پالتو جانور وں کی عادات و اطوار کے بارے میں انسان جلد ہی جان جاتا ہے لیکن ایک یہ حضرتِ انسان ہیں کہ انہیں کُھلتے کُھلتے دہائیاں لگا جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں کچھ کردار تو ایسے ہوتے ہیں کہ ہم اُن کے بارے میں کبھی حتمی رائے قائم ہی نہیں کرپاتے خواہ آپ اُن کے ساتھ جتنا مرضی وقت گزار لیں ۔میرا عمران شناسی کا کوئی دعویٰ تو نہیں لیکن مجھے انسانو ں کے اندر جھانکنے کی عادت ہے ۔ ایک دانشورکے قول کو نقل کرتے ہوئے برادرم ضیاء الحسن نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں کہا تھا کہ جب ہم ناول پڑھتے ہیں تو ہم ایک زندگی پڑھتے ہیں ۔ یہ بات یقینا درست ہے لیکن میں صرف اِس میں یہ شامل کرنا چاہتا ہوں کہ عام زندگی میں ہم انسان کی صرف اُس زندگی کے بارے میں جانتے ہیں جو وہ ہمارے سامنے گزار رہا ہوتاہے ۔ اُس کے اندر کاانسان کیسی زندگی گزارتا ہے اس بارے میں ہمیں زیادہ جانکاری نہیں ہوتی لیکن ناول پڑھتے ہوئے ہم انسانی رویے اور اُن تمام محسوسات سے آشنا ہو جاتے ہیں جوکردار ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر اسی طرح کی انسان جب ویسی ہی حرکات و سکنات کے ساتھ ہمیں عام زندگی میں ملتے ہیں تو انہیں سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ میری عمران نیازی کے بارے میں کبھی یہ رائے نہیں تھی کہ وہ ایک بہادر، معاملہ فہم، زیرک اورہمدرد انسان ہے۔ میں اور تحریک انصاف میں موجود میرے دوستوں کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر اپنی بساط کے مطابق ورکروں کی تربیت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی اور میں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق ڈلیور کردیا لیکن بائیس سال کی اِس مسلسل جدو جہد کا نتیجہ یہ تھا کہ عمران نیازی نے اپنے تمام تر بغض کے باوجود اِس بات کااعتراف نیشنل چینلز پرکیا کہ جمشید بٹ نے ورکروں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ اُسی دن کی بات ہے جب وہ الیکشن سے پہلے آخری بار ورکروں سے ملنے لاہور گارڈن ٹاون کے آفس میں آیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اُس نے یہ اعتراف اپنی تقریر میں کیا ۔اُس دن میں اور شبیر سیال سٹیج پر عمران نیازی کے دائیں بائیں بیٹھے تھے اور پروگرام ختم ہونے کے بعد جب شبیر سیال نے مجھے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا :’’ آج تو چیئرمین بانی کارکنوں کی بڑی تعریفیں کر رہا تھا ۔‘‘ تومیں نے پلٹ کر قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا :’’ شبیر سیال آج اُس نے ورکروں کو فارغ کردیا ہے وہ الیکشن میں نئی ٹیم لے کرجائے گا اور فوجی جنتا کے ساتھ مل کر نئے ساتھیوں کے ساتھ اپنا بیڑہ غرق کرے گا ۔بات آئی گئی ہو گئی اور پھر عمران نیازی کے ساتھ میری وزیر اعظم بننے سے پہلے آخری ملاقات شالیمار باغ کے مین گیٹ کے سامنے جمشیداقبال چیمہ کے جلسہ عام کے سٹیج پرہوئی ۔ عمران نیازی میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا لیکن اچانک مجھ سے لاہور کی صورت حال بارے پوچھتے ہوئے اُس نے سب سے پہلے جمشید اقبال چیمہ کا پوچھا تو میں نے کہا : ’’ چیئرمین ! یہ بُری طرح ہار جائے گا کیونکہ اِس نے آج ہی آپ کے آنے پر وسائل خرچ کیے ہیں ۔‘‘ عمران نیازی نے ڈاکٹر یاسمین راشد بارے استفسار کیا تو میرا جواب تھا :’’ اُس کی ہیٹرک ہو گی ۔‘‘ عمران نیازی نے چونکتے ہوئے میری طرف بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا :’’ ہیٹرک سے کیامراد ہے ؟‘‘ میںنے کہا :’’ جناب کرکٹ آپ نے کھیلی ہے اورہیٹرک کا مجھ سے پوچھ رہے ہیں محترمہ تیسری بارہاریں گی۔