ احساس ڈیڑھ سال جیل میں رہنے کے بعد آپ کو کیوںہوا کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ آپ کے لئے آپ کی پارٹی حتی کہ مْلک کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا نہیں ہے؟ ، یہی احساس آپ کو اپنا اقتدار گنوانے سے زرا پہلے ہوجاتا یا اقتدار کھونے کے فوری بعد ہوجاتا آپ کے لئے اس قدر مسائل پیدا نہ ہوتے ، آپ صرف ’’عوام کی طاقت‘‘ پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ، یہ طاقت آپ نے اچھی طرح دیکھ لی ہے ، آخر میں صرف مذاکرات کا راستہ ہی بچا ہے ، شکر ہے آپ اس راستے پر چلنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں ، اور شکرہے امریکی صدر ٹرمپ کے حلف اْٹھانے سے پہلے پہلے وہ طاقتور بھی اس راستے پر چلنے کے لئے تیار ہوگئے جو یہ طے کر کے بیٹھے تھے’’اس بار امریکہ کو بھی دیکھ لیں گے ، اور’’فساد کی جڑ‘‘ کسی صورت میں دوبارہ پھیلنے نہیں دیں گے‘‘ ، ایک بار اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے خان صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا’’میں نے پرویز مشرف دور میں بھی وزیراعظم شوکت عزیز کے بجائے آمر کے نمائندے سے بات کی تھی‘‘ ، وہ سمجھتے تھے’’اب چونکہ اْن کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب ڈائریکٹ آرمی چیف جیل میں آ کر اْن سے مذاکرات کریں‘‘ ، شکر ہے اب وہ اپنی آنے والی تھاں پر واپس آگئے ہیں ، اب موجودہ کم ظرف سیاسی حکمرانوں کی خدمت میں بھی عرض ہے وہ مزید شرپسندیاں کر کے اپنے مالکوں یا آقاؤں کے لئے مزید مسائل پیدا نہ کریں، مذاکرات اگر واقعی کامیاب ہو رہے ہوں اْس میں اپنا کوئی نیا لْچ تلنے یا کوئی نئی سازش کرنے کی کوشش نہ کریں ، پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم جب اْن کے سامنے ہو ، اس شعر کو لازمی ملخوظ خاطر رکھیں
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا اْنہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبرہوئی کہ یہ راستہ کوئی اورہے
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.