دعوے نہیں عملی اقدامات

73

ایک جانب پاکستانی عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور آبادی کے بڑے حصے کو پوری خوراک بھی میسر نہیں ایسے میں پاکستان کے باسیوں بالخصوص پنجاب کے عوام کے لیے یہ خبر بجلی بن کر گری ہے کہ ان کے نمائندوں نے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی نے اپنے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے اب ایم پی ایز کی تنخواہ میں 526 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بل کسی اور نے نہیں بلکہ وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے پیش کیا جن کا تعلق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے جو پاکستان کے غریب عوام کے غم میں ہر لمحہ گُھلنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔

عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل کی منظوری کے بعد ایک ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار روپے بڑھ کر4 لاکھ روپے ہو جائے گی۔ وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھ کر 9 لاکھ 60 ہزار، سپیکر کی سوا لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے 9 لاکھ ہو جائے گی۔ ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھ کر پونے 8 لاکھ، پارلیمانی سیکرٹری کی 83 ہزار روپے سے بڑھ کر 4 لاکھ 51 ہزار روپے، ایڈوائزر ٹو وزیر اعلیٰ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھ کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے ہو گی۔ وزیر اعلیٰ کے سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھ کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے ہو جائے گی۔
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اب بھی عوام کی ننگی پیٹھوں پر مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول کے تازیانے مسلسل برس رہے ہیں اور حکومت کے پاس عوام کو درپیش مسائل کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔ پنجاب اسمبلی میں کثرت رائے سے اس بل کی منظوری سے یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہو چکی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی بھی سیاسی جماعت پیچھے نہیں بلکہ اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے۔
ہمارے ایک دوست اور معروف صنعت کار شیخ ابراہیم کا کہنا ہے ٹیکسوں کی بھرمار، واضح حکومتی پالیسی کے نہ ہونے اور مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول کے باعث ملکی صنعت کا بڑا حصہ بند ہو چکا ہے اور جو رہ گیا ہے اس کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن نہ سہی مشکل ترین ضرور ہو چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارباب اختیار ملکی صنعت و حرفت کو بند کر کے صنعت کاروں کو بھی ایسے تاجر بنانا چاہتے ہیں جو چین سے سامان منگوا کر پاکستان میں بیچیں۔ شیخ ابراہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ سٹاک ایکسچینج کے تاریخ کے بلند ترین مقام پر پہنچ جانے کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی معیشت سنبھل چکی یا ترقی کر رہی ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے بلند ہونے کے محرکات مختلف ہیں بعض خفیہ ہاتھ بھی سٹاک ایکسچینج میں اچانک بھاری سرمایہ لگا کر اسے بلند کر دیتے ہیں جس کا یقینا یہی مطلب ہے کہ ایسا تاثر دے کر وہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر دکھانا چاہتے ہیں یہ عجب بات ہے کہ ملکی صنعت بند ہو رہی ہے اور سٹاک ایکسچینج اوپر جا رہی ہے۔

ایسے میں رہی ملکی سیاسی صورتحال تو وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ خود عمران خان ہیں۔ یہ بیان کسی حد تک درست بھی نظر آتا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور نے ریاست پر حملہ آور ہونے کا حالیہ بیان کس کے اشارے پر دیا؟ کیا ان کا یہ بیان ریاست کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان نہیں ہے؟ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو سول نافرمانی شروع کرنے کیلئے بانی پی ٹی آئی کے حکم کا انتظار ہے، بانی پی ٹی آئی جب بتائیں گے تب سول نافرمانی تحریک شروع ہو گی۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ حکومت کو ایک طرف بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات کا سامنا ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی مسلسل چلتی ہوئی احتجاجی تحریک نے تاحال سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو حکومت کچھ کام کر سکے۔ ایسے میں پنجاب اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ایک حکومتی وزیر کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں سنگین جرائم کی وارداتوں میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ نہ جانے یہ بیان کن اعداد و شمار پر دیا گیا ہے حالانکہ حقائق تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ حقیقت حال تو اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت محض دعوؤں اور وعدوں کے برعکس ایسے عملی اقدامات اٹھائے جس سے نہ صرف مہنگائی میں کمی واقع بلکہ عوام کو درپیش بنیادی مسائل کا تدارک بھی ہو۔

تبصرے بند ہیں.