‘‘ عمران نیازی کو خیال پیدا ہوا کہ چونکہ میرا تعلق عبد العلیم خان سے بہت زیادہ ہے بلکہ میں نے انٹر پارٹی الیکشن 2013ء کے بعد تحریک انصاف کی ساری سیاست عبد العلیم خان کے ساتھ مل کرکی تھی سو اُس نے اندھیر میں تیر چلاتے ہوئے عبد العلیم خان کی نشست بارے پوچھ لیا جو اُن کے بائیں جانب بیٹھے تھے ۔میں نے انتہائی راز داری سے بتایا کہ’’ عبد العلیم خان بھی ہار جائیں گے ۔‘‘ عمران نیازی شاید مجھ سے اِس جواب کی توقع ہی نہیں کر رہے تھا سو اُس نے حیرت سے پوچھاکہ وہ کیسے ؟جس پر میں نے جواب دیا :’’ جنابِ چیئرمین ! عبد العلیم خان کو آپ نے اپنے حلقہ ء انتخاب کی ذمہ داری دے رکھی ہے اور وہ آپ کے حلقہ کے باہر نکل کر اپنی ایم این اے کی سیٹ کیلئے ویسے کام نہیں کر پا رہا جیسے امیدوار کو کرنا چاہیے لیکن میں آپ کو ایک بات بتادوں کہ اس بار صرف عبد العلیم خان کی وجہ سے آپ لاہور سے پہلی بار جیتیں گے ۔’’ 1996 ء سے لے کر 2018ء تک عمران نیازی نے جتنے بھی الیکشن لڑے ہیں وہ بُری طرح ہار دیئے تھے لیکن 2018 ء کے انتخاب میں عبد العلیم خان نے نہ صرف اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ کی قربانی دی بلکہ اِس نشست پر اٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات بھی برداشت کیے ۔پھر عبد العلیم خان کے ساتھ محسن کشی ٗ بے شرمی اور گرفتار کروا کر بے غیرتی کی جو تاریخ رقم کی گئی وہ الگ سے ایک داستاں ہے جو میں انتہائی دیانتداری سے کتابی شکل میں تحریر کررہا ہوں ۔اللہ واقعی حق ہے ٗ آج محسن کش عمران نیازی جیل میں زندگی کے بدترین دن گزار رہا ہے اور عبد العلیم خان قوم کی خدمت میں مصروف ہے جس کے مثبت نتائج آ بھی رہے ہیں اور آتے بھی رہیں گے کیونکہ عبد العلیم خان ہو یا پھر کوئی اور ٗ اللہ اچھے آدمی کے ساتھ کبھی بُرا نہیں ہونے دیتا ۔میں آج بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عبد العلیم خان نے انتہائی اہم موقع پر فیصلہ کرکے نیازی سے رستے جدا کیے کیونکہ آج آپ دیکھ لیں اُس نے جس جس کو’’ عزت ‘‘دی آج سود کے ساتھ واپس وصول کررہا ہے۔ تحریک انصاف ہرگز کوئی نظریاتی جماعت نہیں ٗ انارکسٹوں کا ایک گروہ ہے جس نے نوجوان نسل کو ورغلانے کی کامیاب کوشش کرکے ریاست ِ پاکستان کے اداروں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔اُسے کسی قسم کی رعایت دینا ریاست کے ساتھ بدترین زیادتی ہو گی جس کے ذمہ داران وہ تمام ادارے ہوں گے جن کے پاس آج عمران کے جرائم کی فہرستیں اور مقدمات ہیں۔
یہ قصہ سنانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ عمران نیازی کو جتنا میں نے قریب سے دیکھا ہے وہ ہرگز اتنا بہادر یا نظریاتی یا پھر ضدی نہیں ہے جس کا اظہار وہ جیل میں بیٹھ کر کر رہا ہے ۔ میں انتہائی دیانتداری سے لکھ رہا ہوں کہ عمران نیازی مذاکرات میں الجھا کرریاست ٗ حکومت اور قوم کامزید قیمتی وقت ضائع کر نا چاہتا ہے۔ ایک بزرگ کالمسٹ جو سینٹر بھی ہیں انہوں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف میں مذاکرات کا اختیار کس کے پاس ہے معلوم ہی نہیں پڑ رہا اور پھر اگر سب کچھ ہونے کے بعد عمران نیازی یوٹرن لے لیتا ہے تو پھر اُس کا کیا کیاجائے گا ۔ میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ مذاکرات کا اختیار عمران نیازی کے پاس بھی نہیں ورنہ وہ کب کا اپنی جان چھڑا چکا ہوتا وہ دراصل ہز ماسٹر وائس ہے جو اپنے کسی گمنام آقا کی زبان بول رہا ہے ۔ عمران نیازی کو پہچاننے میں ہم نے بھی غلطی کی لیکن ہم سے بڑی غلطی فیض حمید اور باجوہ نے کی جس نے پاکستان ہی اٹھا کر اُس کی گود میں رکھ دیا ۔ بلاشبہ ہم انسانوں کے بارے میں حتمی رائے نہیں دے سکتے ۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.